کابل میں دہشت گردی کے پے درپے واقعات کیوں؟
گزشتہ دو ہفتوں کے دوران داعش کے دہشت گردوں نے پیر کو تیسری بار کابل پر حملہ کیا جس میں 11 افراد ہلاک 16 زخمی ہوئے۔ چار دہشت گرد بھی مارے گئے۔ دہشت گردوں نے اس بار، ملٹری اکیڈمی کے قریبی فوجی اڈا کو نشانہ بنایا۔ پاکستان نے دہشت گردی کی اس واردات کی شدید مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ دہشت گردی کے مکمل خاتمے کیلئے دہشت گردی سے متاثرہ ملکوں کو قریبی تعاون کرنا ہوگا۔ جبکہ ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ اور ان کی تقلید میں افغان حکومت نے ان حملوں میں حقانی نیٹ ورک کے ملوث ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔
پچھلے پندھرواڑے کے دوران داعش کے کابل کے فائیو سٹار ہوٹل، ایمبولینس دھماکے اور اب پیر کو فوجی اڈے پر حملوں میں، ڈیڑھ سو سے زائد افراد ہلاک اور اس سے کہیں زیادہ زخمی ہوئے۔ یہ امر حیران کن ہے کہ امریکی فوجیوں اور افغان سکیورٹی حکام کے فول پروف سکیورٹی کے دعوے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور دہشت گرد کام دکھا جاتے ہیں۔ مزید تعجب یہ کہ الزام حقانی نیٹ ورک کو دے دیا جاتا ہے۔ حقانی نیٹ ورک کا نام لینے کا مطلب پاکستان کو ملزم ٹھہرانا ہے حالانکہ پاکستان بارہا تردید کر چکا ہے‘ اسکے باوجود پاکستان میں طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے محفوظ ٹھکانوں کا الزام دینا بدترین افترا پردازی ہے۔ افغانستان میں دہشت گردی کے واقعات سے پاکستان کو کیا حاصل ہوتا ہے؟ احمق ترین شخص بھی ایسا کام نہیں کرتا جس سے اس کا مفاد نہ وابستہ ہو۔ افغانستان، ہمسایہ اور برادر اسلامی ملک ہے اسکے امن سے ہمارا امن وابستہ ہے۔ پاکستان کی پالیسی ہمیشہ یہی رہی ہے کہ افغانستان کا دشمن پاکستان کا دشمن ہے۔ جب تک افغان حکمران اور امریکی انتظامیہ حقیقت پسندی سے کام نہیں لیں گے اور دہشت گردی کا الزام بالواسطہ پاکستان کو دیتے رہیں گے افغانستان میں بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیلنے کا مذموم دھندا جاری رہے گا۔ دہشت گردی، افغانستان کے اندر ہو رہی ہے، یہ جو افغان طالبان ہیں اور وہ دہشت گرد، جو پاکستان سے فرار ہو کر افغانستان میں پناہ لئے ہوئے ہیں کیا یہ سب فرشتے ہیں؟ جنہوں نے ہاتھوں میں اسلحہ کی بجائے تسبیحیں پکڑ رکھی ہیں۔ سب کچھ واضح ہونے کے باوجود پاکستان کو موردالزام ٹھہرائے جانے کا مطلب یہ ہے کہ امریکی اورکابل انتظامیہ، دہشت گردی کے خاتمے کے بارے میں سنجیدہ نہیں اور ان کی غیر سنجیدگی اس سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ دہشت گردی اور افغان امور میں بھارت کو مرکزی کردار سونپ رکھا ہے۔