• news
  • image

اوہ وی خوب دیہاڑے سن

منو بھائی کی وفات ایک گہرا اور بڑا سانحہ ہے۔ شاعری، ڈرامہ نگاری اور کالم نگاری میں منفرد انداز رکھنے والے منو بھائی لوگوں کے دلوں میں اپنے کام کی وجہ سے جگہ بناگئے اور اپنے لئے وہ مقام اور مرتبہ منتخب کر گئے کہ ہمیشہ کے لئے امر ہوگئے۔ کسی انسان سے مکالمہ در حقیقت ایک ایسا معنی خیز عمل ہے کہ شخصیت کے ہمہ جہت پہلو سامنے لے آتا ہے منو بھائی سے گفتگو اور انٹرویو در حقیقت ان کی زندگی کے کئی پہلو میرے سامنے لے آیا، اور ان میں ایک پہلو یہ تھا کہ وہ محبت کی طاقت پر یقین رکھتے ہوئے درد مند دل بھی رکھتے تھے۔ وہ احساس کی دنیا کے مسافر تھے۔ احساس کی دنیا کا مسافر تکلیف جھیلتا ہے۔ پہنچاتا نہیں۔ وہ معاشرے کو آسودہ کرنا چاہتے تھے۔ منو بھائی کا احساس کا در کھلا ہی تھا کہ ان پر علم حیال اور جستجو کے باب کھلتے چلے گئے۔ سونا چاندی کے دو کرداروں کے بارے میں بھی انہوں نے یہی کہا کہ یہ دونوں کردار محبت کی طاقت پر یقین رکھتے تھے۔ گائوں سے یہ کردار اگرچہ قرض چکانے کے لئے آئے تھے در حقیقت یہ لوگ وہاں سے، محبت اور خلوص کی طاقت لے کر آئے تھے۔ جو انسان کے قلب کو منور کرنے کے لئے کافی ہوتی ہے جب راقمہ نے ان سے سوال کیا کہ آپ کا نام منوبھائی کیسے ہوا تو وہ بولے کہ میری ایک نظم چھپنے کے لئے اخبار میں گئی تو میں نے نظم کے اوپر منیر احمد لکھا۔ قاسمی صاحب نے منیر احمد کاٹ کر منو بھائی لکھ دیا۔ کچھ تو منو بھائی میرے ادبی سفر میں میرے لئے مفید ثابت ہوا کچھ قاسمی صاحب سے پیار تھا کہ اس کے بعد میں نے ہر تخلیق پر اپنا نام منو بھائی ہی رکھا۔ منو بھائی نے زندگی کے ہر پہلو کو مشاہدائی قوت کے ساتھ ساتھ حساسیت سے دیکھا۔ لہٰذا بہت سی سچائیاں اور حقیقتیں ان کی تحریروں میں رچ بس گئیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری کالم نگاری اور ڈرامے کے کرداروں میں یہ رنگ شدت کے ساتھ رچا بسا نظر آتا ہے۔ اور ناظرین اور قارئین کے دل میں اترتا چلا جاتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس میں منیر احمد جذبوں کی صداقت سے اس رنگ کو اور گہرا کردیتے ہیں کہتے ہیں؎

اوہ وی خوب دیہاڑے سن
بھک لگدی سی منگ لیندے ساں
مل جاندا سی کھا لیندے ساں
نئیں ملداسی روپیندے ساں
اے وی خوب دیہاڑے نیں
بھک لگدی سی منگ نئیں سکدے
ملدا اے کھا نئیں سکدے
نئیں ملدا تے رو نئیں سکدے
نہ روئیے تے سو نہیں سکدے
ان کی ہمہ جہت شخصیت میں انسانیت کا جذبہ بھی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا سندس فائونڈیشن میں لا تعداد مریضوں کے علاج معالجہ کی ذمہ داری اٹھائے ہوئے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا یہ المیہ ہے کہ ہم اس معاشرے میں رہتے ہیں جہاں خود غرضی اور نفسانفسی نے پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ جبکہ انسانیت کی معراج تو انسانیت کی خدمت میں پوشیدہ ہے۔ تھلیسیمیا یک ایسی خطرناک بیماری ہے جو ابنار ملی کو جنم دیتی ہے۔ اس سے بچائو اسی صورت میں ممکن ہے کہ شادی سے قبل بلڈ ٹیسٹ کروایا جائے تاکہ بیماری آگے نہ پھیل سکے۔ لیکن ہمارے ہاں اسکا شعور اور ادراک نہیں ہے اور ان باتوں کارواج نہیں ہے۔ یا یوں کہہ لیجئے کہ ہم ادراک رکھنا ہی نہیں چاہتے میرے ڈراموں اور کالموں کے موضوعات اسی ادراک کے گرد گھومتے ہیں جن سے اخلاقی معاشرتی اور انسانی زندگی میں تبدیلی لانے میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ جس میں ثقافتی اور تہذیبی روایات پوری شدو مد کے ساتھ پنپتی نظر آتی ہیں اور بسا اوقات کرداروں میں وہ بھولپن موجود ہوتا ہے جو آگے چل کر روحانیت کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں۔ درحقیقت منو بھائی بذات خود اسی درجے پر فائز رہے۔ وہ اپنے سینے میں انسانیت سے محبت بھی، حق اور باطل میں کشمکش کے دوران وہ خاموشی کے ساتھ حق کے ساتھ آن کھڑے ہوتے تھے۔ اور ان خامیوں کو سامنے لے آتے تھے کہ جن کے ازالے سے ایک مثبت معاشرتی تبدیلی لائی جاسکتی ہو۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن