سینٹ الیکشن کا شیڈول جاری ،رضا ربانی فارغ؟
اسلام آباد ۔۔۔ قومی افق نواز رضا
بالآخر سینیٹ کی خالی ہونے والی 52نشستوں کے انتخاب کے لئے طبل بج گیا ، الیکشن کمشن آف پاکستان نے انتخابی شیڈول کا اعلان کر دیا ہے ۔3مارچ 2018ء کو انتخابی عمل مکمل ہو جائے گا 12مارچ 2018ء کو نئی سینیٹ وجود میں آجائے گی۔ سابق وزیراعظم محمد نواز شرف کو ’’نا اہل ‘‘ قرار دئیے جانے کے بعد جہاں عام انتخابات کے انعقاد کے بارے میں غیر یقینی صورت حال پائی جاتی تھی وہاں یہ بات بھی کہی جا رہی تھی کہ سینیٹ کا انتخابی عمل رکوانے کے لئے دو تین صوبائی اسمبلیاں تحلیل کروا دی جائیں گی۔ بلوچستان میںراتوں رات پورے’’ اصطبل‘‘کی خریداری نے ان شکوک و شبہات میں مزید اضافہ کر دیا تھا ۔جہاں پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرینز کے صدر آصف علی زرداری کی معاونت سے ’’خفیہ ‘‘ ہاتھوں نے کام کر دکھایا ۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان ثنا اللہ زہری کے اقتدار سے ہٹائے جانے سے مسلم لیگ کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا۔ آصف علی زرداری جو سیاسی جوڑ توڑ کے خود ساختہ ‘‘ ماہر ہیں ان کے قریبی حلقوں نے دعویٰ کیا ہے بلوچستان اسمبلی جس میں پیپلز پارٹی کا ایک رکن نہیں 8 نشستیں حاصل کر لے گی ۔بلوچستان اسمبلی کے ارکان اسمبلی سے رابطوں کے لئے سینیٹر ڈاکٹر قیوم سومرو کوئٹہ میں بیٹھ گئے ہیں ۔ دوسری طرف آصف علی زرداری نے پنجاب اسمبلی جہاں اس کے 8ارکان ہیں سے بھی دو تین نشستیں حاصل کرنے کا ٹارگٹ مقرر کیا ہے۔ پنجاب اسمبلی جہاں جنرل نشست کے لئے 53 ووٹوں کی ضرورت پڑے گی وہاں سے دو نشستیں رکھنے والی جماعت کا دعوی ٰ سیاسی حلقوں کے لئے حیران کن ہے۔ خیبر پختونخواہ اسمبلی کے ارکان ہارس ٹریڈنگ میں خاصے بدنام ہیں وہاں پیپلز پارٹی کے پاس اتنے ارکان بھی نہیں لیکن پیپلز پارٹی کے پی کے سے بھی تین چار نشستیں نکالنے کے دعوے کر رہی ہے۔ سندھ اسمبلی جہاں پیپلز پارٹی کی اکثریت ہے ،اس میں پیپلز پارٹی اپنی پوزیشن برقرار رکھے گی ۔ممکن ہے کہ وہ ایم کیو ایم کے اندر انتشار کی کیفیت سے فائدہ اٹھالے اور ایک آدھ مزید نشست حاصل کر لے ۔ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت یہ سارا کھیل سینیٹ میں مسلم لیگ(ن) کو چیئرمین سینیٹ کی نشست حاصل کرنے سے روکنے کے لئے کر رہی ہے۔ وہ چاہتی کہ مسلم لیگ(ن) کسی صورت میں واحد اکثریتی جماعت نہ بن پائے ۔ آصف علی زرداری نے تین سال قبل مجبوراً میاں رضا ربانی کو چیئرمین سینیٹ بنا یا تھا جب کہ میاں رضا ربانی نے پچھلے تین سال کے دوران آصف علی زرداری کی بنائی ہوئی پالیسی پر عمل درآمد کی بجائے جمہوریت کا پرچم سربلند کئے رکھا ۔انہوں نے سینیٹ میں تاریخی رُولنگ دیں ۔ پارلیمنٹ ہائوس میں ’’دستور گلی‘‘ اور عجائب گھر قائم کیا ۔ پارلیمنٹ کو جمہوریت کے لئے مضبوط قلعہ بنایا لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے کہ آصف علی زرداری میاں رضا ربانی کو پارٹی ٹکٹ نہیں دیں گے کیونکہ وہ اپنی بہن فریال تالپور کو چیئرمین سینیٹ بنانے کے لئے جو توڑ کر رہے ہیں۔ وہ میاں رضا ربانی کو اس لئے بھی سینیٹ میں آنے سے روکیں گے اگر وہ سینیٹر منتخب ہو گئے تو اپوزیشن جماعتیں اعلی کار کردگی پر انہیں چیئرمین سینیٹ منتخب کروا سکتی ہیں۔ سردست اس بارے میں کوئی حتمی رائے نہیں دی جا سکتی تاہم کاغذات نامزدگی داخل کرائے جانے سے صورت حال واضح ہو جائے گی۔ پیپلز پارٹی اپنے ارکان سندھ اسمبلی کو ان کے کاغذات نامزدگی پر دستخط کرنے کی اجازت دیتی بھی ہے کہ نہیں ۔ پیپلز پارٹی کے 18سینیٹر ریٹائر ہو رہے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اپنی اکثریت برقرار رکھنے کے لئے کیا گل کھلاتی ہے۔ اس سلسلے میں 3 مارچ 2018ء کو صورت حال واضح ہو جائے گی۔ بہرحال ایک بات واضح ہے چاروں صوبوں کی صوبائی اسمبلیوں میں ارکان کی منڈیاں لگیں گی۔ سب سے بڑی منڈی بلوچستان ،کے پی کے اور فاٹا میں لگے گی جہاں ارکان کی خرید و فروخت کو معیوب تصور نہیں کیا جاتا ۔ صوبائی اسمبلی کے ارکان اپنے انتخابی اخراجات پورے کرنے کے لئے اپنا سودا لگا سکتے ہیں ۔بہرحا ل پاکستان مسلم لیگ (ن) نے آصف علی زرداری کو چیلنج دیاہے کہ وہ ہمارے ارکان توڑ کر دکھائیں اس سلسلے میں مسلم لیگ (ن) کا اعلیٰ سطح کا اجلاس اسلام آباد میں میاں نواز شریف کی زیر صدارت منعقدہو ا جس میں مسلم لیگ ن نے سابق صدر آصف علی زرداری کی جانب سے سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کو ناکام بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس مقصد کے لئے مسلم لیگی ارکان صوبائی اسمبلی کے لئے ’’نگران کمیٹیاں ‘‘ قائم کی جارہی ہیں۔ تاکہ ارکان کی خریدو فروخت کو ناکام بنایا جا سکے ۔مسلم لیگ (ن) کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات مشاہد اللہ خان نے آصف علی زرداری کا پارٹی کیلئے چیئرمین سینیٹ کا عہدہ حاصل کرنے کے لئے بھاگ دوڑ کو ’’ دیوانہ کا خواب قرار دیا ہے ‘‘ اور کہا سینیٹ انتخابات اور چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کا جب میدان لگے گا آصف علی زرداری کو پتہ لگ جائے گا۔پوری دنیا جانتی ہے کہ بلوچستان میں پیپلزپارٹی کا ایک رکن بھی نہیں ہے خیبرپختونخوا میںیہ جس انجام سے دوچار ہوچکی ہے سب آگاہ ہیں ۔ آصف علی زرداری نے جتنے نقاب پہن لیں انہیں مکمل طو ر پر بے نقاب کیا جائے گا‘‘۔
پاکستان مسلم لیگ(ن) کی جانب سے بلا شبہ
یہ اقدامات توکئے جا رہے ہیں لیکن مسلم لیگ(ن) نے ابھی تک اپنا ’’گھر ‘‘ درست نہیں کیا ۔ سابق وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید کی جانب سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما چوہدری نثار علی خان کے خلاف توہین آمیز بیانات کا پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے نوٹس نہ لئے جانے سے صورت حال خراب ہوئی ہے۔ جب میاں نواز شریف سے اس بارے میں سوال کیا جائے تو وہ ’’نو کمنٹ‘‘ کہہ کر جواب دینے سے گریز کرتے ہیں جب کہ پچھلے ایک ماہ کے دوران اسلام آباد اور لاہور میں مسلم لیگ (ن) کے اعلیٰ سطح کے اجلاسوں چوہدری نثار علی خان کو مدعو نہیں کیا جا رہا ۔ اس طرح کی صورت حال میاں نواز شریف کے اقتدار کے آخری دنوں میں پیدا ہوئی تھی لیکن اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان تعلقات معمول پر آ گئے تھے ۔افسوس اس وقت میاں نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان پچھلے ایک ماہ سے زائدعرصے سے ’’مشاورتی ‘‘ عمل کیلئے ایک دوسرے سے رابطہ نہیں کر سکے ۔ میاں نواز شریف کی منظوری سے اجلاس کے مدعوئین کی تیار کی گئی فہرست میں سب کے نام شامل ہوتے ہیں لیکن چوہدری نثار علی خان کام شامل نہیں ہوتا یہ صورت حال دانستہ پیدا کی گئی ہے اسلام آباد میں ہونے والے مسلم لیگی زعما ء کے اجلاس میں چوہدری نثار علی خان کو مدعو کیا گیا ہے اور نہ ہی کسی جانب اس تنازعہ کو ختم کرنے کے لئے شعوری طور کوشش کی گئی ہے۔ بلکہ اس تنازعہ کے اہم رکن نے راقم کو بالواسطہ پیغام بھجوایا ہے کہ مفاہمت اور راضی نامہ کی کوئی کوشش نہیں کی جارہی چونکہ وہ آج کل پارٹی کے ’’پردہان منتری ‘‘ بنے ہوئے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے 15،16 چیدہ چیدہ مسلم لیگی رہنمائوں کے اجلاس میں کسی کو اس بات کی جرات نہیں ہوئی کہ ’’چوہدری نثار علی خان‘‘ کہاں ہیں شاید میاں نواز شریف اس معاملہ کو پارٹی کے کسی فورم پر لانا ہی نہیں چاہتے اور نہ ہی چوہدری نثار علی خان بے تو قیر ی کی سیاست کرنا چاہتے ہیں یہ بات برملا کہی جا رہی ہے کہ چوہدری نثار علی خان کو مخدوم جاوید ہاشمی کی طرح دھکے مار کر پارٹی سے نکانے کی کوشش کی جا رہی ہے اگر یہ بات درست ہے تو پھر یہ مسلم لیگ کے لئے تباہ کن ہو گا ۔اس وقت میاں نواز شریف اپنی سیاسی زندگی کی مشکل ترین اور اننگز کھیل رہے ہیں انہیں چوہدری نثار علی خان جیسے جاںنثار ساتھیوں کی ضروت ہے ، جس کا ہم دیانت داری سے مشورہ ہی دے سکتے ہیں۔فیصلہ کرنا میاں نواز شریف کا کام ہے۔