نقیب کیس، راؤ انوار روپوش: سینٹ کمیٹی کا نوٹس، 31 جنوری کو کراچی میں اجلاس طلب
اسلام آباد + کراچی (خبر نگار+ نیوز ایجنسیاں+ نوائے وقت رپورٹ) سینٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق نے نقیب اللہ محسود کے قتل کے معاملے کا نوٹس لے لیا ہے۔ کراچی میں ماورائے قانون ہونے والے واقعات پر سینٹ کمیٹی نے31 جنوری کو کراچی میں اجلاس طلب کرلیا ہے۔ کمیٹی نے کراچی میں بڑھتے ہوئے ماورائے قانون واقعات پر تشویش کا اظہار کیا۔ چیئرپرسن کمیٹی سینیٹر نسرین جلیل نے کہا کہ کراچی میں اجلاس کے علاوہ لاہور کوٹ لکھپت جیل اور مردان کا بھی دورہ کیا جائے گا۔ سینیٹر نثار محمد نے کہا کہ نقیب اللہ محسودکو قتل کیا جانا انسانی حقوق کا سنجیدہ معاملہ ہے۔ راؤ انوار اور نقیب اللہ محسود کا صرف ایک واقعہ نہیں۔ سینیٹر میر کبیر نے بچوں سے زیادتی اور قتل کے بڑھتے ہوئے واقعات پر کہا کہ ہمیں ہر کیس کو زینب کا کیس سمجھنا ہوگا۔ تاکہ مجرمین کیفردار تک پہنچیں۔ سینیٹر محسن لغاری نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کا معاملہ اٹھایا جس پر کمیٹی نے متفقہ طورپر بھارتی مظالم کی شدید مذمت کی۔ علاوہ ازیں دوسرے نوجوان کی شناخت ہو گئی۔ 26 سالہ نظر جان بھی محسود اور وزیرستان کا رہائشی تھا، نظر جان بحریہ ٹاؤن کراچی میں لوڈر کا کام کرتا تھا۔ نوجوان کی میت وصول کرنے بھائی اور چچا پہنچ گئے۔ نظر جان کی نماز جنازہ جرگے میں ادا کی جائے گی۔ دوسری طرف راؤ انوار روپوش ہو گئے جن کا تاحال کسی کو کوئی پتہ نہیں۔ آئی جی نے گرفتاری کے لئے چھاپے مارنے کی ہدایت بھی جاری کر دی۔ ذرائع کے مطابق راؤ انوار کے ساتھ احسن آباد چوکی انچارج ہدایت بشیر کو حراست میں لے لیا۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے نقیب اللہ کیس میں نامزد معطل ایس ایس پی راؤ انوار کو حکومت کی جانب سے این او سی دیئے جانے کی تردید کر دی۔ میڈیا سے گفتگو میں وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ صوبائی حکومت نے راؤ انوار کو کوئی اجازت نامہ جاری نہیں کیا۔ کسی بھی کیس میں آئی جی کو حکم دینے کی ضرورت نہیں، اگر کوئی جرم کرتا ہے تو اس کو گرفتار کرنا پولیس کا کام ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے مزید کہا کہ نقیب اللہ کیس میں پولیس اپنے طریقہ کار کے مطابق کارروائی کرے گی۔ تحقیقاتی کمیٹی کی حتمی رپورٹ تیار کر لی گئی۔ دریں اثناء روپوش راؤ انوار نے حساس اداروں پر مشتمل جے آئی ٹی بنانے کا مطالبہ کر دیا۔ راؤ انوار نے الزام لگایا ہے کہ مقدمہ درج کرانے والے کچھ افسران مجھ سے ذاتی رنجش رکھتے ہیں۔ مقتول نقیب اللہ کے گھر والوں کو کچھ پولیس افسران گمراہ کر رہے ہیں۔ یہ تاثر درست نہیں کہ میں نے ذاتی حیثیت میں کوئی مقابلہ کیا۔ میں ایک پروفیشنل اور اصول پسند پولیس افسر ہوں۔ جو افسر میرے خلاف بیان دے رہے ہیں ان کے ہاتھ بھی صاف نہیں۔ اگر جھوٹے مقدمات بنائے جائیں گے تو قاتل بچ جائیں گے۔ میں اور میرے ساتھی بے گناہ ہیں، قتل کا مقدمہ جھوٹا ہے۔ سی ٹی ڈی سے ہونے والے پولیس مقابلوں میں آج تک کتنے اہلکار ہلاک اور زخمی ہوئے۔ ٹھوس شواہد وقت آنے پر سب کے سامنے لاؤں گا۔ ملک سے فرار نہیں ہو رہا، اہل خانہ سے ملاقات کیلئے جانا کوئی جرم نہیں۔ جلد عدالتوں میں خود پیش ہوں گا۔