معصوم زینب اور ہمارا معاشرہ اور قوانین
مکرمی !قصور میں 7سالہ زینب کے قتل کے دلخراش واقعہ نے قوم کی آنکھیں کھول دی ہیں ، زینب کا کیس قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پولیس کے منہ پر کسی طمانچہ سے کم نہیں جو ابھی تک معاملات کو روائتی انداز میں ڈیل کرنے کی راہ پر گامزن ہیں ۔آئین اور معاشی اصولوں کے تحت حکومت اور پولیس عوام کے جان و مال کے محافظ ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ پولیس کے رویے کے خلاف احتجاج شروع ہوا اور آج اس ملک کا ہر نوجوان جوان بوڑھا اس درندے کی گرفتاری کے لئے دعا گو ہے۔قصور میں اب تک12معصوم بچیاں اس درندگی کا شکار ہوچکی ہیں اور ان میں سے ایک بچی زندہ ہے جبکہ 11بچیاں قتل ہوئیں جو بچی زندہ ہے وہ نیم پاگل ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ان وارداتوں میں ایسی کون سی شخصیت ملوث ہے کہ اس سارے معاملے میں ان کیسز کو دبایا جاتا رہا اور اب بھی عوامی احتجاج پر معصوم زینب کا کیس منظر عام پر آیا ، اس سے پہلے 200سے زائد بچوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی کی ویڈیوز بنا کر ملک اور بیرون ملک بیچی جاتی رہیں اور ان بچوں اور ان کے گھر والوں کو بلیک میل کیا جاتا رہا یہ بھی قصور میں ہوا۔معاشرے میں ایسے کتنے کیسز ہیں جو عزت یا پھر کسی اور ڈر سے منظر عام پر نہیں آتے اور اگر آتے ہیں تو ایک دن کے بعد دوسرے دن ان کی آواز دب جاتی ہے ۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دور میں معصوم بچے سے زیادتی کے واقعہ پر جب مجرموں کو بیچ چوراہے لٹکایا گیا تو یہ منظر پوری قوم نے دیکھا کئی سالوں تک ایسے واقعات رونما نہ ہوئے اگر اس وقت ہی مستقل قوانین بناکر مجرموں سخت سزائیں دی جاتیں تو ایسے دلخراش واقعات رونما نہ ہوتے ، ان کی روک تھام کیلئے موثر قانون سازی کے ساتھ ان قوانین پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ (محمد ذیشان لاہور)