شرح سود میں 0.25 فیصد اضافہ‘ روپے کی قدر 5 فیصد کم‘ مہنگائی بڑھنے کا امکان ہے: سٹیٹ بنک
اسلام آباد+ کراچی ( کامرس رپورٹر +نوائے وقت رپورٹ) سٹیٹ بنک کی جانب سے دو ماہ کیلئے مانیٹری پالیسی کا اعلان شرح سود میں 0.25 فیصد اضافہ کر دیا گیا جس سے شرح سود 6 فیصد ہو گئی ۔ گورنر سٹیٹ بنک طارق باجوہ نے پالیسی کا اعلان کیا۔ گورنر سٹیٹ بنک نے کہا ٹیکس آمدن میں اضافے سے بجٹ خسارے میں کمی ہوئی جبکہ نجی شعبے کی جانب سے قرضوں میں اضافہ ہوا۔ بیرون ملک سے ترسیلات زر میں 2.5 فیصد اضافہ ہوا۔ رواں مالی سال زرمبادلہ ذخائر میں 2.6 ارب ڈالر کمی ہوئی۔ درآمدی بل کا وزن بڑھ گیا۔ ملکی برآمدات میں اضافہ ہوا۔ رواں مالی سال روپے کی قدر میں 5 فیصد کمی ہوئی۔ شرح سود میں 0.25 فیصد اضافہ کر دیا گیا۔ شرح سود 5.75 سے بڑھ کر 6فیصد کر دی گئی ہے۔ پائونڈ اور یورو کی قدر میں اضافے کی وجہ سے عالمی مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں کمی ہوئی۔ روپے کی قدر پائونڈ اور یورو کے مقابلے میں 10 فصید تک کم ہوئی۔ روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں 5 فیصد کم ہوئی۔ معاشی نمو کی رفتار کو مستحکم کرنے کیلئے شرح سود بڑھائی گئی۔ آن لائن کے مطابق پاکستان کے دیگر بڑے شہروں کے مقابلہ میں لاہور میں افراط زر کی شرح سب سے زیادہ بڑھی۔ سٹیٹ بنک کے انفلیکشن مانیٹر ڈیٹا کی جانب سے جاری کردہ بیان میں بتایا گیاکہ 2016ء کے دوران لاہور میں افراط زر کی شرح میں 1.8 فیصد کا اضافہ ہوا تھا جبکہ دسمبر 2017ء کے دوران لاہور کلئے افراط زر کی شرح میں 6.6 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ کراچی سے کامرس رپورٹر کے مطابق گورنر سٹیٹ بنک نے کہا کہ پاکستان کی معاشی نمو گزشتہ گیارہ برسوں کی بلند ترین سطح حال کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔ اوسط عمومی مہنگائی سٹیٹ بنک کی پیش گوئی کی حدود کے اندر ہے‘ تاہم زیادہ تر درآمدات کی بلند سطح کی وجہ سے جاری کھاتے کا خسارہ دبائو میں ہے۔ حقیقی شعبے میں پیش رفت سے ظاہر ہے کہ شعبہ زراعت کی کارکردگی مسلسل دوسرے سال بہتر رہے گی۔ چینی‘ پٹرولیم مصنوعات اور کھاد کے مخصوص شعبہ جاتی مسائل کی بنا پر بڑے پیمانے کی اشیاء سازی کی نمو کی رفتار کچھ کم ہو سکتی ہے‘ تاہم امکان ہے کہ مجموعی صنعتی سرگرمیاں مضبوط رہیں گی۔ انفراسٹرکچر اور سی پیک سے متعلق سرمایہ کاری سے تعمیرات اور منسلکہ صنعتوں کو فائدہ ہوا ہے اور توقع ہے کہ ان کی بلند نمو کی رفتار قائم رہے گی۔ اس دوران قوزی مہنگائی (غیر غذائی غیر توانائی) مسلسل بلند راہ پر گامزن رہی اور سال کی پہلی ششماہی میں 5.5 فیصد تک پہنچ گئی جبکہ پچھلے سال 4.9 فیصد تھی۔ اس کے ہمراہ پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کے مؤخر اثر اور تیل کی بڑھتی ہوئی عالمی قیمتوں کی بنا پر آئندہ مہینوں میں مہنگائی بڑھنے کا امکان ہے۔ قرض گیری میں کمی آئی جو 401.9 ارب روپے تھی جبکہ پچھلے سال کی اسی مدت میں یہ رقم 470.4 ارب روپے تھی۔