پاکستان میں سکھوں کے تاریخی مقامات کا تحفظ
حضرت قائداعظم محمد علی جناح کی باکمال قیادت میں برصغیر کے مسلمان ’’دو قومی نظریہ‘‘ کی بنیاد پر برطانوی ہند کی تقسیم کے قریب پہنچے تو بابائے قوم نے اپنی مستقبل میں دور تک دیکھنے کی خداداد صلاحیت کی بنا پر سکھوں کی قیادت کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ بھی ہندوؤں کے ساتھ اپنا مستقبل تاریک کرنے کی بجائے پاکستان کے ساتھ شامل ہو جائیں یا پھر ہندوؤں سے الگ مذہبی شناخت رکھنے کی بنا پر مسلمانوں کی طرح اپنے لئے الگ ریاست کے حصول کی کوشش کریں لیکن مکار و چالاک ہندوؤں کے بہکاوے میں آ کر سکھوں نے حضرت قائداعظم کے مطالبے پر توجہ دینے کی بجائے اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کا مستقبل ہندوؤں کے ساتھ وابستہ کرتے ہوئے اپنے لئے ’’اقلیت‘‘ کی حیثیت تسلیم کر لی۔ تاریخی کتب کے مطابق ہندو سکھ قیادت کے ذہن میں یہ بات بٹھانے میں کامیاب ہو گئے کہ وہ مذہبی طور پر مسلمان نہیں ہندوؤں کے قریب ہیں۔ اس سلسلے میں سکھوں کی کھتری ذات کے ہندوؤں میں شادیوں اور رشتے داریوں کے اعداد و شمار پیش کرنے کے علاوہ انہیں باور کرایا گیا کہ امبالہ سے پشاور تک برطانوی ہند میں پھیلے ہوئے سکھوں کے پاس کوئی بھی ایسا علاقہ نہیں جہاں وہ اکثریت میں ہونے کی بنا پر اپنے لئے الگ ریاست کا مطالبہ کریں۔ سوائے پٹیالہ نابھا اور فرید کوٹ کی چھوٹی ریاستوں کے جہاں سکھ راجاؤں کی حاکمیت تھی۔ ہندوؤں کے دوست ماؤنٹ بیٹن نے بھی سکھوں کو سمجھایا کہ سکھ راجاؤں کی ان تین ریاستوں میں اول تو سکھوں کی تعداد صرف 30 فیصد ہے۔ علاوہ ازیں اگر انہیں ملا کر سکھوں کے لئے الگ ملک کے مسئلے پر غور کیا بھی جائے تو بھی ایسی ریاست کا زیادہ عرصے تک اپنا وجود برقرار رکھنا ممکن نہیں ہو گا جس کے ایک طرف ملیر کوٹلہ کی مسلم ریاست ہو تو دوسری طرف درمیان میں کپور تھلہ جیسی مسیحی راجا کی ریاست ہو۔ سکھوں کو تقسیم ہند کے لئے جغرافیائی حدود کے تعین سے پہلے ہی الگ ریاست کے تصور سے دور کر دیا تھا۔ برطانوی ہند کو ٹکڑے کرنے کا وقت آیا تو سکھوں کے پاس الحاق کے لئے پاکستان اور انڈیا میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کے علاوہ تیسرا کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔ انڈیا میں شمولیت کے لئے جواہر لال نہرو اور سردار پٹیل نے سکھوں کو برابری کے حقوق دینے کی یقین دہانی کرائی۔ جھانسے میں آ کر سکھوں نے انڈیا کا حصہ قبول کیا تو اس کا تعین تقسیم کے وقت دوران ہجرت تاریخ کے بدترین قتل عام کی صورت میں سامنے آیا۔ پاکستان ہجرت کرنے والے مسلمانوں کو جس طرح سے گزرنا پڑا ان اقعات کو پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد انڈیا میں ہندوؤں نے سکھوں کے ساتھ جس طرح کا بدترین سلوک کیا تو جلد ہی انہیں سمجھ آ گئی کہ ان کے ساتھ دھوکہ ہو گیا۔ برابری کے حقوق کیا ملنے تھے ہندو حکمران انہیں اقلیت کے حقوق دینے کو بھی تیار نہیں تھے۔ ان کے لئے سرکاری ملازمتوں کے حصول میں رکاوٹیں پیدا کرنے کے علاوہ دیگر معاملات میں بھی حق تلفی کی جانے لگی تو ان میں حضرت قائداعظم کا الحاق کے لئے دیا گیا برادرانہ مشورہ تسلیم نہ کرنے کا احساس ایک بڑی غلطی کے طور پر اجاگر ہوا جس نے ان کے ذہنوں میں ’’خالصتان‘‘ کے نام سے اپنے لئے آزاد ریاست کا حصول اجاگر ہوا تو وہ اپنے اس تصور کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے سرگرم ہو گئے۔ بہت منظم انداز سے انہوں نے آزادی کی یہ تحریک آگے بڑھائی جسے دبانے اور سکھوں کے ذہن سے ’’آزادی‘‘ کا خواب کھرچنے کے لئے بھارتی وزیراعظم اندھرا گاندھی نے جون 1964 میں امرتسر میں سکھوں کی مرکزی عبادت گاہ ’’گولڈن ٹیمپل‘‘ پ فوج کشی کا حکم صادر کر دیا۔ پوری دنیا میں سکھ ایسے کسی اقدام کا تصور ہی نہیں کر سکتے تھے کہ ان کے ملک کی اپنی فوج ان کے لئے جان سے بھی زیادہ قیمتی اور مقدس ترین مقام پر یوں ٹینکوں اور توپوں کے ساتھ چڑھ دوڑے گی۔ ’’گولڈن ٹیمپل‘‘ کا نتیجہ چند ماہ بعد اپنے سکھ سکیورٹی گارڈ کے ہاتھوں اندرا گاندھی کے قتل کی صورت میں نکلا تو اس کا جواب بھارت میں برسر اقتدار کانگرس جماعت نے پورے بھارت میں سکھوں کے بڑے پیمانے پر قتل عام‘ سکھوں کی رہائش و کاروباری املاک کو جلانے جیسے اقدامات اور سکھ خواتین کو زیادتی کے بعد زندہ جلا کر دیا۔ دنیا کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہو گا جس میں ایک اقلیت کی نسل کشی کے لئے ووٹر لسٹوں کے علاوہ میونسپل اداروں کے ریکارڈ سے مدد لی گئی اور آگ لگانے کے لئے پٹرول کی فراہمی سے لیکر جلانے تک پولیس کو استعمال کیا گیا جبکہ برسر اقتدار جماعت کانگرس کے بہت سے وزراء اس پورے عمل کی نگرانی کرتے رہے۔ یہ وہی کانگرس جماعت ہے جس نے سکھوں کو بھارت سے وابستہ رکھنے کے لئے ان سے 1947ء میں تقسیم سے قبل جھوٹے وعدے کئے جو سیکولرازم کی بڑی دعویدار سیاسی جماعت ہے۔ اگر آج بھارت کی عدالتیں بی جے پی کے انتہا پسند ہندوؤں کے خلاف فیصلہ دینے سے کتراتی ہیں تو ماضی میں کانگرس کی طرف سے اقلیتوں کے منظم قتل عام میں ملوث کانگرس کے لیڈر ہوں یا عام ورکر۔ عدالتوں نے ہمیشہ انہیں معصوم اور بے گناہ کہہ کر بری کیا۔
اتنا ہی نہیں گزشتہ سات دہائیوں میں بھارت کے متعصب ہندو حکمرانوں کی پوری کوشش رہی کہ وہ اپنی سکھ اقلیت کو پاکستان کے خلاف بدظن رکھے۔ ان کو پاکستان کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کرے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اپنے اہم تاریخی مذہبی مقامات اور ہم گوردواروں کی پاکستان میں موجودگی کی وجہ سے سکھوں کو پاکستان جانے سے نہیں روکا جا سکتا۔ اس کے باوجود حیلے بہانوں سے سکھوں کو پاکستان آنے سے روکا گیا لیکن امریکہ و برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک میں آباد سکھ جب پاکستان آتے اور پاکستان میں اپنے گوردواروں کی دیکھ بھال کے حوالے سے حکومت پاکستان کی خدمات کا جائزہ لیتے‘ اپنے لئے پاکستانی عوام میں پائی جانے والی محبت اور آنکھوں میں احترام دیکھتے تو حیران رہ جاتے۔ یہی اپنائیت تھی جس نے سنگاپور میں رہائش پذیر ایک سکھ بینکار امردیپ سنگھ کو پاکستان میں سکھوں کے تاریخی مقامات اور ان کے تحفظ و دیکھ بھال کے لئے پاکستان میں اٹھانے جانے والے اقدامات کو کتاب کی صورت میں قلمبند کرنے پر مجبور کر دیا
"Lost heritage The Sikh Legacy in Pakistan" کے نام سے مذکورہ کتاب امردیپ سنگھ کی طرف سے سکھ مذہب کی تاریخ اور سکھوں کے لئے اس کی اہمیت ہی نہیں پاکستان میں مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب کو حاصل حقوق اور ان کی عبادت گاہوں کے لئے پاکستانیوں میں پائے جانے والے احترام کی عکاس ہے جس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان میں بلاتفریق ملک و مذہب عبادت گاہوں پر حملہ کرنے والوں کا اسلام اور پاکستان دونوں سے کوئی تعلق نہیں جن کے خلاف پاک فوج و سکیورٹی کے دیگر اداروں کی طرف سے جاری آپریشن کو پوری پاکستانی قوم کی حمایت حاصل ہے۔ امردیپ سنگھ کی کتاب شائع ہوئی تواس کے لئے 20 جنوری 2018ء کو ملیشیاء میں سکھوں نے ’’ایشیا پیسفک یونیورسٹی‘‘ کوالالمپور میں سیمینار کا اہتمام کیا جس میں ملائیشیا میں پاکستان کے سفیر محمد نفیس زکریا کو بطور مہمان خصوصی مدعو کیا گیا۔ گو امر دیپ سنگھ کی کتاب میں سکھوں کی پاکستان میں عبادت گاہوں اور گوردواروں کی ساری تفصیل موجود تھی جس میں لاہور میں تین بڑے گوردواروں کی مرمت‘ تزئین و آرائش سمیت 13 گوردواروں کی تصاویر و تاریخ بھی درج تھیں۔ اس کے باوجود نفس زکریا نے پاکستان میں سکھوں کی تاریخ پر جس تفصیل سے روشنی ڈالی سیمینار میں موجود سکھ اس پرکھڑے ہوکر بڑی دیر تک تالیاں بجا کر داد دیتے رہے۔ ان کا یہ والہانہ انداز پاکستان میں سکھوں کے لئے پائی جانے والی محبت کا برملا اعتراف ہے۔ ویسے بھی بھارت کی طرف سے پابندیوں اور رکاوٹوں کے باوجود جتنے بھی سکھ اپنی مذہبی تہواروں پر ’’ننکانہ صاحب‘‘ تشریف لاتے ہیں وہ سب بے شمار محبتیں سمیٹ کر ہی واپس لوٹتے ہیں۔