چیف جسٹس، آرمی چیف کی مداخلت تک پولیس نے ہٹ دھرمی دکھائی، زینب کا قاتل خود ڈھونڈا: ماموں
قصور (حاجی محمد شریف مہر +کامران خان + شہریار سے) زینب کے قاتل کی گرفتاری کے حوالے سے زینب کے ماموں نے بتایا کہ پولیس ہمیشہ کی طرح اس واقعہ میں بھی قاتل کا سراغ لگانے میں بری طرح ناکام رہی، چیف جسٹس کے از خود نوٹس سے آرمی چیف کی مداخلت سے قبل پولیس اپنی ہٹ دھرمی سے کام لیتی رہی اس دوران ہم نے ذاتی طور پر زینب کے اغوا کی سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کی اور ملزم کی چال کو شناخت کیا اس کے بعد پولیس کو اطلاع دی تو پولیس نے اس کا ڈی این اے ٹیسٹ کرایا تو ڈی این اے میچ کر گیا اس کے علاوہ ہمارے محلے کی ایک عورت نے بھی جائے وقوعہ سے ملزم عمران کو رات کو تقریباً ساڑھے تین بجے آتے دیکھا اور ہمیں اس کی اطلاع دی جس کے بعد ہم عمران کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگے تو بالآخر قانون کی گرفت میں آگیا عمران خود کو قانون کی گرفت سے بچانے کیلئے زینب کے قاتل کی گرفتاری کیلئے کئے جانے والے مظاہروں میں پیش پیش رہا اور انتظامیہ کے خلاف نعرے لگاتا رہا، قصور بائی پاس میں اس نے زینب کی نعش کے آگے کھڑے ہو کر کہا کہ جب تک قاتل گرفتار نہ ہوا اس وقت تک ہم یہاں سے نہیں جائیں گے۔ 7سالہ زینب کے والد محمد امین نے کہا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی پریس کانفرنس کے دوران جب مائیک پیچھے کیا گیا کچھ باتیں کرنا چاہتا تھا مگر مجھے بات کرنے کا موقع نہیں دیا گیا بیٹی کا قاتل پکڑا گیا مگر ابھی میری تسلی نہیں ہوئی ہمیں اس سے ملنے اور سوالات کا موقع دیا جائے۔ میڈیا سے گفتگو کے دوران محمد امین کا کہنا تھا کہ زینب کے قاتل کو کسی اور نے نہیں ہم نے خود شناخت کیا ہے۔ زینب کے ماموں اشفاق احمد انصاری اورزینب کے والد نے دن رات محنت کرکے پکڑا اور پولیس کو نشاندہی کروائی جس کے بعد اس کا ڈی این اے کروایا گیا جو میچ کر گیا۔ زینب کے والد محمد امین نے کہا کہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف میرے گھر آئے تو انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ جہاں سے زینب کی ڈیڈ باڈی ملی تھی وہاں پر پارک یا ہسپتال بنوائیں گے۔ میرا مطالبہ ہے کہ اس جگہ زینب کے نام سے چلڈرن ہسپتال بنایا جائے جسکی یہاں اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ سابق ڈی پی او ذوالفقار کے حوالے سے یہ غلط بات پھیلائی گئی کہ انہوں نے زینب کی ڈیڈ باڈی ملنے پر ہم سے 10ہزار طلب کیے تھے بلکہ انہوں نے اپنے ماتحت اہلکار کو بطور انعام 10ہزار روپے دینے کی بات کی تھی، وہ ایماندار آفیسر ہیں، ان کو قصور میں دوبارہ تعینات کیا جائے۔ بے گناہ افراد کو قاتل سمجھ کر ہلاک کرنے کا حکم ڈپٹی کمشنر قصور نے دیا تھا ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ ایس ایچ او تھانہ اے اور ایس ایچ او تھانہ صدر کو گرفتار کرنا چاہیے۔ محمد امین نے کہا کہ ملزم سے واقف نہیں تھے۔ قصور میں زیادتی اور قتل کا شکار ہونیوالی بچیوں کے والدین کا کہنا ہے کہ عمران نامی ملزم ہماری بچیوں کا قاتل ہے یا نہیں کہہ سکتے کسی نے ہم سے رابطہ کیا اور نہ ڈی این اے کی رپورٹ سے ہی آگاہ کیا۔ سرکاری طور پر کسی رابطے کے منتظر ہیں ،میڈیا سے گفتگو کے دوران متاثرہ بچیوں عائشہ ،نور فاطمہ ،ثناء سلامت، لائبہ ،کے والدین نے کہاکہ پولیس نے بچیوں کے قاتل کے شبہ میں ہزارو ں لوگوں کو گرفتار کیا اور ہزاروں روپے رشوت لیکر چھوڑتی رہی، تمام بچیوں کو اغواء کرنے کا قریب ایک ہی وقت تھا ایک ہی طریقہ کار کے تحت انہیں قتل کیا گیا مگر پولیس حقیقی قاتلوں کو پکڑ نے میں ناکام رہی،9جنوری 2017ء کو ایک درندہ صفت شخص کی سفاکی کا نشانہ بننے والی عائشہ کے والد محمد آصف نے بتایا کہ اب تک میڈیا کے زریعے ہی اطلاعات ملی ہیں کہ ملزم عمران ہی باقی بچیوںکا قاتل ہے مگر یہ دعویٰ اس وقت تک تسلیم نہیں کرینگے جب تک خود ملزم سے حقائق معلوم کرکے اطمینان نہ کرلیں اس سے پہلے بھی پولیس نے کئی بار ملزم پکڑ کرکہا تھا کہ عا ئشہ کے قاتل پکڑ لیے مگر میں نے ان سے سوال کیے تو وہ ٹھیک جواب نہیں دے سکے، 11اپریل 2017ء کو زیادتی کا نشانہ بننے والی نور فاطمہ کے چچا آصف رضا نے کہا کہ آج بھی نور فاطمہ کے قاتل کی تلاش ہے، نور فاطمہ کے والدین اس واقعہ کے بعد اپنے گھر واپس نہیں گئے بلکہ ذاتی مکان چھوڑ کر گاؤں واپس چلے گئے ہیں اگر عمران ہماری بچی کا قاتل ہے تو ہمیں حقائق سے آگاہ کیا جائے ہمیں ڈی این اے میچ کرنے کی کاپی دی جائے۔ 2016میں درندگی کا نشانہ بننے والی ثناء سلامت کے والد سلامت نے بتایا کہ میری بیٹی عقب معراج کی رات کو سامان دکان سے چیز لینے گئی مگر واپس نہ آئی پولیس نے بہت سے بندے پکڑے ڈی این اے بھی کرتے رہے مگر اصل مجرم ہمارے سامنے نہیں لاسکی ہمارے دل کو اسی وقت قرار آئے گا جب ہم بچی کے قاتل کو اپنے سامنے اعتراف کرتے سنیں گے۔