نوجوانوں کا قتل عام‘ ذرا غور تو کریں!!
محب وطن‘ دیانتدار اور سنجیدہ پاکستانی بار بار اس حقیقت کی نشاندہی کررہے ہیں کہ تین پاکستان دشمن ملکوں کی خفیہ تنظیمیں را‘ موساد اور سی آئی اے اپنے اکٹھ کے ذریعے ملک خداداد کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں اور اس مقصد کے حصول کی خاطر مشترکہ سازشی کارروائیاں بھی کررہی ہیں۔ اس کا ثبوت ان تینوں ممالک کی تکون کے سربراہان کی مشترکہ سیاسی گٹھ جوڑ اور اشتراک ہے‘ جسکے بہت سے اہداف پاکستان کیخلاف ہیں۔ بیت المقدس سے متعلق امریکی فیصلہ کیا ہے؟ جس کی پوری دنیا کے جمہوری ممالک اور ریاستوں نے زبردست مخالفت کی اور پھر اسرائیلی سربراہ مملکت کا دورہ بھارت کس زمرے میں رکھا جائے؟ مزید برآں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے متوقع دورہ اسرائیل کے مقاصد کیا ہیں؟ واقفان حال اور وقت کی نبضیں ٹٹولنے والے پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ متذکرہ بالا تین ممالک کی سازشی تکون پاکستان دشمن عزائم کے تحت سی پیک کے عظیم منصوبے کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہے‘ اس ناپاک جسارت کی تہہ میں چین جیسی عظیم طاقت کو لگام دینا بھی ایک مذموم مقصد ہے‘ جو پاکستان کے ساتھ دوستی اور اس کی ترقی کے مثبت عزائم رکھتی ہے۔ اب ذرا پاکستان بھر میں قتل وغارت گری کے سنگین جرائم پرایک اچکتی ہوئی نگاہ ڈالنے سے ایک سنسنی خیز حقیقت واضح ہوتی ہے۔ پاکستان کے کھلونوں سے کھیلنے والے معصوم بچوں سمیت خوبصورت ترین نوجوانوں کو ایک انجانی عددی ترتیب کے ساتھ تہہ تیغ کیا جارہا ہے‘ وارداتیں ایسی سنسنی خیزی اور خوف وہراس کے ماحول میں ہورہی ہیں کہ ہر درد دل رکھنے والا پاکستانی تڑپ کر رہ جاتا ہے۔بادی النظر میں تو یوں لگتا ہے جیسے ہماری نوعمر اور نوجوان نسل کو طے شدہ سازش کے تحت ختم کرنے کی خدانخواستہ سازش ہورہی ہے۔ ہمارے ازلی دشمن اور عمومی دشمنوں کومعلوم ہے نوجوان نسل ہی ہمارا مستقبل اور اثاثہ ہے‘ جو سرفروش ہے اور جانباز بھی‘ اس میں راشد منہاس شہید اور اسفند یار بخاری شہید جیسے سپوت موجود ہیں‘ جو پاکستان کی عزت پر کبھی کوئی حرف نہیں آنے دیتے۔ خاکم بدہن ہماری کمر توڑنے کیلئے دشمنوں کے پاس یہی بڑا ہتھیار ہے۔ سو ہماری ایجنسیوں ‘ اداروں اور عدلیہ سمیت عوام الناس کو بھی صورت حالات پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے‘ ان تمام قرائن پر بھی جن کے ڈانڈے ملک دشمن عناصر کے ساتھ ملتے ہیں۔ اسکے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے بچوں اور نوجوان نسل کو ہر ابتلا سے بچانے کیلئے قانون سازی سمیت تمام اقدامات عمل میں لانے کی ضرورت ہے‘ جو انکے حقیقی تحفظ کیلئے ناگزیر ہیں۔ مدرسوں‘ سکولوں ‘ کالجوں اور جامعات میں بچوں اور نوجوانوں کو ناپسندیدہ افراد اور نامساعد حالات سے نبرد آزما ہونے کے قابل بنانے کیلئے کونسلنگ کی اشد ضرورت ہے۔ نیز ان کے نصاب میں تمام ضروری معلومات وہدایات رکھنا بھی ناگزیر ہے ۔ یہ امر بھی ضروری ہے کہ انہیں پاکستان کے ازلی اور عمومی دشمنوں کے عزائم سے باخبر رکھا جائے‘ علاوہ ازیں ان کو اپنے بچاؤ کی ٹریننگ بھی دینا ازبس ناگزیر ہے۔
ہر محب وطن اور دردمند پاکستانی کو سمجھ لینا چاہیے کہ اس وقت ہم اپنی تاریخ کے ایک نازک موڑ پر کھڑے ہیں‘ جہاں ایک طرف قدرت کی طرف سے سی پیک کی صورت میں ایک وسیع المقاصد ترقیاتی منصوبہ ہماری قدم بوسی کے لیے تیار ہے‘ دوسری جانب اس عظیم ترقیاتی منصوبے کو سبوتاژ کرنے کیلئے ہماری دشمن اور مخالف قوتیں علاقائی اور داخلی سطح پر ایک سازش کے تحت اکٹھی ہو رہی ہیں‘ وہ نہیں چاہتیں پاکستان ترقی کرے۔ ان سازشی اور دشمن قوتوں کو پاکستان کی ترقی وکامرانی سے ڈر لگتا ہے‘ کیونکہ اس ملک خداداد میں عظیم تر بننے کی تمام ترصلاحتیں اور جوہر موجود ہیں۔ یوں بھی پاکستان دشمنوں کو پتہ ہے علامہ اقبال اور قائداعظم سمیت ہمارے تمام مصلحین کے فرمودات ونظریات کے تحت یہ قوم تاریخ کے کسی دوراہے پر ضرور بر ضرور عظیم تر بنے گی۔ پاکستان کے وجود کو دل سے قبول نہ کرنے والی قوتوں کے تھنک ٹینک اور سازشی دانشور اس امر پر بارہا غور وخوض کرنے کے بعد اسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اول تو اس ملک کی حقیقی ترقی وکامرانی کو روکا جائے اور اسے معاشی واقتصادی طور پر دوسروں کا دست نگر رکھا جائے اور دوم اس کی نوجوان نسل کو خوف وہراس میں مبتلا کرکے خاکم بدہن اپاہج بنا دیا جائے تاکہ اس ملک وقوم کی اُمیدوں کے راستے ہی مسدود ہو جائیں۔ ان کھلے حقائق کی تہہ میں دیکھیں تو القاعدہ سے لیکر طالبان اور داعش تک کی تمام تنظیمیں امریکی اشیر باد سے ہی پنپ کر فعال ہوئیں اور ان گنت پاکستانیوں کی برین واشنگ کرکے انہیں متذکرہ تنظیموں میں شامل کیا گیا۔ ان عزائم میں امریکہ کو درپردہ بھارت کی معاونت بھی حاصل رہی‘ کیونکہ بھارتی نیتاؤں کے پاس مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک آزادی کو کاؤنٹر کرنے کیلئے ایک ہی ہتھیار ہے‘ یعنی پاکستان میں بدامنی اور لاقانونیت کی یلغار کر دی جائے۔ ان کا خیال ہے خدانخواستہ پاکستان کو اپنی پڑ جائے تو وہ مقبوضہ کشمیر سے اپنی توجہ ہٹا لے گا۔ اس مذموم مقصد کے تحت بھارت نے مدت تک کراچی کو اپنی کارروائیوں کا ہدف بنائے رکھا‘ پھر جب وہاں بے نقاب ہوا تو امریکی گھوڑے پر سوار ہوکر افغانستان جا بیٹھا۔ یہ بات بڑے پتے کی ہے آج بھی افغانستان میں دہشتگردی کی جو وارداتیں ہورہی ہیں‘ بھارت یہ خود کرواتا ہے اور پھر افغان کٹھ پتلی حکمرانوں سے اس کا الزام پاکستان پر لگوا دیتا ہے۔ یہ سب کچھ امریکہ کی ناک کے نیچے ہوتا ہے اور اب تو قرائن بتاتے ہیں کہ اسرائیلی ایجنسی موساد بھی درپردہ اس سازش میں شریک ہوگئی ہے۔مدعا صرف پاکستان کو علاقائی طورپر پچھاڑنا ہے‘ بھارت بلوچستان میں سابقہ مشرقی پاکستان ایسے حالات پیدا کرنے کیلئے کوشاں ہے اوراسے اس مقصد کیلئے امریکہ اور اسرائیل کی پشت بانی بھی حاصل ہے۔ سقوط مشرقی پاکستان کا سانحہ بھی اس نے پاکستان کی مقبوضہ کشمیر سے توجہ ہٹانے کیلئے رونما کرایا تھا‘ لیکن اب اسے سمجھ آچکی ہے کہ بلوچستان میں حالات سابقہ مشرقی پاکستان والے نہیں ‘ لیکن وہ اپنے منفی عزائم کے تحت امریکی شہ پر تا دیر افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف ریشہ دوانیاں جاری رکھنا چاہتا ہے۔ یہ قدرت کے کام ہیں مودی اور ٹرمپ دونوں ایک دوسرے کی عملی تصویر ہیں۔ کندہم جنس باہم جنس پرواز ‘ طے شدہ بات ہے کہ دو اچھی اور صالح طاقتوں میں اکٹھ ہوتا ہے ‘ یا پھر دو منفی قوتیں باہم گٹھ جوڑ کرلیتی ہیں۔ افغانستان کی تازہ ترین صورت حالات سے یوں لگتا ہے جیسے وہاں امریک‘ بھارت اور اسرائیل سر جوڑ کر بیٹھے اور پاکستان کیخلاف اقدامات پر غور کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں سب سے افسوسناک پہلو افغان انتظامیہ کا بھی وہاں موجود طاقتوں کی شہ پر پاکستان دشمن ہو جانا ہے۔ افغان حکمران اس وقت اپنے منہ میں بھارت اور امریکہ کی زبان رکھے بیٹھے ہیں‘ ان کا بار بار بھارت کے دورے پر جانا اور یہ کہنا کہ تمام ابتر صورتحالات کا ذمہ دار پاکستان ہے۔ سازشی گٹھ جوڑ کا ہی شاخسانہ ہے۔ دل چاہتا ہے ہر پاکستانی کو احتیاط وتدبر کی مثال بنا دیا جائے۔ ملک بھر میں کوئی غدار وطن نہ رہے جو بیرون ملک پاکستان دشمنوں کا حاشیہ بردار بن سکے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے ملک کے داخلی ماحول میں جتنی آسودگی اور امن ہوگا‘ اتنا ہی ہم بیرونی دشمنوں کو مات دے سکیں گے۔ ملک کے اندر میڈیا‘ سوشل میڈیا اور عدلیہ سمیت تمام اداروں کو چاہیے وہ سیاسی جماعتوں کو دست وگریبان ہونے سے بچائیں‘ ایک دوسرے کو غدار اور ملک دشمن قرار نہ دیں‘ احتساب اور انصاف کا عمل عدلیہ کی کارگزاری پر چھوڑیں‘ مسلح افواج کی کارکردگی پر کسی سیاسی جماعت یا دھڑے کو اختلاف نہیں‘ اس لیے کیا ہی اچھا ہو ہم اپنی سیاسی جماعتوں کو بیرون ملک دشمنوں کے خلاف بھی اتحاد ویکجہتی کے ساتھ صف آراء کرسکیں ایسا ہو تو یہ پاکستان کے وسیع تر مفاد میں ایک دور رس قدم ہوگا ‘ خدا کرے!