زینب کا قاتل گرفتار‘ اعتراف جرم: بس چلے تو بھیڑیئے کو چوک میں پھانسی دوں: شہباز شریف‘ روزانہ سماعت ہو گی: چیف جسٹس ہائیکورٹ
قصور+گنڈا سنگھ والا+لاہور (نمائندہ نوائے وقت+نامہ نگار+ایجنسیاں+نوائے وقت رپورٹ) قصور میں14روز قبل اغواء اور زیادتی کے بعد قتل ہونے والی 7سالہ زینب اور دیگر 7بچوں کے قاتل عمران علی ولد ارشد کو ڈی این اے میچ ہونے پر پاکپتن سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ملزم جو مزید تفتیش کیلئے فرانزک لیب لاہور منتقل کر دیا گیا ہے ،زینب کے ورثاء اور لوگوں نے ملزم کو سرعام پھانسی دینے کا مطالبہ کیا ہے ،ملزم کے گھر کے باہر پولیس کاکڑا پہرا لگا دیا گیا ، ملزم نے عتراف جرم کرلیا۔ تفصیلات کے مطابق 4جنوری کو روڈ کوٹ کے علاقہ سے اغوا ہونے والی 7سالہ زینب کو 14روز قبل زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا جس کی نعش کشمیر چوک کے قریب کچراکنڈی سے ملی پولیس کے مطابق ملزم عمران ولد ارشد کا ڈی این اے میچ ہونے پر گرفتار کر لیا گیا جو زینب کا پڑوسی ہے ۔پولیس کے مطابق زینب کی لاش ملنے پر زینب کے رشتہ داروں روڈ کوٹ ،پیرووالا روڈ اور دیگر آس پاس علاقوں کے لوگوں کا تقریباً ایک ہزار افراد کا فوٹیج کے مطابق مشابہت رکھنے والے لوگوں کا ڈ ی این اے کر وایا گیا اسی دوران زینب کے پڑوسی ملزم کو بھی ڈی این اے کیلئے حراست میں لیا گیا جس کو زینب کے خاندان اور محلہ داروں کے کہنے پر ڈی این اے کئے بغیر چھوڑ دیا گیا محلہ داروں کا کہنا تھا کہ یہ ہمارا ملزم نہیں ہے اور یہ درندگی زدہ کام نہیں کرسکتا مگر اس کے باوجود پولیس نے ملزم عمران کو ٹریک کر تی رہی اسی دوران ملزم ضلع سے باہر پاک پتن چلاگیا اور ملزم نے اپنی ڈھاڑی صاف کروا کر کلین شیو کروالی، سپیشل برانچ کی رپورٹ کے مطابق ملزم کو دوبارہ حراست میں لیا گیا اور ڈی این اے کروا کر چھوڑ دیا گیا جس پر ایک بارپھر ملزم شہرسے بار چلا گیا جب ڈی این اے کی رپورٹ آئی تو ڈی این اے ملزم عمران سے میچ کر تا تھا جس پر ڈی پی او قصور نے خود ملزم کو گرفتار کیا۔ ملزم نے تفتیش کے دوران اعتراف جرم کیا جس کی ریکاڈنگ کر لی گئی ہے‘ زینب کے والد کو ڈی پی او قصور اپنے ہمراہ لاہور لے کر گئے ہیں ،اس کے علاوہ ملزم عمران کی خبر بریک ہوتے ہی مشتعل شہریوں کی بڑی تعداد نے ملزم کے گھر کی طرف رخ کرلیا اور ملزم کے گھر کو آگ لگانے کی کوشش کی پولیس نے پہلے ہی ملزم کے اہلخانہ کو محفوظ مقام پر پہنچا دیا اور گھر کو تالا لگا کر بھاری نفری کے ساتھ کڑا پہرا دیا جبکہ محلہ داروں سے ملزم کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ملزم عمران ایک نعت خواں تھا ملزم عمران محلے کے بچوں سے کافی گلاملا ہوا تھا اور محلے کے بچوں کو اکثر چاکلیٹ اور ٹافیاں وغیر ہ لیکر دیتا تھا اس کا والد ڈیڑھ ماہ قبل فوت ہوچکا ہے جو مستری تھا اور ملزم کے تین بھائی اور دو بہنیں ہیں ملزم عمران کے پاس لوگ دم درود کیلئے بھی جاتے تھے اور اس میں جن وغیرہ بھی حاضر ہو تے تھے اسکے علاوہ وہ گھر کی بیٹھک میں الیکٹریشن کا کام بھی کرتا تھا اور اس کو مرگی کے دورے بھی پڑتے تھے ۔ پولیس عمران علی سے قصور میں مزید بچیوں کے ساتھ ہونے والے زیادتی کے واقعات کے حوالے سے تفتیش کررہی ہے جبکہ پولیس نے ابتدائی رپورٹ بنا کر وزیراعلی پنجاب شہباز شریف کو بھی ارسال کردی ہے۔ اس حوالے سے زینب کے والد حاجی امین انصاری نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا وہ تفتیش سے مطمئن ہیں اور کورٹ روڈ کا رہائشی عمران علی ان کا محلہ دار ہے اور ان کے پیچھے گھر میں رہائش پذیر ہے اس کے ساتھ کوئی دوسرا رشتہ داری نہیں ۔ ملزم کی متعدد تصاویر بھی جاری کی گئی تھیں۔ ملزم عمران علی کی عمر 24 سال کے قریب ہے۔ ملزم اپنے دو چچا کے ہمراہ ایک ہی گھر میں رہتا تھا۔ ملزم نے بیان دیا ہے کہ اس نے زینب سے کہا آئو تمہارے والدین عمرے سے واپس آگئے ہیں والدین کا سن کر زینب خوشی خوشی ملزم کے ساتھ چل دی۔ سفاک درندے نے پہلا زیادتی کا واقعہ جون 2015ء میں کیا۔ ملزم کی درندگی کا نشانہ بننے والی 3 بچیاں زندہ ہیں۔ 8 جولائی 2013 کو ایک بچی سے زیادتی کے دوران زیرتعمیر مکان میں ایک شخص آگیا۔ ملزم اور وہ شخص اندھیرے میں گتھم گتھا بھی ہوئے۔ ملزم عمران اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر فرار ہوگیا۔ ذرائع کے مطابق قتل میں اے ٹی سی کی دفعہ 7 اے ٹی اے لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ملزم زینب کے گھر سے تقریباً 120 فٹ کے فاصلے پر رہتا ہے۔ ملزم واقعہ کے بعد زینب کے اہل خانہ کے ساتھ ساتھ رہا۔ ملزم عمران احتجاج اور ننھی زینب کے جنازے میں بھی شامل تھا۔ ملزم عمران کو 19 اور 20 جنوری کی شام کو حراست میں لیا گیا۔ گرفتاری کے وقت ملزم مقامی ہوٹل میں چائے پی رہا تھا۔ ملزم کے بھائیوں‘ بہنوں اور قریبی رشتہ دار کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے۔ ملزم کا والد نفسیاتی مریض تھا جو انتقال کرچکا ہے۔ ملزم کا پہلا ڈی این اے 14 ‘ دوسرا 20 جنوری کو کیا گیا۔ ترجمان پنجا ب حکومت ملک احمد خان نے زینب کے قتل میں ملوث ملزم کی گرفتاری کی تصدیق کردی۔ ملک احمد خان نے کہا کہ زینب قتل کیس میں عمرا ن نامی ملزم کو گرفتار کیاگیا ہے،ملزم کو پاکپتن کے قریب سے گرفتار کیا گیا جبکہ ملزم کا دوبارہ ڈی این اے کرایا گیا ہے اور عمران کے ڈی این اے کی مزید تصدیق کیلئے کچھ وقت درکار ہے۔ ترجمان پنجاب حکومت نے کہا کہ تینوں زیر حراست افراد کو فرانزک لیب لایا گیا ہے جن کا پولی گرافک ٹیسٹ لیا جا رہا ہے۔ پوچھ گچھ کے دوران ملزم نے اعتراف کیا کہ میرا پیر مجھ پر دم کرتا ہے جس وجہ سے مجھ میں جن حا ضر ہو جاتے ہیں اور میں یہ گھنائونا کام کرنے پر مجبور ہو جاتا ہوں ۔ پولیس ذرائع کے مطابق ملزم نے زینب کے علاوہ قصور میں سات بچیوں کے ساتھ ساتھ زیادتی کے قتل کے علاوہ وہاڑی اور دیگر علاقوں میں مزید آٹھ سے زائد بچوں کے ساتھ زیادتی کا انکشاف بھی کیا ہے۔ پولیس نے ملزم کے بیان کے بعد اس کے حافظ سہیل نامی پیر کو بھی قصور کے علاقے سے گرفتار کر لیا گیاہے جس کو مزید تفتیش کے لیے سی آئی اے پولیس کے حوالے کردیا گیا ہے۔پولیس کے مطابق ملزم انتہائی شاطر ہے اور کئی بار پولیس کو چکما دینے میں کامیاب ہو چکا ہے۔ ملزم کئی دنوں سے پولیس کی تفتیش اور ڈی این اے کے متعلق لو گوں سے معلومات حاصل کر رہا تھا ۔ پولیس نے ملزم کو انتہائی سکیورٹی میں لاہو ر منتقل کر دیا جس کو سپریم کورٹ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ملزم جرم کے آدھے گھنٹے بعد قتل کرکے لاش پھینک دیتا۔ واقعہ کے بعد ملزم پہلے دو دن غائب رہا۔جے آئی ٹی کے مطابق 5ملزمان کو نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ چار ملزموں نے عمران کو روپوش ہونے میں مدد دی تھی۔ فرانزک لیبارٹری نے رپورٹس جے آئی ٹی کے حوالے کر دیں۔ زینب قتل کیس کا ایک ملزم وعدہ معاف گواہ بن گیا۔
لاہور+قصور+ملتان( نامہ نگار +نمائندہ نوائے وقت+ سپیشل رپورٹر ) وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے زینب کے والد حاجی امین انصاری کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا ہے کہ زینب معاملے پر پوری قوم اشکبار ہے۔ زینب کے والد کا بے حد شکر گزار ہوں۔ زینب بیٹی کو درندگی کے ساتھ قتل کیا گیا، جے آئی ٹی نے شبانہ روز محنت سے کیس حل کیا زینب آج دنیا میں نہیں، قوم کے دل رنجیدہ ہیں۔ زینب کے قاتل کو گرفتار کرلیا گیا۔ دل کی گہرائیوں سے کابینہ کمیٹی، آرمی چیف، ڈی جی فرانزک لیب کا شکر گزار ہوں، قاتل کا نام عمران ہے اور یہ سیریل کلر ہے۔ فرانزک لیب میں 1150 ڈی این اے ٹیسٹ ہوئے تب یہ درندہ پکڑا گیا اس کے پولی گرافک ٹیسٹ بھی ہوئے، زینب کے قاتل کی گرفتاری محنت اور اجتماعی کاوشوں کا نتیجہ ہے ٹیم نے یہ سمجھ کر کام کیا کہ اگر ان کی بیٹی ہوتی تو کیا ہوتا۔ یہ لوگ راتوں کو نہیں سوئے، پولی گرافک ٹیسٹ میں درندے نے تمام درندگیوں کا اعتراف کیا ہے۔ ڈی این اے کی 100 فیصد میچنگ کے بعد ملزم کو گرفتار کیا گیا، یہ عظیم کامیابی سائنٹیفک اور ہیومن انٹیلی جنس کی بدولت ملی، پہلا مرحلہ مکمل ہوگیا اب دوسرا مرحلہ ہے۔ میرے بس میں ہو تو اس بھیڑئیے اور درندے کو چوک میں پھانسی دوں لیکن ہم سب قانون کے تابع ہیں۔ میری چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے درخواست ہے کہ اس کی جلد سماعت کی جائے۔ اگر قانون اجازت دے اور حاجی صاحب کا بھی یہ مطالبہ ہے کہ اسے چوراہے پر پھانسی دی جائے۔ ایسے ظالموں کو قانون نہیں آہنی ہاتھ کے ساتھ کچلنا چاہئے۔ اگر پنجاب فرانزک لیبارٹری نہ ہوتی تو اسے پکڑنا ممکن نہیں تھا۔ ہم لمحہ بہ لمحہ اس کیس کا جائزہ لیتے رہے ہیں مجھے رات کو پتہ چل گیا تھا میں نے فرانزک لیب ڈی جی سے کہا کہ اس کا کسی سے ذکر نہ کرنا۔ میں خود آئوں گا اور دوبارہ ڈی این اے ٹیسٹ ہوگا میں نے اپنے سامنے ڈی این اے ٹیسٹ دوبارہ کرایا اور ثابت ہوگیا کہ یہی درندہ ہے۔ چودہ دن کی محنت سے زینب کیس کا ملزم پکڑا گیا۔ اس درندے کیخلاف کیس انسداد دہشتگردی عدالت میں جائے گا۔ ایسے کیسز کیلئے قانون میں تبدیلی کرنا پڑے تو کی جائے۔ مردان میں بھی ایک بیٹی اس طرح کی درندگی کا نشانہ بنی ہے۔ پنجاب کی فرانزک لیب ایسے کیسز میں مدد کیلئے حاضر ہے خیبر پی کے حکومت سے گزارش کروں گا پنجاب فرانزک لیب انکی مدد کرے گی۔ علاوہ ازیں زینب کے والد نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمام اداروں کا شکریہ ادا کرتا ہوں ، اجتماعی کوششوں سے ملزم گرفتار ہوا۔ بیٹی کے قاتل کی گرفتاری پر مطمئن ہوں، ملزم کی گرفتاری پر سکیورٹی اداروں کا شکر گزار ہوں۔ ایک اور نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملزم بچی کو ہم سے ملانے کا کہہ کر لیکر گیا تھا۔ میں نے خود اپنے بچوں کو اس طرح کے واقعات سے بچنے کا بتایا ہوا تھا۔چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس منصور علی شاہ نے زینب قتل کیس کا روزانہ ٹرائل کرنے کا اعلان کر دیا۔ چیف جسٹس منصور علی شاہ نے متعلقہ عدالت کو ہدایات جاری کردیں بہاولپور میں تقریب سے خطاب کرتے انہوں نے کہا کہ ڈسٹرکٹ جج زینب قتل کیس کی سماعت روزانہ کی بنیاد پرکریں گے۔ زینب قتل کیس کی سماعت کرتے ہوئے انصاف کیا جائے گا۔ پتہ چلا ہے کہ وزیراعلی شہباز شریف نے کیس کی جلد سماعت کی درخواست کی ہے۔ وزیراعلی کو یقین دلاتا ہوں زینب کیس کی روزانہ سماعت ہو گی۔قبل ازیں ملتان بنچ میں اپنے اعزاز میں الوداعی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سید منصورعلی شاہ نے کہا ہے کہ ادارے پیار و محبت سے چلتے ہیں‘ ڈروخوف سے نہیں۔ ٹیم ورک کے تحت کارکردگی میں نکھار آتا ہے۔ مثبت سوچ کئی راستے کھول دیتی ہے اچھا ادارہ وہ ہوتا ہے جو لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کرے۔لوگوں کو انصاف فراہم کرنے والا ادارہ کرپشن فری ہونا چاہئے۔ بدقسمت شخص ہوتا ہے جو کرپشن کرتا ہے اسے حساب یاد رکھنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ عدالتوں میں ستائے ہوئے لوگ آتے ہیں‘ سٹاف ان کے لئے آسانیاں پیدا کرے