پنجاب یونیورسٹی میں طلبہ کی منفی سیاست
بلوچستان کا دارالحکومت کوئٹہ انگریزوں کے لاٹ صاب کے دور سے لیکر عرصہ دراز 1970ء تک حقیقت میں چھوٹا لندن تھا۔ صاف ستھری سڑکیں بازار گلی کوچے جو سدابہار اور دوسرے درختوں سے ڈھکی ہوتی تھیں۔ موجودہ زرعون روڈ جسے لٹن روڈ کہتے تھے ٹھنڈی سڑک کے طور پر مشہور تھی جس کے کنارے لگے چنار اور سرو و شمشاد کے درخت عجب بہار دکھاتے تھے۔ اس عرصہ میں یہاں ٹائون ہال کے اردگرد پھیلے باغات کے قطعے اور میکانگی روڈ پر مالی باغ اور فٹ بال گرائونڈ اپنے سبزے کی وجہ سے آنکھوں کو تراوٹ بخشتے تھے۔ چھائونی کی تو بات ہی کچھ اور تھی اس کی سڑکوں کے کنارے یا درمیان میں سبز گھاس کے قطعے اپنی بہار دکھاتے تھے جابجا مختلف اقسام کے درخت ماحول کو ٹھنڈا رکھتے تھے۔ یہ صاف ستھرا علاقہ تھا جہاں سچ کہتے ہیں کتوں اور کالے ہندوستانیوں کا داخلہ ممنوع تھا۔ میرے بچپن کا کوئٹہ 1966ء سے میرے ذہن میں آباد ہونا شروع ہوا۔ مگر یہ اس کی دھندلی سی تصویر ہے جو شدید سردی برف، بادام اور خوبانی کے گلابی اور سفید پھولوں کے ساتھ ساتھ گھروں میں جلائے جانے والے سٹوپ تک محدود ہے یا چھوٹے اسلامیہ سکول تک جہاں میں نے داخلہ لیا۔ کیا خوبصورت لکڑی کی چوکور عمارت تھی۔ انگریزوں نے 1935ء کے زلزلے کے بعد لکڑی کے ڈھانچے والے تکونے مکانات جنہیں ڈی ٹائپ کہا جاتا تھا کو رواج دیا تاکہ زلزلہ کی صورت میں زیادہ جانی نقصان نہ ہو۔ کوئٹہ شہر، چھائونی، کولپور، مچھ تک پھیلے اس طرز تعمیر کے مکانات آج بھی کہیں کہیں نظر آتے ہیں۔ جو دوسری طرف کچلاک تا زیارت میں بھی پھیلے ہوئے تھے۔ 1976ء تک میٹرک کی تعلیم اسلامیہ ہائی سکول میں پوری کی جو مکمل جدید سیمنٹ کی بنی عمارت تھی۔ اس دور میں ان تعلیمی اداروں کے اساتذہ عام طور پر پنجابی ہوتے تھے نہایت سخت اور تعلیم سے محبت کرنے والے تھے۔ طلبہ کی تربیت پر ان کی خاص نظر ہوتی تھی۔ پھر 1977ء میں گورنمنٹ کالج سریاب روڈ کوئٹہ سے تعلیمی سفر کا آغاز کیا تو وہاں کا نظام ہی کچھ اور تھا۔ سکول کی بندش ختم آزادی کا احساس طلبہ میں کچھ زیادہ ہی تھا اس لئے وہ تعلیم سے کافی دور ہونے لگے۔ پڑھانے والے مقامی افراد تھے یہاں پر طلبہ مقامی سیاست اور گروہ بندی میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے لہٰذا اساتذہ سے وہی فیض پا سکے جو تعلیم سے دلچسپی رکھتے تھے۔ اس سارے دور کا تذکرہ اس لئے یاد آیا کہ گزشتہ دنوں پنجاب یونیورسٹی میں پختون اور بلوچ طلبہ اور اسلامی جمعیت طلبہ کے درمیان ہونے والے تصادم نے بہت سی پرانی یادیں تازہ کر دیں۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے ہم مخالف تھے۔ ہم ٹھہرے این ایس ایف کے غنڈے اور اسلامی جمعیت طلبہ والے غنڈہ گردی کے باوجود ٹھہرے صالحین جو اکثر ہم پر حملہ آور ہوتے اور ہمیں سبق سکھانے کی کوشش کرتے مگر ہم نہیں سدھرے۔ بہرحال پنجاب یونیورسٹی میں تنائو کا یہ سلسلہ گزشتہ سال سے چلا آ رہا ہے جب پختون بلوچ طلبہ اتحاد کے ایک ثقافتی پروگرام پر جمعیت والوں نے حملہ کیا۔ اس کے بعد چل سو چل۔ اب ایک طرف پختون اور بلوچ طلبہ تھے جنہیں کچھ زیادہ ہی پنجاب کی کھلی آب و ہوا راس آ گئی ہے۔ یہاں ان کے پشتبان بھی کافی ہیں کیونکہ قومیت کا عنصر آج تک ہماری سیاست میں طلبہ کی سیاست ہو یا عوامی کافی گہرا اثر رکھتا ہے لہٰذا وہ بھی کچھ زیادہ ہتھ چھٹ ہو گئے ہیں۔ ویسے بھی مفت تعلیم وظائف اور مراعاتیں طلبہ کو خراب کرتی ہیں۔ دوسری طرف جمعیت والے تھے جو ابھی تک پنجاب یونیورسٹی کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ بھٹو دور ضیا کے دور سے لیکر 2000 تک تو انہی کی جاگیر تھی مگر بعدازاں مسلم لیگ کے دور میں ایم ایس ایف اور پھر انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن اور ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس نے جو لبرل عناصر پر مشتمل ہے نے مل کر آہستہ آہستہ لاہور کے باقی کالجوں کی طرح یہاں بھی جمعیت کا سحر توڑ دیا ہے۔ مگر جمعیت یہ حقیقت ماننے کو تیار نہیں ہوتی اب پختون اور بلوچ طلبہ نے آزاد لبرل سٹوڈنٹس کے ساتھ مل کر اپنی طاقت کا غنڈہ گردی کی حد تک استعمال کرکے جمعیت کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔مگر ابھی تک اس کے ڈنڈا بردارطلبہ و حامی پنجاب یونیورسٹی میں کسی بھی جگہ حملہ کرنے سے نہیں چوکتے۔تاہم جو بات غلط ہے وہ لسانی اور صوبائیت کے نام کی سیاست ہے جس سے طلبہ کے اتحاد کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ بلوچ اور پٹھان یہاں مہمان طلبہ کے طور پر آتے ہیں۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ وہ تعلیم سے زیادہ غیر نصابی معاملات میں مصروف رہتے ہیں۔ دھونس دھاندلی بات بے بات پر دنگا مارپیٹ کرنے سے معاملات حل نہیں ہوتے چنانچہ گزشتہ دنوں ان کے اور جمعیت کے درمیان جب گھمسان کا رن پڑا تو اس کا غلط نتیجہ سامنے آیا۔ پولیس نے پکڑ دھکڑ کی ہوسٹلوں پر چھاپے مارے دونوں اطراف کے بلوچ پختون اور اسلامی جمعیت کے سینکڑوں افراد گرفتار ہوئے۔ بعدازاں وزیر اعلیٰ پنجاب نے صرف توڑ پھوڑ میں ملوث افراد کے علاوہ باقی سب کی رہائی کا حکم دیا تو سب چھوڑ دئیے گئے اس پر بھی سیاست یہ کی جا رہی ہے سوشل میڈیا پر کوئٹہ کے ایک پشتون وکیل نے جا کر وہاں ان کی ضمانت کرائی حالانکہ یہ سب افسانہ ہے یہ طلبہ پہلے ہی رہا ہو چکے تھے جب وہ وکیل صاحب یہاں آئے تو انہی رہا شدہ طلبہ کے ساتھ مل کر انہوں نے اپنی آمد کیش کرائی۔ اوپر سے بلوچستان کے وزیر داخلہ جن کی آج کل خفیہ ہاتھوں کی وجہ سے گڈی چڑھی ہے انہوں نے بھی سیاست کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ ایسے معاملات میں سیاست نہیں عقل کی ضرورت ہوتی ہے طلبہ کے مستقبل کا سوال ہوتا ہے۔ کیا ایسی کوئی لڑائی پشاور یا کوئٹہ یونیورسٹی ہوئی ہوتی اور کسی پنجابی طالب علم کا گروپ ملوث ہوتا تو اس کے ساتھ خود پہلے طلبہ ہی آہنی ہاتھوں سے نمٹتے بعد میں یا یونیورسٹی حکام یا خیبر پی کے اور بلوچستان حکومت کیا ان سے کوئی رعایت کرتی۔ پنجاب حکومت تو بلوچستان میں مارے جانے والے بے گناہ پنجابیوں کی موت پر بھی اس ڈر سے بات نہیں کرتی کہ کہیں پنجابی ازم پھیلانے کا الزام نہ لگ جائے۔