سعودی عرب: کرپشن کے الزام میں گرفتار شہزادہ ولید بن طلال سمیت متعدد رہا
ریاض (ایجنسیاں) سعودی حکام کی جانب سے کرپشن کے الزام میں گرفتار امیر ترین عرب شہزادے ولید بن طلال سمیت متعدد گرفتار شہزادوں اور امراء کو رہا کر دیا گیا۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق برطانوی خبر رساں ادارے کو رہائی سے چند گھنٹے قبل انٹرویو دیتے ہوئے ولید بن طلال نے انکشاف کیا تھا کہ وہ پرامید ہیں کہ انہیں رہا کر دیا جائے گا۔ ان پر کوئی الزام ثابت نہیں ہوا، ان کے اور حکومت کے دمیان مذاکرات ہوگئے ہیں اور اب یہ معاملات ختم ہونے کو ہیں۔ سعودی کھرب پتی شہزادے نے کہا کہ سعودی حکام کے ساتھ مذاکرات میں وہ اس موقف پر قائم رہے کہ وہ بے گناہ ہیں۔ حکومت سے کسی قسم کا سمجھوتہ نہ کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ میں اپنے مالیاتی امور کو خود چلاؤں گا اور اپنی دولت کا کوئی حصہ حکومت کے حوالے نہیں کروں گا۔انہوں نے کہا کہ میرے ساتھ کوئی بدسلوکی نہیں ہوئی۔یاد رہے کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کرپشن کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کرتے ہوئے 10 سے زائد شہزادوں اور درجنوں سابق اور موجودہ وزرا کو گرفتار کر لیا تھا جن میں عرب کے امیر ترین شخص شہزادہ الولید بن طلال بھی شامل تھے۔شہزادوں کو ریاض کے عالیشان ہوٹل رٹز کارلٹن میں رکھا گیا جہاں یہ خبریں بھی سامنے آئی تھیں کہ امریکہ کے پرائیویٹ سکیورٹی کانٹریکٹرز کی جانب سے سعودی عرب میں گرفتار کھرب پتی افراد اور شاہی خاندان کے شہزادوں پر تشدد کرکے کی تحقیقات کی جارہی ہے۔یاد رہے کہ قید سے رہائی کے بعد شہزادہ ولید کا حلیہ تبدیل ہوگیا تھا۔بی بی سی کے نامہ نگار کے مطابق گزشتہ نومبر میں شروع کی گئی انسداد بدعنوانی کی مہم میں گرفتار کیے گئے 200 سے زیادہ شہزادوں‘ امراء اور اعلیٰ حکام کو سعودی حکام نے مالی سمجھوتے کے بعد رہا ئی شروع ہوگئی ہے۔ بین الاقوامی تجزیہ کاروں کے خیال میں اس مہم کا اصل مقصد شہزادہ محمد بن سلمان کے تخت تک پہنچنے کی راہ کو ہموار کیا جانا بھی ہے۔تاہم ہوٹل کی انتظامیہ نے اعلان کیا ہے کہ 14فروری سے ہوٹل کو عوام کیلئے کھول دیا جائے گا۔ذرائع کے مطابق ولید الابراہیم کے علاوہ کم ازکم تین اہم سعودی شخصیات نے سمجھوتے کرکے رہائی پائی ہے۔ان میں ایک خالد التویجری ہیں جو شاہ عبداللہ کے وقت میں شاہی کورٹ کے سربراہ ہوتے تھے۔ذرائع کے مطابق شہزادہ ولید بن طلال کی رہائی 6ارب ڈالر کی ڈیل کے تحت ہوئی۔