میاں نوازشریف کی تلخ نوائی
عدلیہ نشانے پر ہے جناب نواز شریف سب حدیں عبورکرگئے ہیں۔ فوج کے ساتھ ساتھ عدلیہ کو بھی سولی پرچڑھا دیا گیا ہے۔ اور کوئی نہیں جناب نوازشریف اکیلے نہیں اپنی صاحبزادی کے ساتھ عدالت عظمیٰ خاص طور پر پاناما مقدمے میں جناب نواز شریف کو نا اہل قرار دینے والے پانچوں جج صاحبان پر برس رہے ہیں ’یہ وقتی اشتعال نہیں‘ سوچی سمجھی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ سیاستدانوں کے ’پلّے‘ کچھ رہ نہیں گیا۔ انہوں نے جارحانہ انداز میں ’عظمیٰ‘ کا گلہ دبوچ رکھا ہے صرف نوازشریف ہی نہیں، متحارب سیاستدان اور تجزیہ کار بھی عدلیہ پر دبائو ڈالنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں۔اپوزیشن کی ناکامی کہیں یا نوازشریف کی خوش قسمتی یاپھر کامیاب سیاسی حکمت عملی، حکومت بھی ان کی اپنی ہے اور وہ خودہی قائدحزب اختلاف بنے ہوئے ہیں۔ ع اس سادگی پہ کون مرنہ جائے اے خدا۔ گالی دینے والوں کے لئے الفاظ گھڑنے والے نجانے کون کون سی ناآسودہ خواہشات کے مجروح لاشے اٹھائے ماتمی جلوس میں شامل ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا اجماع ہے کہ مارچ کے پہلے ہفتے میں ’نوازشریف‘ کے خلاف دائر کسی نہ کسی ریفرنس کا فیصلہ آنے والا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے پاناما کیس میں فیصلہ دیتے ہوئے احتساب عدالت کے لئے 6 ماہ کی مدت کا تعین کیاتھا۔ شریفین کا پاناما کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ میں اصرار تھا کہ ثبوت ٹرائل کورٹ میں بتائیں گے۔ ’ٹرائل کورٹ‘ کے ساتھ ’بوجھو تو جانیں‘ کا کھیل کھل کر کھیلا جارہا ہے۔ اب کوئی معجزہ ہی نوازشریف اینڈسنز کو سزا سے بچا سکتا ہے۔ یہ تو گروہ دانشورانِ سابقین ’’جماعت‘‘ کا حوصلہ ہے کہ چند ٹکوں کے عوض قلم و ضمیر بیچے جا رہے ہیں۔ شب گذشتہ عدلیہ پر حملوں کا تجزیہ کرتے ہوئے ایک صاحب نہایت بے رحمانہ غیر جانبداری سے تجزیہ کر رہے تھے کہ سننے والوں کو پسینے آگئے اسے کہتے ہیں پروفیشنل ازم' جو کام کیا جائے دھڑلے سے کیا جائے وہ کہہ رہے تھے کہ جڑانوالہ میں نوازشریف اور ان کی صاحبزادی نے عدلیہ کی توہین نہیں کی بلکہ اس کی عزت ووقار کا جنازہ نکال دیاگیا ہے۔ عدالتوں کو ڈرانے کے لئے کھلم کھلا دھمکیاں دی گئیں۔ اس سب کا مقصد عدلیہ کو دبائو میں لاکر فیصلے تبدیل کرانا ہے۔ یہ خدشہ بھی ہے کہ تاریخ کہیں دہرا نہ دی جائے جب سجاد علی شاہ جیسے منصف کی ’مزاج پرسی‘ کے لئے ایوان عدل کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی تھی، ایک بار پھر صف بندیاں جاری ہیں اس بار اس سپاہ کا پڑائو نیب عدالت یا پھر ایک مرتبہ سپریم کورٹ ہوسکتا ہے۔ نوازشریف آتش غیظ و غضب میں لشکروں کو میدان میں لانا چاہتے ہیں لیکن ان کے کارکن خون دینے والے نہیں دودھ پینے والے مجنوں ہیں نعروں کی حد تک ٹھیک ہیں۔
ماہ رواں کی 30 تاریخ کو فیصلے کے منتظر ہیں یہ فیصلہ دستور کی شق 62 ایک، ایف کے تحت عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم بینچ نے دینا ہے۔ اس فیصلے سے عدالت عظمیٰ وہ لکیر کھینچ دے گی جس سے پتہ چلے گا کہ نوازشریف ایوان اقتدار سے ہمیشہ کے لئے باہر ہیں یا پھر پانچ یا دس سال کی جدائی کے بعد ایک بار پھر وہ پاک وصاف ہوکر ’دوبارہ صادق اور امین‘ ہوجائیں گے۔ نااہلی کی مدت کے تعین پر ہی ان کے سیاسی مستقبل کا دارومدار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دردناک آواز میں شدت کرب کا اضافہ دیدنی ہے۔ دوسرا ’ہولناک منظر‘ انہیں آئندہ ماہ یعنی چھ فروری کو ایک اور عدالتی فیصلے کی صورت دکھائی دیتا ہے۔ یہ معاملہ نااہل شخص کو پارٹی سربراہ مقرر کرنے کے خلاف دائر درخواست پر فیصلہ کی صورت طے ہونا ہے۔ آئینی، قانونی، جمہوری، اخلاقی اور معاشرتی طورپر اس کے دوررس اثرات مرتب ہونے ہیں۔ سب گھات لگائے بیٹھے ہیں سب ’دودھ سے مکھی ‘ نکلنے کے منتظر ہیں۔ (ن) لیگ میں خیمہ زن بڑے بڑے ’وفادار‘ چوکڑی بھول جائیں گے۔ بس ان فیصلوں کا انتظار ہے۔ نوازدشمنی کی صحافت کرنے والوں کے نزدیک جڑانوالہ جلسہ میں جو زبان استعمال کی گئی، اس میں دونوں چیزیں نظرآئیں کہ عدلیہ کو دفاعی انداز اختیا رکرنے پر مجبورکردیاجائے۔ یہ امکان بھی ظاہر کیاجارہا ہے کہ وقت کے ساتھ زبان کی اس تلخی اور زہرناکی میں بتدریج اضافہ ہوتاچلا جائے گا۔ مریم نواز نے صاف کہہ دیا کہ’عمران خان جب نوازشریف کو اقتدار سے باہر نہ نکال سکا تو چیف جج نے کہاکہ میرے پاس درخواست لے لائو۔ ہم اسے نکال باہر کریں گے۔نوازشریف کے خلاف سات جج درخواست گزار کے وکیل بن گئے۔ لاڈلے کے خلاف مقدمہ آتا ہے تو خود اس کے وکیل بن جاتے ہیں۔اٹھو اور ان سازشی مہروں کو سبق سکھادو۔‘انہوں نے جج صاحبان پر ’مجرمانہ خاموشی‘ کا بھی پتھر دے مارا۔
تجزیہ نگاری کی عافیت گاہ کو خیرباد کہہ کر دوبارہ سیاست کی ’وَن ویلنگ‘ کرنے والے پی ٹی آئی راہنما شفقت محمود کے خیال میں اس سارے ڈرامے کا مقصد نیب کورٹ کے ٹرائل سے بچنا ہے۔ کیونکہ اگر اس عدالت سے سزا ہوگئی توسزا تو جو ہوگی سو ہوگی لیکن اربوں روپے کی دولت خطرہ سے دوچار ہوجائیگی جس کا منطقی انجام یہ ہوگا کہ نیب یا حکومت پاکستان برطانوی حکومت سے کہہ کر یہ دولت اور اربوں مالیت کے شاہانہ اپارٹمنٹس پر قبضہ کرنے کی کوشش کرے گی۔ دریدہ دہن شیخ رشید کے بعد چینلوں کی سب سے بڑی ضرورت بن جانے والے لاہوری بھٹی کو بہت غصہ آیا ہوا ہے۔ اس معاملے وہ کہتا ہے کہ امتیازی انصاف ملک کو تباہ کردیگا۔ان کا یہ بھی گلہ ہے کہ اگر فوج، عدلیہ اور عوام کا احترام تین بار منتخب وزیراعظم اور اس کی بیٹی کو نہیں تومیری آواز اونچی پر پیمرا کے ذریعے فوری نوٹس کیوں دیا جاتا ہے۔یہ اعتراض بھی انہوں نے کیا کہ عدالت نے ان لوگوں کو بلالیا جو آزادی صحافت کے راستے کی خود رکاوٹ ہیں۔ ’مجھے کیوں نکالا‘ کے ردعمل میں جو کچھ عدلیہ کو، فوج کو کہاجارہا ہے، جو سوال اٹھائے جار ہے ہیں اس پر سارے ملک کی بارایسوسی ایشنز نے چْپ کا روزہ کیوں رکھا ہوا ہے؟ معمولی واقعہ پر درخواستوں سے چیلنج دینے والی پاکستان بارکونسل، سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن، ہائیکورٹ اور ضلعی بار ایسوسی ایشنز کہاں ہیں؟عدلیہ کی آزادی، شہری حقوق اور وقار کی گردان والوں کی گردنیں ریت میں کیونکر دبی ہیں۔
مریم نوازنے تین الزمات دہرائے۔ انہوں نے جلسہ میں شرکاء سے پوچھا ’ووٹ کی پرچی کو سب سے حقیر سمجھاجائے۔ مشرف جیسے غاصب کو کسی عدالت کو بلانے کی جرأت نہ ہو، منتخب وزیراعظم کو ڈان اور سیسیلین مافیا کہاجائے۔ کیا ایسا پاکستان آپ کو منظور ہے۔؟
مسافر ڈیوس سے زیورخ' براہ راستہ فرینکفرٹ واپسی کے سفر پر پیرس پہنچ چکا ہے فرینکفرٹ میں پاک جرمن پریس کلب کے عہدیداروں سے سلیم پرویز بٹ کی قیادت میں طویل گفتگو ہوئی وہ سالانہ میونخ دفاعی کانفرنس کی تیاریوں میں مصروف تھے ہر درد دلْ رکھنے والے کی طرح ان احباب کو بھی مادر وطن بارے دْکھی پایا البتہ نواز شریف کے عاشق زار الریاض کے باسی چاچا عبدالمجید گوجر یہ سمجھے کہ شاید یہ عاجز سرکاری دورے میں شامل ہونے میں کامیاب ہو گیا ہے فرماتے ہیں مخالفت کرکے دورہ پالیا ہے اب وزیراعظم عباسی کے ساتھ ریاض کا چکر بھی لگا لو یا میں انتظام کردوں گا۔ انہیں کیا بتاؤں کہ ہمیشہ آقاو مولا کا یہ فرمان عالی شان دل و دماغ میں گونجتا رہتا ہے دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے نصف صدی اسی طرح گزر گئی اب چند آخری برس بھی گذر ہی جائیں گے وقت عصر ہے اب روزہ کیا توڑنا' گناہ بے لذت کیا کمانا' کیا کمانا ۔