• news
  • image

بدھ ‘ 13؍ جمادی الاوّل‘1439 ھ‘ 31 ؍ جنوری 2018ء

گاندھی عظیم نہیں ذات پات پر یقین رکھنے ولا متعصب شخص تھا: بھارتی نژاد امریکی مصنفہ 

لیکن سچ کہیں تو اب نریندر مودی کو دیکھ کر یہ ماننا پڑتا ہے کہ گاندھی جی ان کے پاسنگ کے بھی نہیں تھے۔ مودی نے تو ذات پات کی سیاست کے نام پر پورے بھارت کو جہنم بنا دیا ہے۔ مذہب مسلک، ذات پات اور چھوت چھات کی بیماری میں گاندھی جی بھی مبتلا تھے۔ اسکا اظہار ان کے رویئے سے کئی موقعوں پر ہوتا رہا ہے مگر عملی طور پر کبھی انہوں نے اسکا کھل کر اظہار نہیں کیا۔ وہ اپنے ارد گرد نچلی ذات کے ہندو، سکھ اور مسلمان رہنمائوں کو بھی ساتھ لے کر چلتے تھے تاکہ دنیا کو دھوکا دے سکیں کہ یہ سب میرے ساتھ ہیں۔ ان کی انہی چال بازیوں سے بہت سے مسلمان، سکھ اور نچلی ذات کے ہندو دھوکا کھا گئے اور گاندھی جی کے آشرم پر دھونی جمائے نظر آتے تھے اور اس فریب کا شکار رہے کہ گاندھی جی عظیم مہاتما ہیں۔ اب غیرملکی اور بھارتی مورخین اور مصنفین جب ان کی شخصیت پر ریسرچ کرتے ہیں تو ان کا اصل چہرہ دیکھ کر حیران ہو جاتے ہیں۔
بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ایک دوربین شخص تھے، انہوں نے بہت پہلے گاندھی کا یہ اصل چہرہ پہچان لیا تھا اور کانگریسی مسلمانوں کو خبردار کیا تھا کہ اس سے بچ کر رہیں مگر اس وقت کے بڑے بڑے قوم پرست رہنما اور علماء گاندھی جی کے سحر میں ایسے جکڑے کہ پھر نکل نہ سکے۔ بنگال کی تقسیم اور پھر قیام پاکستان کی گاندھی جی نے جس طرح مخالفت کی اس کے بعد ان کے انتہا پسند ہندو ہونے میں کوئی شک نہیں رہ گیا تھا۔
٭…٭…٭…٭
بہت ذہین اور برطانیہ میں مقبول ہوں: خواتین کا بہت احترام کرتا ہوں: ٹرمپ
اب یہ خوش فہمی اس امریکی صدر کو ہے جس کیخلاف سب سے زیادہ شکایات خواتین کو ہی سے ہیں۔ امریکی صدور میں وہ پہلے صدر ہیں جن کے خلاف بے شمار خواتین نے بدتمیزی اور دست درازی کی کوشش کرنے کے الزامات لگائے ہیں مگر کیا مجال ہے جو ٹرمپ صاحب کو کوئی فکر ہو۔ لگتا ہے امریکیوں نے ان کو شاید اسی آزاد خیالی کی وجہ سے ہی اپنا صدر منتخب کیا ہے۔ ویسے ٹرمپ جی دعویٰ کرتے پھرتے ہیں کہ وہ بہت ذہین ہیں۔ ان کی ساری ذہانت تو اس وقت سامنے آ گئی تھی جب انہوں نے الیکشن جیتنے کے بعد غیرملکی تارکین وطن پر بے جا قسم کی پابندیاں عائد کر دیں۔ متعدد مسلم ممالک کے شہریوں کے امریکہ داخلے پر پابندی لگا دی۔ ان کے اس دانشمندانہ فیصلے پر جو شور شرابا ہوا اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت کتنے ذہین ہیں۔ اب 11 ممالک پر لگی امیگریشن کی پابندیاں انہیں بڑی شرمندگی کے ساتھ اٹھانا پڑ رہی ہیں۔ ویسے امریکی صدر کی طرف سے برطانیہ میں اپنی مقبولیت کا دعویٰ حیرت کی بات ہے۔ ان کو برطانیہ میں پسندیدگی کا سرٹیفکیٹ کس نے دیا اور کب دیا۔ ان کے خواتین کے بارے میں تمسخرانہ خیالات اور عامیانہ اشاروں اور جملے بازیوں کے بعد کون ان کی اس بات پر یقین کرے گا کہ وہ خواتین میں مقبول ہیں۔ اب ا گر وہ اپنے بارے میں کسی خوش فہمی کا شکار ہیں تو یہ علیحدہ بات ہے ورنہ انکی خواتین میں مقبولیت والی بات پر بے شمار سوالیہ نشان لگے ہوئے ہیں۔ ان کی اس بات پر تو خود انکی تیسری اہلیہ بھی یقین نہیں کریں گی، دوسروں کی تو بات ہی چھوڑیں۔ وہ بھی اسی لئے ان سے ناراض سی ہیں۔
رائو انوار کی گرفتاری کیلئے اسلام آباد اور پشاور میں چھاپے
یہ رائو انوار تو چھلاوا بن گیا ہے۔ ایسے غائب ہوا جیسے گدھے کے سر سے سینگ… اسے زمین نگل گئی یا آسمان نے کھا لیا۔ پولیس اپنی تمام تر توانائیوں کے باوجود اسے ڈھونڈنے میں ناکام ہے۔ عدالتیں آئے روز اسکی حاضری پر زور ڈالتی ہیں مگر وہ ہوں تو سامنے آئیں۔ وہ تو جہاں بھی ہیں خیریت سے ہیں بس فرق صرف اتنا ہے کہ اپنی خیریت کی رسید نہیں دے رہے۔ پتہ انہیں بھی ہے کہ رسید دینے کا مطلب سیدھی سادی گرفتاری ہے۔ آفرین ان پر بھی ہے جن کے پاس موصوف مہمان ہیں۔ لگتا ہے یہ لوگ بھی زبان اور وعدے کے پکے ہیں۔ رائو کو ایسا چھپایا ہے کہ اسکی ہوا تک کسی کو نہیں لگ رہی۔ معاملہ کراچی میں ساڑھے چار سو کے قریب پولیس مقابلوں کا ہے، مخالفین ان سب میں رائو کو ملوث بتا رہے ہیں۔ ایم کیو ایم والے علیحدہ کہتے پھرتے ہیں کہ جب یہ بندہ ہمارے آدمی مار رہا تھا تب تو کوئی نہ بولا اب ایک قبائلی کیلئے اتنا شور کیوں اٹھا ہے! کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ اگر رائو قابو میں آتا ہے تو سارے پولیس مقابلوں کا حساب لیا جائے۔ اب نقیب محسود کیس میں جس طرح ایک قومیت کی مظلومیت کا تاثر پیدا کیا گیا اس کے خطرناک اثرات بھی سامنے آ سکتے ہیں۔ ویسے بھی دہشت گردوں کا تعلق کسی قوم، مسلک اور علاقے سے نہیں ہوتا، نقیب کا معاملہ ہی مختلف ہے، جتنے منہ اتنی باتیں سامنے آتی ہیں۔ رائو اگر بے گناہ ہیں تو سامنے آئیں اور حقائق بیان کریں، ان سب کو سامنے لائیں جن کی وجہ سے انہوں نے یہ غلط کام کئے تاکہ آئندہ کسی کو ماورائے عدالت قتل کی جرات نہ ہو سکے، ویسے بھی بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی!
٭…٭…٭…٭
پی ٹی آئی نے پنجاب حکومت میں کرپشن ڈھونڈنے کیلئے ٹاسک فورس قائم کر دی
اس سے بڑی مخولیا بات اور کیا ہو گی کہ اس فورس کا سربراہ علیم خان کو مقرر کیا گیا ہے۔ چشم بددور… یہ کیسا لاجواب انتخاب ہے عمران خان کا۔ اب فورس میں لاہور کی دیگر نامی گرامی شخصیات کا نام بھی ڈال دینا چاہئے تاکہ سربراہ اور فورس میں شامل ناموں سے ہی اسکی فعالیت کا سب کو اندازہ ہو۔ اس طرح وہ یہ سچ ثابت کر سکتے ہیں کہ لوہے کو لوہا ہی کاٹتا ہے۔ ایسے کافی حضرات مل سکتے ہیں جو مشرف دور سے ہی نامی گرامی چلے آ رہے ہیں آج کل پی ٹی آئی میں بھی ہیں، ان پر پورا لاہور رشک کرتا ہے کہ کیسے یہ کرپشن سے پاک صاف رہتے ہوئے ترقیاں کرتے گئے۔ اب دیکھنا ہے علیم خان صاحب کس طرح اپنی نئی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوتے ہیں۔ وہ کافی تجربہ کار ہیں وہ آسانی سے لینڈ مافیا اور جعلی ہائوسنگ سوسائٹیوں والے معاملات پر ہاتھ ڈال سکتے ہیں۔ اب معلوم نہیں صوبہ خیبر پی کے میں اربوں کی کرپشن کے افسانوں کی تحقیقات کیلئے بھی خان صاحب کونسی فورس بناتے ہیں تو اسکی سربراہی کس کو ملتی ہے کیونکہ وہاں بھی کئی ایسی شخصیات موجود ہیں جن کے بارے میں بہت سے لوگ ’’دامن اگر نچوڑیں فرشتے وضو کریں‘‘ والی بات کہتے ہیں۔ فی الحال دیکھتے ہیں پنجاب میں تحقیقات کے کیا نتائج سامنے آتے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ جوابی کارروائی میں وہ لوگ جو شکار کرنے آئے تھے خود شکار ہو جائیں کیونکہ شیشے کے گھر میں بیٹھنے والے دوسروں پر پتھر مارنے کی حماقت نہیں کرتے!

epaper

ای پیپر-دی نیشن