• news
  • image

صحافتی ذمہ داریاں اور چیف جسٹس سے درخواست

جب سے سوشل میڈیا عام ہوا ہے، کوئی بھی خبر ہو جنگل کی آگ سے بھی زیادہ تیزی سے پھیلتی ہے، فوراً ہر کوئی ری ایکشن دے کر ’’سوشل میڈیا ایڈیٹر‘‘، تجزیہ کار، استاد، نامہ نگار، رپورٹراور اینکر بن جاتا ہے۔ فیس بک اور دیگر ایپس بنانے والوں نے زندگی گزارنے کے طور طریقے ہی یکسر بدل کر رکھ دیئے ہیں۔ جو پاکستانی کبھی کتاب پڑھنا تو درکنار ہاتھ میں پکڑنا توہین سمجھتے تھے۔ اب موبائل کے ذریعے ہر چیز پڑھ بھی لیتے ہیں، نئی چیز بنا بھی لیتے ہیں اور اُس کا اثر بھی لے لیتے ہیں۔ اس اہم ’’ضرورت‘‘کو دیکھتے ہوئے ایک گداگر سے لیکر بڑی بڑی کمپنیوں، ریسٹورنٹس، میڈیا ہائوسز اور مارکیٹنگ کمپنیوں نے اپنے اپنے ’’پیج‘‘ بنا رکھے ہیں۔ جس میں من چاہا مٹیریل اپ لوڈ ہوتا ہے اور ہر سٹیک ہولڈر اپنے اپنے مفادات حاصل کرتا ہے۔ کسی کیخلاف مہم سازی کرنی ہو، کسی کو پروموٹ کرنا ہو، اپنی کمپنی کی تشہیر کرنی ہو سب لوگ سوشل میڈیا کا سہارا لیتے ہیں۔ دنیا بھر کی بڑی بڑی کمپنیاں اس کار خیر میں کود پڑی ہیں اور اچھا خاصا بزنس بھی کر رہی ہیں۔ اگر ہم فیس بک کی بات کریں تو ایک اندازے کیمطابق یہ پاکستان سے 1ارب ڈالر سالانہ ریونیو اکٹھا کرتی ہے اور پوری دنیا سے اربوں ڈالر سالانہ اکٹھے کر رہی ہے، جو مختلف کمپنیاں اسے تشہیر کی مد میں دے رہی ہیں۔ چین میں فیس بک سمیت کئی ویب سائٹس پر اسی لیے پابندی لگا دی گئی ہے کہ وہ بہت زیادہ ریونیو چین سے باہر لیکر جا رہی تھی اور اگر کسی خبر کی اشاعت نہیں کرنی یا کسی خبر کو وائرل ہونے سے روکنا ہے تو اُسے اپنے ملک سے ہی جب چاہے، جیسے چاہے روکا جا سکے۔ چین، روس نے انکے متبادل اپنی ایپلی کیشن بنا کر عوام کو دی ہیں، جس وجہ سے ملک کو مجموعی طور پر نقصان نہیں اُٹھانا پڑتا۔ لیکن یہاں میکانیزم نہ ہونے کی وجہ سے سرکاری سطح پر ایسا کوئی اقدام نہیں اُٹھایا جاتا ، جس سے ملک کا ریونیو کسی طرح سے بچایا جا سکے یا کسی بھی خبر کو فوری طور پر روکا جا سکے۔ 

اس حساس معاملے کو سمجھتے ہوئے راقم نے دو سال قبل اس مسئلے کو اُٹھانے کیلئے ایک سیمینار کا انعقاد کرایا تھا جس کا عنوان ’’سوشل میڈیا اور ہماری ذمہ داریاں‘‘ تھا اُس کا لب لباب ہی یہ تھا کہ سوشل میڈیا کے حوالے سے ہم جس قدر غیر ذمہ دار رویوں کیساتھ آگے بڑھ رہے ہیں، اگر اسے حکومت نے کنڑول نہ کیاتو ہم ایک بڑا نقصان اُٹھا سکتے ہیں۔ آج یہی کچھ سوشل میڈیا پر دیکھ رہے ہیں، ایسے لگ رہا ہے جیسے حکومت کے کنٹرول میں کچھ نہیں ہے۔ ہر کوئی جب اور جو چاہتا ہے وہ کر دکھاتا ہے۔ کسی نے اگر بیرونی ایجنڈے پر کام کرنا ہے اور ملک میں افراتفری پھیلانی ہے تو کوئی مسئلہ نہیں، سب کو علم ہے کہ پاکستان کی 70سے 80 فیصد آبادی انٹرنیٹ استعمال کر رہی ہے، جو تربیت یافتہ بھی نہیں ہے اس لیے جیسی چاہے اور جب چاہے خبر پھیلا دو اور من چاہے نتائج حاصل کر لو۔ گزشتہ چند ماہ سے ایسا ہی کچھ دیکھنے اور سننے کو مل رہا ہے، ملک میں کیا کچھ نہیں ہوا؟ حد تو یہ ہے کہ حکومتی سطح پر بھی میڈیا ہائوسز کام کر رہے ہیں، جن کے عہدیداران کی تنخواہیں تو سرکار کے خزانے سے دی جاتی ہیں مگر اُن کا کام عوام کی فلاح نہیں بلکہ مخالفین کیلئے پراپیگنڈہ کرنا اور عوام کی تائید حاصل کرنا ہوتا ہے۔
ابھی ڈاکٹر شاہد مسعود کیس کی ہی مثال لے لیں جنہوں نے زینب کیساتھ زیادتی اور قتل کرنے والے درندے عمران کے حوالے سے دنیا کو حیران و پریشان کر دیا تھا، اُن کے مطابق ملزم عمران ڈارک ویب کا رکن ہے جس کے پاکستان بھر میں37اکائونٹس ہیں وغیرہ وغیرہ انہوں نے خود ہی چیف جسٹس سے ازخود نوٹس لینے کی استدعا کی اور پھنس گئے۔ پاکستانی میڈیا اور معاشرے میں تو صرف اور صرف ڈاکٹر شاہد مسعود کا ٹرینڈ چل رہا تھا بلکہ ڈاکٹر صاحب کے اس انکشاف کا تو سپریم کورٹ، نیب نے ازخود نوٹس لیا اور لاہور میں سپریم کورٹ رجسٹری میں گزشتہ روزسماعت کے دوران چیف جسٹس نے ڈاکٹرشاہد مسعود کو آڑے ہاتھوں لے کر نئی جے آئی ٹی بنا دی اور کہا کہ میں اس مسئلے کی حد تک پہنچنا چاہتا ہوں ۔ ڈاکٹر شاہد مسعود کی اس خبر کے بعد اُنکی جتنی ’’خبر‘‘ لی جا رہی ہے میرے خیال میں وہ کافی ہے، کیوں کہ جھوٹی خبر پھیلانے والا گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوتا ہے، اس لیے یہ ایک ناقابل تلافی جرم ہے۔ موصوف خود فرماتے ہیں کہ انہوں نے زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولا لیکن جو چیزیں خبروں میں زبان زد عام رہیں میں صرف اُن ہی کا ذکر کروں گا، جس میں سرفہرست End of Time ڈاکیومنٹری ہے جو پاکستان میں خاصی مقبول بھی رہی لیکن اُس حوالے سے دنیا کے بڑے بڑے مفکرین اور خاص طور پر دنیا کے کئی سکالرز نے کہا کہ یہ ساری تحقیق اُن کی ہے اور ڈاکٹر صاحب نے یہ زیادتی کی ہے کہ اُن کا نام بھی کہیں نہیں لیا گیا۔ اُسکے بعد ڈاکٹر صاحب کبھی تو پاکستان کی مایہ ناز گلوکارہ نازیہ حسن کے طبی اور روحانی معالج کے روپ میں نظر آئے تو کبھی صحافی تو کبھی سیاسی کارکن بن کرمحترمہ بے نظیر بھٹو کو گر سکھانے کا دعویٰ کرتے نظر آئے۔ اسکے بعد ڈاکٹر صاحب پی ٹی وی کے چیئرمین بن گئے اور مشیر خاص بن کر زرداری صاحب کو مفید مشورے دینے لگے۔ ابھی آپ کامیابی سے ترقی کی منازل طے کر کے وزیر بننے جا ہی رہے تھے کہ نوکری سے نکلوا دیئے گئے اور لاکھوں روپے کی کرپشن کے الزامات بھی لگے۔ پھر ڈاکٹر شاہد سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کو اپنا کلاس فیلو کہتے ہیں حالانکہ ڈاکٹر عباد اس بات کو نہیں مانتے کہ وہ کبھی بھی ڈاکٹر صاحب کے ساتھ پڑھے ہوں۔
میرے خیال میں دنیا بھرمیں صحافیوں کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کیونکہ عوام صحافی کی تحقیق سے سچ جاننا چاہتی ہے عوام میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ صحافی عوام کے ساتھ ہونیوالی زیادتیوں اور دھوکے بازی سے عام شہریوں کو آگاہ کرنے اور عوامی مسائل اُجاگر کرنے میں اپنا کرِدار ادا کرتا ہے۔ عام شہری صحافیوں کے قلم سے لکھی ہوئی اور زبان سے نکلی ہوئی بات کو کافی حدتک اہمیت دیتا ہے۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ امریکہ اور دیگر یورپی ممالک میں صحافیوں کی جانب سے غلط بیانی کو بالکل برداشت نہیں کیا جاتا ہے جسکی بہت سی مثالیں موجود ہیں جیسے 2004 میں سی بی ایس نے ایک مشہور نیوز اینکر ڈان راتھرکو غلط خبر نشر کرنے پر معطل کردیا تھا اس کے علاوہ 2015 فروری میں امریکی نیوز چینل این بی سی کے مشہور نیوز اینکر جرنلسٹ برائن ولیم کی ہے جوکہ وائٹ ہائوس میں این بی سی کے نیوز کارسپانڈنٹ بھی رہ چکے ہیں اور امریکہ میں صحافت کی دنیا کی ایک جانی پہچانی ہستی ہیں، براہ راست غلط رپورٹنگ کرنے پر اسی چینل کے صدر کی جانب سے 6 ماہ کے لیے معطل کیا گیا تھا جو ریکارڈ کا حصہ ہے۔
لہٰذاچیف جسٹس سے درخواست ہے کہ اگر اس قسم کے لوگ اپنی خبر کے ثبوت پیش نہیں کر پاتے تو ان کو معافی نہیں ملنی چاہئے۔ اگر چیف جسٹس سپریم کورٹ انہیں سزا تک لے جائینگے تو یقین ہے کہ دوبارہ کوئی غیر ذمہ دارانہ صحافت نہیں کریگا اور اسکے ساتھ ساتھ چیف جسٹس سے یہ بھی گزارش ہے کہ جو لوگ عدلیہ، ملک کے سکیورٹی اداروںاور صوبائی لڑائیوں کی گھنائونی سازشوں میں ملوث ہیں اور میڈیا پر آکر قومی مفاد کیخلاف بات کرتے ہیں اُن کا بھی احاطہ کیا جائے۔ ان لوگوں کی زبانیں بھی بند کرنے کا اہتمام کیا جائے کیونکہ بھارت جیسے ملک ان ہی لوگوں کی زبان بول کر پاکستان کو بدنام کر رہے ہیں، پوری دنیا میں پاکستان کیخلاف کام کر رہے ہیں۔ قارئین سابق وزیراعظم نواز شریف اور انکے حواریوں کے حوالے سے خوب علم رکھتے ہیں لیکن حد تو یہ ہو گئی ہے کہ آج ہر جلسے میں، ہر میٹنگ، ہر پریس کانفرنس میں وہ اداروں کیخلاف خوب باتیں کر رہے ہیں جو ملک کیلئے کسی صورت بہتر نہیں لہٰذا چیف جسٹس آف پاکستان سے گزارش ہے کہ وہ اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر اس حوالے سے بھی ازخود نوٹس لیں تاکہ آئندہ کوئی ملکی اداروں کیخلاف کام کرنا تو دور کی بات کوئی اس حوالے سے سوچ بھی نہ سکے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن