پانامہ پیپرز میں شامل آف شور کمپنیوں کی تحقیقات منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت کر رہے ہیں: نیب
اسلام آباد (آئی این پی) سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کو ڈپٹی چیئرمین نیب کی طرف سے بتایا گیا کہ جن آف شور کمپنیوں کے نام پانامہ پیپرز میں آئے ہیں ان سب کی تحقیقات منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت کر رہے ہیں، ملزمان سے رقوم کی رضاکارانہ واپسی اور پلی بارگین کا عمل روک دیا گیا ہے، نیب اقدامات کی وجہ سے ملک میں کرپشن میں نمایاں کمی واقع ہوئی اب تک 288ارب 82 کروڑ روپے ریکور کر کے قومی خزانے میں جمع کرائے۔ سینٹر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ پنجاب میں کوئی گرفتار نہیں ہوتا جبکہ سندھ میں سب گرفتار ہو جاتے ہیں، لوگوں کو جیل میں ڈالنے سے کرپشن ختم نہیں ہوتی۔ قائمہ کمیٹی قانون انصاف کا اجلاس سینیٹر جاوید عباسی کی زیر صدارت ہوا۔ ارکان کمیٹی نے محمود بشیر ورک کو وزیر قانون بننے پر مبارکباد دی۔ اس موقع پر ڈپٹی چیئرمین نیب امتیاز تاجور نے نیب کی کارکردگی پر کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ٹرانسپرنسی انڑنیشنل کے مطابق پاکستان میں کرپشن کی کمی واقع ہوئی ہے۔ سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ نیب اپنا ایک لیول بنائے، عدالت کی جانب سے دس کروڑ کی حد مقرر کرنا اچھا ہے اس سے نیب کی عزت بڑھے گی، جس پر ڈپٹی چیئرمین نیب امتیاز تاجور نے کہا کہ دس کروڑ سے کم کرپشن کے کیسز کی تحقیقات نہیں کرتے، اگر عدالت،پارلیمنٹ یا حکومت سے کوئی کیس دس کروڑ سے کم آئے تو اس کی تحقیق کرتے ہیں، کسی بھی کیس کی تحقیقات کے لئے دس ماہ کی مدت طے کر دی۔ سنیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں نیب نیک نام رہے۔ اس موقع پر سینیٹر عائشہ رضا فاروق نے سوال کیا کہ نیب کس قانون کے تحت پانامہ آف شور کمپنیوں کی تحقیقات کر رہا ہے؟۔ ڈپٹی چیئرمین نیب امتیاز تاجور نے کہا کہ اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت تحقیقات کر رہے ہیں۔ سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ریکو ڈک اور کار کے پاور سے متعلق کیسز میں نیب کی بدنامی ہو رہی ہے، کیا نیب ثالثی عدالت کے جرمانوں اور اخراجات کو نہیں دیکھتا، کار کے پاور کے معاملے پر 800 ملین ڈالرز کی پینلٹی پڑی، عالمی ثالثی عدالت نے قرار دیا کہ کار کے کے کنٹریکٹ میں کرپشن نہیں ہوئی، جب عالمی ثالثی عدالت نے کنٹریکٹ کو شفاف قرار دے دیا تو راجا پرویز اشرف کے خلاف کیس ختم کیوں نہیں کرتے۔