• news
  • image

سلیوٹ چیف جسٹس آف پاکستان

بختاور نے دوبئی میں دو بلند عمارتوں سے بندھے تار کے سہارے ہوا میں سفر کر کے اپنی اٹھائیسویں سالگرہ کا جشن منایا۔ دوسری طرف بلاول بھٹو نے ڈیووس میں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سے گرمجوشی اور عزت سے مصافحہ کیا۔ بلاول اور بختاور ایک عظیم لیڈر بے نظیر بھٹو کے بچے ہیں۔ بے نظیر بھٹو کی تربیت بہت ہی اعلیٰ پیمانے پر ہوئی تھی اور وہ نہایت اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون تھیں جنہوں نے پاکستان کی بہترین درسگاہوں کے علاوہ آکسفورڈ سے تعلیم حاصل کی تھی۔ وہ آکسفورڈ کی سب سے ذہین طالبہ تھیں اور یونین صدر بھی تھیں۔ اپنے والد کے وزارت عظمیٰ سے ہٹائے جانے ، مقدمہ چلنے، جیل جانے، پھانسی پر لٹکنے ، جلا وطنی اور دونوں بھائیوں پر طیارہ اغواء کیس کو فیس کرنے کے وقت بے نظیر بھٹو کی عمر محض چوبیس پچیس برس تھی۔ انہوں نے تمام حالات، صدمات اور مقدمات کا مقابلہ نہایت وقار، تہذیب اور جرأت سے کیا۔ کسی کو گالی نہیں دی، کسی پر الزام تراشی نہیں کی۔ اپنے کان کے دیرینہ شدید درد اور ماں کی بیوگی و بیماری میں بہادری سے کھڑی رہیں۔ بے نظیر بھٹو اسلامی دنیا کی پہلی وزیر اعظم ہونے کے علاوہ مسلم کمیونسٹی کی سب سے بڑی لیڈر تھیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی دس بڑی خواتین میں سے ایک ہیں۔ بختاور نے جس خوبصورتی، بہادری سے اپنی سالگرہ منائی۔ اس طرح مسلم لیگ ن کی کوئی خاتون ہمت نہیں کر سکتی۔ رہی بات بلاول بھٹو کے ڈیووس میں وزیراعظم سے مصافحہ کرنے کی تو اس سے بلاول بھٹو کا قد اونچا دکھائی دیتا ہے۔ یہ بلاول بھٹو کی تربیت ہے کہ اس نے باہر جا کر کسی قسم کا تعصب ، نفرت یا حقارت آمیز رویہ اختیار نہیں کیا بلکہ اپنی ماں کی طرح تہذیب شائستگی اور کھلے دل کا مظاہرہ کیا ہے۔ ورنہ بے نظیر بھٹو جب وزیر اعظم تھیں تو بطور وزیر اعلیٰ نواز شریف نے کئی بار جمہوریت کی ناک مروڑی اور پروٹو کول کے پرخچے اڑائے۔ بلاول بھٹو نے ڈیووس میں جدا انٹرویو دیا ہے۔ اس سے بلاول کی ذہانت متانت ، بہادری اور جرأت کا اندازہ ہوتا ہے۔ بلاول بھٹو کے مقابلے میں شاہد خاقان عباسی کی تقریر رٹی رٹائی ، بے معنی اور روایتی باتوں کا بے جان پلندہ تھی۔ گر آصف زرداری اپنا قبلہ درست کر لیں اور کرپشن سے تائب ہو جائیں تو یقینی طور پر بے نظیر بھٹو کے بچے ہی وزارت عظمیٰ کے لائق دکھائی دیتے ہیں۔ بختاور اور آصفہ میں انتہائی کم عمری کے باوجود بہت زیادہ فہم و ادراک اور سنجیدگی ہے۔ قومی لیڈر کہلوانے کے باوجود عمران خان کا شادیوں اور افیئرز کا چکا ختم نہیں ہوتا تو دوسری طرف شریف برادران غلطیاں کوتاہیاں کرنے کے باوجود تائب نہیں ہوتے۔ نواز شریف نے تمام اداروں کی بنیادیں ہلا دی ہیں۔ کروڑوں روپیہ خزانے کی مد سے جلسوں پر لگاتے ہیں اور اپوزیشن عدالتوں پر الزامات لگاتے ہیں۔ خدمت کے نام پر اپنی اور اپنی بیٹی کی دن رات پروجیکشن کرتے ہیں۔ نواز شریف اور عمران خان جس طرح کے جلسے برپا کر کے جس طرح ملک میں انار کی پھیلا رہے ہیں کیا یہی عوام کی خدمت ہے؟ اس سارے عرصے میں پاکستانی عوام نے خود کو بری طرح بے بس پایا ہے کہ وہ کس سے گلہ کریں۔ چیف آف آرمی سے عوام کی تمام تر امیدیں بندھی تھیں لیکن آرمی چیف بھارت افغانستان امریکہ سے نمٹنے یا اندرونی خلفشار اور دہشت گردی کا خاتمہ کریں۔ پھر بھی آرمی چیف نے کئی بار معاملات کو سنبھالا ہے۔ اس عرصہ میں عوام ان نام نہاد لیڈروں سے عاجز رہی ہے۔ انکی کرپشن اور جھوٹ نے عوام کو شدید مایوس کیا ہے بلکہ لیڈر شپ کے حوالے سے پاکستان ایک بد نصیب قوم ثابت ہوئی ہے۔ دو چار لیڈروں کے سوا سبھی جعلی، نا اہل اور کرپٹ ثابت ہوئے ہیں۔ گزشتہ چار سالوں سے تو عوام کی مایوسی اور دکھ انتہائوں پر پہنچا ہوا تھا اور لگ رہا تھا کہ عوام کی شنوائی ممکن نہیں۔ ملک میں کرپشن کا راج رہے گا۔ اہل لوگ رلتے رہیں گے اور نا اہل کرپشن کی گنگا میں نہاتے رہیں گے لیکن شکر ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے ایک درد مند پاکستانی ہونے کا ثبوت دیا اور بہت سے معاملات کا از خود نوٹس لیا ہے ورنہ مجھ سمیت لاکھوں پاکستانی اپنا وطن چھوڑنے کے متعلق سوچنے لگے تھے۔ ملک دہشتگردی، بھوک، افلاس ، مہنگائی، قرض ، بم دھماکوں، دہشت گردی اور بچوں کے دن رات ریپ میں مبتلا ہے اور وزیر داخلہ اپنے نمبر ٹانکنے کیلئے ملکی مسائل پر بات کرنے کے بجائے یہ بیانات داغ رہے ہوں کہ شہباز شریف آئندہ وزیر اعظم کے امیدوار ہیں اور ملک چلانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ چیف جسٹس صاحب کو ان تمام امور کا بغور جائزہ لینا چاہئے کہ آخر ملک میں ہو کیا رہا ہے۔ چیف جسٹس نے ویسے تو زینب کیس کے علاوہ بھی بہت سے معاملات کا سو موٹو نوٹس لیا ہے بالخصوص پولیس مقابلے میں نقیب محسود اور جعلی پولیس مقابلوں کا، جعلی پولیس مقابلوں میں سب سے زیادہ پنجاب اور سندھ بد نام ہے جہاں سب سے زیادہ نا حق لوگوں کو پولیس مقابلوں میں پار کیا گیا ہے۔ پاکستان میں ایک ایسا قانون بننا چاہئے جہاں کسی کی جان یا عزت لینے والے کو سر عام ایک ماہ کے اندر پھانسی دیدی جائے۔ چاہے یہ پولیس مقابلہ ہو یا کوئی ڈاکٹر کسی مریض کو اپنی غفلت یا جہالت سے مارے یا کوئی ریپ کر کے کسی کو مارے۔ چیف جسٹس صاحب! پاکستانیوں کو حشرات الارض بنا دیا گیا ہے کہ اگر کسی کو کسی سے اختلاف ہے، نفرت ہے، دشمنی ہے تو یہاں کوئی بھی کسی کی بھی جان لے لیتا ہے۔ یہاں جمہوریت کے نام پر جو قتل عام ہوتا ہے تو کوئی بھی شریف آدمی یا عورت سیاست میں جانے کا بھول کر بھی نہیں سوچتے۔ سیاست میں صرف تگڑے طاقتور، امیر کبیر، چالاک سازشی عناصر ہی حصہ لیتے ہیں۔ اس ملک میں کوئی شریف انسان وزیراعظم یا صدر تو بننے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا۔ حد تو یہ ہے کہ ایم پی اے اور ایم این اے بننے کا بھی نہیں سوچ سکتا۔ چیف جسٹس صاحب! آپ نے بجا فرمایا کہ ریاست کو قتل عام کی اجازت نہیں دے سکتے۔ چیف جسٹس صاحب آپکے اقدامات کو سلام آپکی بہادری کو سلام آپکی سوچ کو سلام مہربانی کر کے آپ اس ملک کی کایا پلٹ دیں، یہ جو روزانہ ڈگڈی پر جلسوں کے نام پر تماشے لگتے ہیں انہیں بند کرائیں۔ صرف کام کرنیوالے لوگوں کو آگے آنے کا موقع ملتا چاہئے۔ آپ عدلیہ کے سر براہ ہیں عوام آپ سے انصاف مانگتے ہیں۔ آپ اپنی زندگی میں اس قوم کیلئے کچھ کر جائیے۔ ہم بہت دکھی ہیں ہمارا استحصال ہوا ہے، حق مارا گیا ہے، اپنی قوم کو انصاف مہیا کیجئے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن