… وہ سات معصوم بھی تو کسی گلشن کی کلیاںتھیں
معصوم زینب قتل کیس قاتل کی گرفتاری کے ساتھ اپنے پیچھے کئی سوالات چھوڑ گیا جو اہمیت کے حامل بھی ہیں اور غور طلب بھی، جس میں قصور کی ضلعی انتظامیہ، پولیس کی کارکردگی اور میڈیا کا کردار نمایاں ہے۔ جہاں تک وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کا تعلق ہے تو انہوں نے حد سے زیادہ اس کیس میں دلچسپی لی اور قاتل کے پہنچنے تک کے کام کی خود نگرانی کی اور لمحہ بہ لمحہ اس حوالے سے ہونے والی ہر پیش رفت سے با خبر رہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس چھوٹے سے شہر قصور کی انتظامیہ اور پولیس کی کارکردگی کیا ہے کہ زینب سے پہلے بھی اسی قصور میں سات بچیوں کو سفاکانہ زیادتی کے بعد بہیمانہ طور پر قتل کیا گیا۔ وہ معصوم بھی تو کسی گلشن کی کلیاں تھیں اگر پہلے کیس میں ہی انتظامیہ اور پولیس سنجیدگی کے ساتھ اپنی کارکردگی دکھاتیں تو سات معصوم بچیوں کی زندگی درندگی کا شکار نہ ہوتی۔ قصور پنجاب کے درالخلافہ لاہور سے کوئی دور نہیں بلکہ اب تو لاہور اور قصور جڑواں شہر لگتے ہیں تو آئی جی پنجاب پولیس اور چیف سیکرٹری پنجاب کیا زینب سے پہلے والے سات بچیوں کے قتل سے بے خبر تھے یا انہوں نے ان سات بچیوں کے قتل کو درخور اعتناء نہیں سمجھایا انہیں قصور پولیس اور انتظامیہ کے ذمہ داروں نے بے خبر رکھا اور اگر آخر الذکر بات صحیح ہے تو ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر قصور اور ڈپٹی کمشنر کے علاوہ دیگر متعلقہ اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے صرف معطل کردینا کوئی سزا نہیں، یہ سب سے کم سزا ہے جبکہ زینب قتل کیس اس حوالے سے سخت سے سخت سزا کا تقاضا کرتا ہے اور دوسری صورت میں اگر قصور پولیس اور انتظامیہ نے آئی جی پنجاب پولیس اور چیف سیکرٹری پنجاب کو زینب سے پہلے قتل ہونے والی سات بچیوں کے قتل کی رپورٹ کی تھی تو انہوں نے اس پر سخت ایکشن کیوں نہ لیا اور اسے معمول کی کارروائی سمجھ کر تجاہل عارفانہ سے کام کیوں لیا اس لئے کہ وہ غریب اور عام طبقے کی بچیاں تھیں؟ معطل ڈی پی او قصور کی رعونت دیکھئے جب ان کو زینب کی لاش دکھائی گئی تو انہوں نے یہ کہہ کر اپنی گاڑی سے اترنے سے انکار کردیا کہ ’’کہ لاش سے بہت بدبو آرہی ہے‘‘۔ ہم یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ کیا انہیں معطر لاشیں پیش کی جائیں؟ ان کا یہ رویہ اس امر کا بین ثبوت ہے کہ کلف زدہ وردی پہن کر خوبصورتی سے آراستہ سردیوں میں ہیٹر اور گرمیوں میں ائیر کنڈیشن والے کمروں نے نہ صرف انہیں تساہل پسند بنا دیا ہے بلکہ ان کے دل و دماغ میں خود کو عوام کا خادم سمجھنے کے بجائے عوام کو اپنا خادم اوراپنے سے حقیر سمجھتے ہیں۔
وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف جہاں اور اچھے کام کر رہے ہیں وہاں اس طرف بھی ان کی خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ اگلے روز مجھے ایک ویڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا کہ ایک یورپی ملک میں بطخ کے چند بچے کھلے مین ہول کی بدولت گٹر میں گر گئے ایک عام راہگیر نے پولیس کو فون کیا تو فوری طور پر ریسکیو پولیس کی ٹیم گاڑی میں آئی اور خاصی محنت کے بعد گٹر سے بطخ کے بچوں کو زندہ نکال کر ان کو ماں سمیت کھلے جنگل میں چھوڑ آئے اتفاق سے بطخ کے بچے بھی سات تھے اور ہماری مقتولہ بیٹیاں بھی ساتھ تھیں یہ ہوتی ہے پولیس اس سے بڑھ کر ہمارے پاس ایک بہترین مثال موجود ہے کہ جب حضرت عمرؓ خلیفہ تھے تو انہوںنے فرمایا ’’اگر دریا کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا مر گیا تو عمرؓ اس کا ذمہ دار ہوگا‘‘ اور یہاں ہمارے آئی جی پنجاب پولیس چند کلو میٹر دور قصور میں سات بچیوں کے المناک قتل پر کوئی ایکشن نہیں لیتے۔ ان معصوم بچیوں کے گھنائونے قاتل کو گرفتار کرنا ان کے فرائض کی ترجیحات میں اولین ترین ترجیح تھی مگر ایسا نہیں ہوا جو صرف قابل افسوس ہی نہیں بلکہ ان کے خلاف اس سلسلے میں کارروائی کا متقاضی ہے ہم ارباب اختیار سے گزارش کریں گے کہ زینب اور سات بچیوں کے قاتل کے ساتھ ساتھ ذمہ دار آفیسران اور اہلکاروں سے بلا امتیاز ان کے عہدوں کے بھر پور ایکشن لیا جائے تاکہ دوسرے آفیسران عبرت حاصل کریں تاکہ ایسی المناک وارداتوں کا اعادہ نہ ہو سکے یہ بھی ایک سنجیدگی سے سوچنے کی بات ہے کہ ہمارے وزیر دفاع خرم دستگیر ا ور حکومت پنجاب کے ترجمان محمد احمد ملک علاوہ ازیں قصور سے کئی ایم این ایزاور ایم پی ایز بھی ہیں مگر اس حوالے سے کسی نے کچھ بھی نہیں کیا جو ان کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔
اب رہی بات میڈیا اور سوشل میڈیا کی تو اس نے اس کیس میں بڑا اہم رول ادا کیا اور قاتل کی گرفتاری تک اس مسئلے کو اٹھائے رکھا جو قابل ستائش ہے مگر سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ میں بعض ایسی باتیں بھی دیکھنے اور سننے کو ملیں جو سنسنی پھیلانے کے زمرے میں آتی ہیں بقول کسے ’’ہمارے ملک میں خبر نہیں بلکہ سنسنی پھیلائی جاتی ہے‘‘۔ بعض ذرائع ابلاغ نے زینب اور دیگر سات بچیوں کے ساتھ بے رحمانہ زیادتی اور پھر ان کا بہیمانہ قتل چائلڈ پورنوگرافی سے جوڑا اور کہا گیا کہ ان کی فلمیں بنا کر بھاری قیمت کے عوض یورپی ملکوں کو بھیجی جاتی ہیں اور اس کیس کو بین الاقوامی مافیا سے ملایا اور کہا گیا کہ یہ قبیح حرکت بھارت، بنگلہ دیش، نیپال اور پاکستان میں جاری ہے اور اس حوالے سے زینب سے مماثلت رکھتے ہوئے بھارت کے شہر ممبئی میں ہونے والے ایک کیس کا حوالہ دیا گیا جس میں چھ سات سالہ بچی رادھا کے ساتھ وہی کچھ کیا گیا جو یہاں ہوا اور ایک نجی ٹی وی چینل کے اینکر پرسن نے تو سفاک قاتل عمران علی کے 37 بینک اکائونٹس کا انکشاف کردیا اور بتایا کہ یہ سب اکائونٹس غیر ملکی کرنسی میں ہیں جبکہ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے اپنے ایک مراسلے کے ذریعے اس کی تردید کردی، علاوہ ازیں یہ بھی کہا گیا کہ اس کیس میں دو اعلیٰ شخصیات ملوث ہیں۔ جس کے باعث عمران کی زندگی کو خطرہ ہے اور اسے مروا دیا جائے گا تاکہ راز فاش نہ ہوجائے۔ کیس جو اس وقت سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اور چیف جسٹس نے واضح طور پر کہا ہے کہ ’’ اگر عمران کو کچھ ہوا تو آئی جی پنجاب پولیس اس کے ذمہ دار ہوں گے‘‘۔ اب جب تک یہ کیس اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچتا عوام میں ایک اضطراری کیفیت طاری ہے اور وہ اس کیس کی حقیقت جاننے کے منتظر ہیں ۔