عالمی برادری کشمیریوں کو حق خودارادیت دلائے‘ قومی اسمبلی کی متفقہ قرارداد: سکیورٹی پالیسی تبدیل نہیں ہوئی‘ احسن اقبال‘ نثار سے تکرار
اسلام آباد (قاضی بلال/ خصوصی نمائندہ) امریکہ سمیت چوبیس ممالک کے شہریوں کو پاکستانی ائیرپورٹس پر ویزے جاری کرنے کے حوالے سے ارکان قومی اسمبلی نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس فیصلے کو واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری نے ویزا آن ارائیول پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ امریکی دبائو پر ویزا آن ارائیول پھر شروع کر دیا گیا، اس اقدام سے قومی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں، ماضی میں اسی سہولت کی وجہ سے بلیک واٹر کا ایشو بنا جبکہ این جی اوز اس آڑ میں اپنے مذموم مقاصد پورے کریں گی، جن ممالک کو یہ سہولت دی گئی وہ ہمیں ویزا بھی مشکل سے دیتے ہیں۔ شیریں مزاری کے خدشات پر وزیر داخلہ احسن اقبال نے جواب دیا کہ پاکستان کے مفاد کے لیے اتنے ہی چوکنا ہیں جتنا کوئی اور، ویزا کی کوئی نئی پالیسی متعارف نہیں کرائی گئی جو پہلے سے موجود ہے اسی کے تحت اقدام کیا گیا یہ نہیں ہوگا کہ ٹام، ڈک، ہیری جس کا دل چاہے آ جائے، گائیڈ لائن موجود ہیں کس طرح کے لوگ آئیں گے، سیکورٹی چیکس موجود ہیں اور اس کا مقصد صرف سیاحوں کو سہولت دینا ہے۔ میں اس خدشے کو مسترد کرتا ہوں کہ بلیک واٹر یا سکیورٹی کنٹریکٹرز آ جائیں گے، ہم بین الاقوامی این جی اوز کا خیر مقدم کریں گے اور این جی اوز کی آڑ میں بھی پاکستان مخالف عناصر کو نہیں آنے دیں گے۔ قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ امریکا کی جانب سے 33 ارب ڈالر کی بات تو کی جاتی ہے لیکن ان سب کا بین الاقوامی آڈٹ بھی کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے وزارت داخلہ کے آڈٹ کے حوالے سے امریکا کو کہا تھا کہ ہمیں اس امداد سے پہلے اس کا بین الاقوامی آڈٹ کرانا چاہیے، جس پر جان کیری نے کہاکہ ہم وزارت داخلہ کو کچھ ڈالر امداد دینا چاہتے ہیں لیکن وہ لینا نہیں چاہتے۔ میں نے جواب میں ان سے کہا تھا کہ ہم اس امداد سے پہلے بین الاقوامی آڈٹ چاہتے ہیں تاکہ پتہ چل سکے کہ پاکستان میں کتنے ڈالر آئے، جس کے بعد امریکا کی جانب سے مکمل خاموشی اختیار کرلی گئی۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ دور میں آمد کے وقت ویزا دینے کی پالیسی شفاف نہیں تھی، اس پالیسی کی آڑ میں پرویز مشرف کے دور میں بہت سے لوگ پاکستان آئے جبکہ ان میں ایسے لوگ بھی تھے جو پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے وزرا اور فوجیوں کو سفارتخانوں سے ویزے ملتے ہیں، وزیر داخلہ آمد کے وقت ویزا کے استعمال کا ریکارڈ ایوان میں پیش کریں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں این جی اوز کو ان کے دائرہ کار میں رکھنے کی ضرورت ہے، میں نے اس حوالے سے مطالبہ کیا تھا کہ این جی اوز کے ذریعے امداد کا آڈٹ بھی کیا جائے۔ چوہدری نثار نے کہا کہ ہمارے پاس آئی این جی اوز کی امداد کا کوئی ریکارڈ ہی نہیں جبکہ این جی اوز کو اجازت اسلام آباد کی ہے مگر کام بلوچستان میں کرتی ہیں۔ سابق وزیر داخلہ نے کہا کہ ویزا آن آرائیول پر پابندی میں نے لگائی میں نے واضح پالیسی بنائی ‘جتنے پیسوں میں ہم ویزا دیتے ہیں وہ ملک بھی اتنے میں دے، یہ بہت ساری چیزیں ہیں جو سیاست کی نذر نہ کریں۔ ارکان قومی اسمبلی نے حکومت کی جانب سے امریکہ سمیت 24 ملکوں کے شہریوں کو ملکی ائیرپورٹس پر ویزا جاری کرنے کے اعلان کو امریکی دبائو کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے تحفظات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے سیو دی چلڈرن این جی او پر اسامہ بن لادن کے واقعے کے بعد پابندی عائد کردی تھی مگر اسے بھی کام کرنے کی اجازت دی گئی ہے انہوں نے کہا کہ بعض این جی اوز مغربی مفادات کے تحت کام کرتی ہیں ان پر پابندی لگنی چاہیے۔ وزیر داخلہ احسن اقبال نے جواباً کہا کہ ملک کے خلاف کام کرنے والی کسی این جی اوز کو کسی قیمت پر آپریشن جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ آئی این پی کے مطابق قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر داخلہ احسن اقبال اور سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے درمیان پاکستان آمد پر ویزے کی فراہمی(ویزہ آن ارائیول) اور آئی این جی اوز کی رجسٹریشن کے معاملہ پر تکرار ہوئی، دونوں آمنے سامنے آگئے اور اپنے اپنے موقف پر ڈٹ گئے، اپوزیشن کے بنچوں کی جانب سے چوہدری نثار علی خان کے ویزہ آن ارائیول اور آئی این جی اوز کے حوالے سے موقف کی بھرپور تائید کی گئی اور ڈیسک بجا کر ان کے موقف کو سراہا گیا۔ وزیرداخلہ احسن اقبال نے کہا کہ سکیورٹی پالیسی تبدیل نہیں ہوئی وہی پرانی پالیسی چل رہی ہے۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ نے گذشتہ روز قصور میں زیادتی کے بعد قتل ہونے والی سات سالہ بچی زینب کے قاتل کی گرفتاری پر پریس کانفرنس میں پولیس افسران کو شاباش دینے اور ان کے لئے تالیاں بجوانے کے واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف سے قوم سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے۔ بچوں سے زیادتی پر تالیاں بجائی جائیں اور خوشی کا اظہار کیا جائے اور مبارکبادیں دی جائیں اور لی جائیں، یہ بہت بڑی زیادتی ہے اور اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے لوگوں کی دل آزاری کی ہے جبکہ ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی مرتضیٰ جاوید عباسی نے وزارت انسانی حقوق کو ہدایت کی ہے کہ وہ دیگر تین صوبوں میں بھی بچوں سے زیادتی کے جتنے واقعات ہوئے اور اس پر جو پیشرفت ہوئی اس پر ایوان میں رپورٹ پیش کریں۔ پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ ایک معصوم بچی کے ساتھ ظلم ہوا اور کھڑے ہو کر تالیاں بجائی گئیں۔ میں سمجھتا ہوں شرم کے مارے ڈوب مرنا چاہئے۔ ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں 10 سال کی عمر سے کم 1100 بچے اس طرح کے واقعات کا شکار ہوئے ہیں۔ وہ ان پر کب تالیاں بجوائیں گے۔ رپورٹ کے مطابق صرف لاہور میں 107 واقعات ہوئے ہیں۔ اس پر کب تالیاں بجوائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ میں واقعہ ہوا فوری طور پر کمیٹی بن گئی کسی نے بھاگنے کی کوشش کی بھاگنے نہیں دیا گیا۔ ان کا کہنا تھا جرم دنیا کے ہر ملک میں ہوتا ہے۔ امریکہ ہو یورپ ہو ہر جگہ جرائم ہوتے ہیں۔ واقعات ہوتے ہیں مگر یہ نہیں کہ بچوں سے زیادتی پر تالیاں بجائی جائیں اور مبارکبادیں دی جائیں اور لی جائیں۔ یہ بہت بڑی زیادتی ہے۔ اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ ایک آدمی جو اہم عہدے پر بیٹھا ہو اگر وہ یہ چیزیں کرے تو شرم آتی ہے ‘پارلیمنٹ کو اس چیز پر غور کرنا چاہئے۔ اگر ہم میں انسانیت ہے تو اس معاملہ پر بھی پارلیمنٹ میں قرارداد آنی چاہئے۔ اگر ہمیں احساس ہے تو اس واقعہ کی مذمت کی جائے۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی مخالفت کی وجہ سے کامسیٹس انسٹیٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی کو یونیورسٹی کا درجہ دینے کا بل پاس نہ ہوسکا ڈپٹی سپیکر نے بل کو سائنس و ٹیکنالوجی کی مجلس قائمہ کو بھیج دیا۔ اجلاس میں اپنے اراکین کی کمی کی وجہ سے حکومت قانون سازی میں ناکام ہو گئی ۔گنتی کے بعد وزارت تجارت کا بل پیش نہ ہو سکا ڈپٹی سپیکر نے بل کو مسترد کر دیا۔ وزارت تجارت کے بل کی تحریک 32 ووٹوں کے مقابلے میں اپوزیشن کے 37 ووٹوں سے مسترد ہو گئی۔ قومی اسمبلی میں وزیر تجارت و ٹیکسٹائل محمد پرویز ملک نے پاکستان تمباکو بورڈآرڈیننس 1968 میں مزید ترمیم کا بل پیش کرنے کی تحریک پیش کی۔ زبانی ووٹوں میں اپوزیشن کی نو کی آوازیں زیادہ ہونے کے باوجود ڈپٹی سپیکر نے گنتی کرائی جس پر اپوزیشن جیت گئی۔ پاکستان تمباکو بورڈ آرڈیننس ترمیمی بل پیش کرنے کی تحریک 32حکومتی ووٹوں کے مقابلے میں اپوزیشن کے 37 ووٹوں سے مسترد ہوگئی۔ پاکستان تحریک انصاف نے فیصل مسجد کے احاطہ سے جنرل ضیاء الحق کی قبر کو منتقل کرنے کا مطالبہ بھی کردیا ہے حکومت نے واضح کردیا ہے ضیاء الحق کی قبر کا فیصل مسجد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ قومی اسمبلی میں پہلی بار روایت سے ہٹ کر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن بلال ورک نے کورم کی نشاندہی کر دی جس پر تحریک انصاف کے ارکان نے لعنت لعنت کا نعرہ لگا دیا۔ قصور سے ایم این اے وسیم اختر نے پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پر شدید تنقید کی اور کہاکہ یہ دونوں جماعتیں ڈوب مریں جو لاشوں پر سیاست کر رہی ہیں، ایم کیو ایم نے بلدیہ فیکٹری میں زندہ لوگوں کو جلایا وکیلوں کا قتل عام کیا، جس پر ایوان میں شور شرابا شروع ہوگیا۔ ڈپٹی سپیکر نے خفت سے بچنے کیلئے گنتی کرانے کی بجائے کورم نہ ہونے پر اجلاس جمعرات کی صبح ساڑھے دس بجے تک ملتوی کر دیا۔ ایوان سے جاتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے رکن حامد الحق اور دیگر ارکان نے مسلم لیگ (ن) کے ارکان کے خلاف نازیبا نعرے لگائے۔ قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ نے کہا کہ تحریک انصاف کے اراکین کو ان کا نکتہ نظر بیان کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔ تاہم ڈاکٹر شیریں مزاری نے پارٹی چیئرمین عمران خان کے پارلیمینٹ سے متعلق متنازعہ بیان کے خلاف مذمتی قرارداد پر موقف پیش کرنے اور پارٹی چیئرمین کے دفاع کی بجائے کورم کی نشاندہی کردی۔ گنتی کروائی کورم پورا نکلا خاتون رکن خاموشی سے نشست پر بیٹھ گئی۔ ڈپٹی سپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی نے ملک بھر میں بچوں سے زیادتی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے کیسز کا ریکارڈ قومی اسمبلی میں طلب کرلیا ہے۔ وقفہ سوالات کے دوران خالدہ منصور کے سوال کے جواب میں پارلیمانی سیکرٹری راجہ جاوید اخلاص نے بتایا کہ پی آئی اے کے پاس اس وقت 37 جہاز ہیں۔ پالیسی کے تحت پی آئی اے ملازمین کو سال میں چار فری ٹکٹ دیئے جاتے ہیں۔ ان میں ٹیکسز شامل ہیں‘ یہ کل کرائے کے چالیس فیصد تک ہیں۔ اسلام آباد کا نیا ایئرپورٹ تکمیل کے مراحل میں ہے۔ دیگر ایئرپورٹس کو بھی اپ گریڈ کیا جارہا ہے۔ جرمنی میں میوزیم میں کھڑا جہاز پی آئی اے کی ملکیت ہے اور پیپرا رولز کے مطابق اس کی فروخت کی جارہی ہے۔ یہ طیارہ 1992ء میں خریدا گیا۔
اسلام آباد (خصوصی نمائندہ) قومی اسمبلی میں کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کیلئے متفقہ طورپر قرار داد کو منظور کر لیا گیا۔ خصوصی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمن کی جگہ پر قراردادوزیر امور کشمیر چوہدری برجیس طاہر نے پیش کی۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ یہ ایوان اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کی حق خودارادیت کے حصول کی تاریخی جدوجہد کی مکمل حمایت کر تے ہوئے مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر میں آٹھ لاکھ قابض افواج کے سائے میں نافذ کالے قوانین کی شدید مذمت کرتا ہے جس کے نتیجہ میں ایک لاکھ سے زائد کشمیری شہید کیے جا چکے ہیں ہزاروںحریت پسند جیلوں میں محبوس ہیں۔ بزرگ حریت رہنما سید علی گیلانی کے علاوہ میر واعظ عمر فاروق، یاسین ملک،شبیر احمد شاہ و دیگر حریت قائدین اور آزادی پسند رہنمائوں اور کارکنان کو مسلسل حراست اور قید و بند کی کیفیت میں رکھا جارہا ہے۔ خواتین کی بے حرمتی کے علاوہ ان کے اہم رہنمائوں کو بھی مقدمات چلائے بغیر جیلوں میں قید کر دیا جاتا ہے۔ ہزاروں نوجوانوں کی بینائی متاثر ہو چکی ہے، ہزاروں لاپتہ نوجوانوں میں سے ساڑھے سات ہزار سے زائد کی اجتماعی قبریں دریافت ہو چکی ہیں۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ یہ ایوان بین الاقوامی انسانی حقوق کونسل اور دیگر اداروں کی طرف سے کشمیر کی صورتحال رپورٹس کی تحسین کرتے ہوئے اس امر پر تشویش کا اظہار کرتا ہے کہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرنے والے اداروں کی ان رپورٹس اور توجیہات کے باوجود بھارتی حکومت کے مظالم کی سطح بڑھتی جا رہی ہے نیز اپنے جرائم چھپانے کے لیے بین الاقوامی میڈیا، انسانی حقوق اور ریلیف کے اداروں سے وابستہ افراد کی ریاست میں داخلے پر بھارت کی طرف سے پابندی عائد ہے حتیٰ کہ بین الاقوامی انسانی حقوق کونسل کے وفد کو بھی اجازت نہ دی گئی۔ قرارداد میں عالمی برادری سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ مسئلہ کشمیر حل کروائے اور کشمیریوں کو حق خودارادیت دلوائے۔