• news
  • image

سیاست: کھلی کتابیں بند قارئین!

کچھ عادتیں ایسی پکی ہوگئی ہیں کہ، بس رہے نام اللہ کا۔ بات سماجی و تعلیمی یا فلاحی و نفسیاتی بھی کرنی ہو، تو نہ چاہتے ہوئے بھی سیاست کا تڑکا ضرور لگ جاتا ہے۔ یہی دیکھ لیجئے بات کرنی تھی کتابوں کی کہ صرف مال و متاع ہی نہیں کتاب بھی رزق ہے جو سوسائٹی میں بحیثیت کوآرڈینیٹر اہم کردار ادا کرتی ہے۔ لیکن دماغ وزیراعظم ہاؤس کی شاندار لائبریری کی طرف چلاگیا۔ سن رکھا تھا کہ قابو دل پر نہیں رہتا مگر یہاں دماغ کون سا شریف آدمی ہے۔ سب سیاست کی طرف لپک لپک جاتا ہے۔ مطلوب تو تھا کہ، نوجوانوں سے گزارش کروں کہ وہ کتاب کو ہمنوا اور ہمراز بنائیں کہ یہ جنریشن گیپ میں پل کا کردار ادا کرتی ہیں لیکن دماغ کہتا ہے کہ ان سیاستدانوں اور حکمرانوں سے بھی دست بستہ استدعا کریں کہ، وہ آئین کی کتاب کے مطالعہ کی کبھی جسارت کرلیا کریں تو عنایت ہوگی۔

کمال ہیں یہ پارلمینٹیرینز کہ انہوں نے کبھی غور ہی نہیں کیا تھا کہ یہ نااہلی یک سالہ ، دو سالہ یا تاحیات ہونی چاہیے یا ہو تو کیوں اور کیسے ہو، کوئی اپنا وہم تھا درمیان یا گھٹا نے ان کو ڈرادیا؟ یا پھر دل ناداں اور عقل ناتواں کو معلوم تھا کہ، جانے لچھن کیا سے کیا ہوجائیں پس کسی قانون سازی کا تکلف نہ کیا ! سیاستدانوں کی "اکثریت" پڑھی لکھی ہے اگر کوئی مجھ سا کم فہم ہو تو کروڑوں کی لاگت سے بننے والے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پارلیمنٹری سائنسز نے یقینا عام فہم زبان میں اس کیلئے آئین مرتب کیا ہوگا۔سابق سپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے خصوصی دلچسپی سے اس پراجیکٹ کو مکمل کرایا جس کی منفرد اہمیت ہے گر کوئی استفادہ کرے۔ جہاں مختلف ورکشاپس اور ٹریننگ سیشنز کا اہتمام بھی ہوتا ہے۔ ہم تو کہتے ہیں یونیورسٹیوں کے پولیٹیکل اور سوشل سائنسز کے محققین بھی اس ادارے سے فائدہ اٹھائیں۔ شہر اقتدار کے فروری 2015 کے دورہ پر وزیراعظم ہاؤس کی شاندار اور PIPS کی جاندار لائبریریز دیکھ کر پھر مختلف ممبران اسمبلی سے گفت و شنید کی تو دل میں خیال آیا کہ ہم بھی کیا باکمال لوگ ہیں جن کے ہاں کتابیں تو کھلی ہیں لیکن قارئین بند ہیں! بدقسمتی یہ ہے ہماری سیاست کے زندہ ابواب ازخود سیاسیات کا مطالعہ کرنے سے قاصر ہیں۔ جنہیں ملک و ملت کیلئے تجربات پر مبنی کتب تحریر کرنی چاہئیں انہوں نے کبھی مطالعہ کو چکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔جمہوریت کی روح کو نہ سمجھنے کی یہ بھی ایک وجہ ہے۔ پچھلے دنوں ایک سابق وزیر سے ملاقات ہورہی تھی اسے یہ بھی معلوم نہ تھا کہ 5 فروری کیا ہے ، اس کا آغاز کب ہوا اور یوم یک جہتی کشمیر کا معاملہ کیا ہے۔ اس وزیر سے سیاسی بات کرو تو وہ اپنے آپ کو کسی سقراط بقراط سے کم نہیں سمجھتا حالانکہ ایسے ناعاقبت ااندیشوں کی حادثاتی یا پیسے اور عوامی معصومیت کے بل بوتے پر ہونے والی کامیابی نے جمہوریت، انصاف اور اخلاق کو حالیہ مقام تک پہنچادیا ہے۔ جہاں قیادت کے پاس کتاب کیلئے وقت نہیں ہو گا وہاں معاشرے کے ہاں احتساب کا کلچر کیسے ممکن ہوگا؟ کیسے کوئی آئین سازی کرے گا؟ آئین سازی اگر چند سیانوں نے کر بھی دی تو سجھے گا کون؟ کرم فرما تو 18 ویں ترمیم کے تعلیم اور صحت کے امور کے اطلاق ہی کو عمل میں نہیں لاسکے۔ عوام اور سیاستدانوں کے بجائے 18 ویں ترمیم کو بیوروکریسی انجوائے کررہی ہے۔ جہاں قلم و قرطاس کی حرمت قیادت اور سیاست میں ناپید ہو وہاں راج بیوروکریسی کا ہوتا ہے یا آمریت کا۔ اگر جمہوریت ہو بھی تو شرفا اور انکے پرائیویٹ سرونٹس نما پبلک سرونٹس کا!
بہرحال واضح رہے کہ، سپریم کورٹ نے 26 جنوری 2018 کو خبردار کیا ہے کہ۔۔۔۔ اثاثے چھپانا بد دیانتی ہے۔ وضاحت کچھ یوں کی کہ نواز شریف کیس میں یہ فیصلہ ہوچکا ہے اب طے ہونا باقی ہے کہ نااہلی ایک سال کی ہو یا 5 سال کی یا پھر تاحیات۔ سپریم کورٹ کا یہ بھی فرمان تھا کہ اس ضمن میں ہونیوالے لارجر بینچ کا فیصلہ ہی قانون ہوگا۔ بدقسمتی نہیں تو کیا ہے جو عوامی حکومت ہونے کے سلطانی دعویدار ہیں جن کا مرکز اپنا اور وزیر اعلی بحیثیت وزیر اعلی پاکستان فعل سرانجام دیتا ہے وہ صحت، تعلیم اور فراہمی انصاف میں 18ویں ترمیم سے استفادہ نہیں کرسکے۔ عالم یہ ہے کہ، 18ویں ترمیم کو وزراء سمجھنے سے قاصر تھے آخر وائس چانسلرز کی تقرری کے حوالے سے اور مرکزی و صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن کے تفویض کار کے حوالے سے پنجاب میں ہائیکورٹ نے رہنمائی فرمائی، واہ راج دلارے سیاستدانو! میں کچھ ایسے وائس چانسلرز سے بھی آشنا ہوں جو اپنے چانسلر کے احکامات کو خاطر میں نہیں لاتے۔ گویا جس نے سیکرٹیریٹ کے بابو ہاتھ میں رکھ لئے انہیں ڈر کاہے کا۔ پنجاب کا ہائر ایجوکیشن کا وزیر چلا تھا سبھی یونیورسٹیاں ٹھیک کرنے لیکن پنجاب یونیورسٹی ہی کو خراب کر بیٹھا!صحت کا حال یہ ہے کہ18ویں ترمیم کے بعد یہ صوبوں کا بزنس تھا مگر مرکز کاختصر بزنس بھی درست نہ ہو سکا البتہ اتنی ترقی ضرور ہوئی وزیر مملکت سے ایک خاتون وفاقی وزیر ضرور بن گئی جبکہ فارماسسٹس ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی اور فارمیسی پاکستان کونسل کا ماتم ہی کرتے رہ گئے۔ٹیکنیکل معاملات بگڑتے رہے لیکن کچھ سیاسی پراجیکٹس محض سیاست کو جلابخشنے کیلئے پروان چڑھتے رہے۔ پیپلز پارٹی کے بعد ن لیگ بھی صوبائی باب ہو یا مرکز صحت اور تعلیم میں تکنیکی اعتبار سے پوری طرح ناکام ہوئی۔ ایک زمانے میں وزیر مملکت نے فارمیسی کونسل کو ایک ماہ میں درست کرنے کا مجھ سے وعدہ کیا لیکن وعدہ اپنی مرضی کے ردوبدل تک ہی محدود رہا۔ گویا ادویہ کی ماں اور باپ کونسل اور ڈریپ ہی بنتے تھے۔ افسوس کہ مرکز اور پنجاب میں کونسلز کے سیکرٹریز ہی نہیں ، سندھ، کے پی کے اور بلوچستان کا اللہ ہی حافظ ہے۔ اگر عدالت پوچھتی ہے تو موجودہ حکمران عدالت مخالف پروپیگنڈہ شروع کردیتے ہیں۔ کیا ڈریپ اور فارمیسی کونسلز بھی پھر عدالت کے زمرے ہی میں آئیں گے؟ ان کی وزارتوں کے حوالے سے ہم ناں ہی سمجھیں نا؟
کیا کریں بات کرتے ہیں دور تلک جاتی ہے۔ جب بات دور تلک جاتی ہے تو گھوم گھما کے ہماری سوئی کتاب پر اٹک جاتی ہے کہ اگر قائدین نے کتاب سے استفادہ کیا ہوتا تو انہیں نیوٹریشن، تعلیم ،صحت، ادویہ، قانون کا ادراک ہوتا کم ازم 7 تا 28 دفعات کے زیر زبر کا فہم تو ہوتے۔ ان کے اپنے علاج پاکستان سے ہوتے، زینب قصوری جیسے سانحے نہ ہوتے اور لوگ اس کو اجتماعی مسئلہ اور معاملہ گردانتے۔ اللہ جانے پاکستان بک فاؤنڈیشن اور پاکستان سائنس فاؤنڈیشن کا کیا حال ہے اللہ کرے یونیورسٹیوں سے بہتر ہو۔
جو آج ذکر کتاب ہے اس کا کریڈٹ رئیس جامعہ سائنس اور ٹیکنالوجی پروفیسر ڈاکٹر فضل احمد خالد کو جاتا ہے وہ جب سے یو ای ٹی لاھور کے وائس چانسلر بنے انہوں نے قلم و قرطاس اور کتاب پر بحیثیت محقق اور استاد خصوصی توجہ دی ہے وہ کام کرنیوالے ایک شریف ایڈمنسٹریٹر ہیں۔ اللہ انہیں انکی یونیورسٹی کی "سیاہ ست" اور روایتی سازشی پروفیسروں سے محفوظ رکھے۔ جامعات کے وہ پروفیسر جو تحقیق اور درس و تدریس انصاف کرنے کے بجائے شرارت اور سیاست کی نہیں کرتے بلکہ کتاب سے بھی دور رہتے ہیں وہ بھی کسی دہشت گرد سے کم نہیں کاش کسی "اینٹی ٹیررازم کورٹ" کا ڈر انہیں بھی ہو۔ کاش کوئی نیب استاد کی "پوترتا" میں چھپے نام نہاد محققین اور اساتذہ کی "ایجادات" کو بھی ایجاد کرے۔ ضرورت اس امر کی بھی ہے جہاں دنیا بھر کی سوشل سائینس کی اچھی کتابوں کا اردو ترجمہ کرنیوالا ایک جاندار اور متحرک ادارہ ہو وہاں ہائر ایجوکیشن کی تعلیم و تحقیق پر نظر رکھنے والا ایک غیر جانبدار ادارہ ہو جو ریٹائرڈ وائس چانسلرز، ریٹائرڈ ججز اور ریٹائرڈ جرنیلوں کے علاوہ انٹیلی جینس کے تجربہ کار افسران پر مشتمل ہو۔ ایجوکیشن کمیشنز، بک فاؤنڈیشن اور سائنس فاؤنڈیشن کی بھی یہی رہنمائی کرے۔ لیکن پھر وہی کہ، سیاستدان اور بیوروکریٹ کے پنگوں سے کون بچائے گا؟
حسب معمول پچھلے دنوں بھی مختلف جامعات میں جانے کی سعادت حاصل ہوئی، یونیورسٹی آف آزاد جموں و کشمیر مظفرآباد کے وائس چانسلر ڈاکٹر کلیم عباسی محنتی سربراہ ہیں اور کتاب دوست بھی، ان کا بیٹھے بیٹھے تمغہ امتیاز ڈاکٹر محمد علی شاہ وائس چانسلر گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد سے رابطہ کرایا کہ وہ لوگ انٹر یونیورسٹیز کتاب و تحقیق اور سٹوڈنٹ شئرنگ کا کوئی ایم او یو سائن کریں تاکہ گلشن تعلیم میں رعنائی آئے، میں نے کلیم عباسی سے عرض کی کہ جامعہ کراچی اور جامعہ پشاور سے بھی کوئی ایسا معاہدہ عمل میں لائیں۔ گاہے بگاہے چئیرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان ڈاکٹر مختار احمد سے ملاقات رہتی ہے ہم انکی صلاحیتوں اور کاوشوں کے مداح ہیں۔ ڈاکٹر مختار کے حوالے سے بہرحال پورا پاکستان کہتا ہے کہ انکی علم دوستی، محنت اور سادگی کے سبب وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی کو چاہئے کہ فی الفور انہیں اگلے دورانیے کیلئے منظوری عنایت کردیں، میرا خیال ہے کہ وفاقی وزراء احسن اقبال اور بلیغ الرحمن ڈاکٹر مختار کی تعلیم اور کتاب دوستی کے حوالے سے مجھ سے اتفاق کرینگے۔ پنجاب کے چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر نظام الدین کو بیوروکریسی اور سیاست اگر تنگ نہ کرے اور کم از گورنر ہاؤس کا تعاون میسر آجائے تو حالات بدل سکتے ہیں۔
آئندہ نسلوں کو گر کتاب کا تحفہ دینے میں ہم کامیاب ہوگئے تو سمجھ لیں ہم نے نظریہ اور جمہوریت کی لاج رکھ لی۔ رعایا سے عوام اور عوام سے قوم بننے کیلئے بھی کتاب کی ہم نشینی ضروری ہے۔ کتاب ہی کا کرشمہ ہے کہ ایک نوجوان اور بظاہر کم تجربہ کار سیاستدان بلاول بھٹو زرداری نے ایک زیرک انڈین ٹی وی اینکر کو انٹرویو دیتے ہوئے کھری کھری سنادیں کہ ’’پاکستان آرمی پر تنقید نہیں یہ میری آرمی ہے ، اور یہ کوئی سیاست نہیں کہ مودی مذہب کے نام پر قوم کو تقسیم کرکے الیکشن جیت لے!‘‘…گلوبل ویلج میں وقار درکار ہے اور وطن میں جمہوریت اور احترام چاہئے تو اس دنیا اور اس کی تاریخ کے فہم کیلئے صرف کتاب نہیں قارئین کو بھی کھلنا ہوگا۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن