• news
  • image

پاکستان اور کشمیریوں کیخلاف بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ

ایک یہودی نے اپنے نوعمر بیٹے کو لوہے کی الماری کے اوپر بٹھا کر کہا چھلانگ لگائے، بیٹا ڈرا تو اس نے کہا میں سنبھال لوں گا… بیٹے نے چھلانگ لگائی تو سنبھالنے کی بجائے ایک طرف ہو گیا اور بیٹا زمین پر گر کر زخمی ہو گیا۔ اس نے بیٹے سے کہا یہ عملی سبق ہمیشہ یاد رکھو کبھی باپ پر بھی اعتبار نہ کرنا۔ مانچسٹر (برطانیہ) میں مقیم میرے دوست شاکر حسین نے ایک فیکٹری کے یہودی مالک سے پوچھا تمہاری فیکٹری میں ایک بھی یہودی ملازم نہیں ہے، اسکی کیا وجہ ہے؟ اس نے جواب دیا ’’میرے دوست! میں اگر کسی یہودی کو ملازم رکھوں گا تو کچھ مدت کے بعد وہ اس فیکٹری کا مالک اور میں باہر ہوں گا‘‘۔ ان مثالوں سے یہودیوں کی فریبی ذہنیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کا یہ بیان ’’ہم پاکستان کے دشمن نہیں، پاکستان بھی ہمیں دشمن نہ سمجھے‘‘۔ صداقت و اخلاص پر مبنی سمجھا جا سکتا تھا اگر پاکستان کے حوالے سے اسرائیل کا مستقل رویہ اسکی توثیق و تائید کر رہا ہوتا اور یہ کسی پاکستانی نہیں بلکہ امریکہ اور چین میں سابق بھارتی سفیر نروپمارائو کے بقول ’’اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں پختگی بھارت کیلئے تزویراتی ضرورت ہے، پاکستان اور چین کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی حکمت عملی ہے اس لئے فلسطین کے انسانی کاز کے ایجنڈے کو ایک طرف رکھتے ہوئے بھارت اسرائیل سے تعلقات استوار کر رہا ہے تاکہ خطے میں اس کی بالادستی کا خواب پورا ہو سکے‘‘۔ دریں اثناء فلسطینیوں کے حقوق کی عالمی تنظیم بی ڈی ایس کی بھارت میں سربراہ آپوروا گوتم نے تنقید کرتے ہوئے کہا ’’اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو فعال بنانا عالمی سطح پر بھارتی رویہ کے تضاد کو ظاہر کرتا ہے۔ بھارت، امریکہ اور اسرائیل کے کیمپ میں گھسنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن اقوام متحدہ کی قراردادوں پر اسکی پوزیشن تضادات کا شکار ہے۔ معاشی، ثقافتی اور ٹیکنالوجی کے میدان میں تعاون کے ساتھ پاکستان اور چین کے خلاف مشترکہ حکمت عملی طے کرنا بھی ہے‘‘۔ علاوہ ازیں نریندر مودی نے اسرائیلی وزیراعظم کو پاکستان کے آبی وسائل میں رکاوٹیں ڈالنے کیلئے 50 کروڑ روپے کے فنڈ اور اسکے استعمال کی تفصیلات سے بھی آگاہ کیا۔ اس سارے تازہ گٹھ جوڑ کے باوجود نیتن یاہو کا یہ کہنا ’’پاکستان اسرائیل کو دشمن نہ سمجھے‘‘ ناقابل اعتبار یہودی سرشت کا شاہکار ہی ہے اور یہ بھی ملی بھگت ہی لگتی ہے کہ ایسا ہی بیان بھارتی وزیراعظم نے عین ایسے ہی موقع پر بھارتی ٹی وی ’’ٹائمز ناو‘‘ کو دیئے انٹرویو میں دیا ’’پاکستان بھارت نے بہت لڑ لیا، آئو! غربت و بیماری کے خلاف لڑیں۔ اگر پاکستان اور بھارت مل کر غریبی کے خلاف لڑیں گے تو جلد جیتیں گے۔ یہ کہنا ہماری خارجہ پالیسی پاکستان کے حوالے سے ہے غلط ہے لیکن دنیا کو دہشت گردوں کے ہمدردوں کے خلاف متحد ہو جانا چاہئے۔ میں براہ راست پاکستان کے لوگوں سے بات کرتا ہوں، کیا ہمیں بیماریوں سے نہیں لڑنا چاہئے۔ اگر ہم مل کر لڑیں گے تو جلد کامیاب ہوں گے‘‘۔ ایک طرف جھوٹی ہمدردی کا ناٹک دوسری جانب کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری پر بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری سے عام پاکستانیوں کی شہادتیں، بغل میں چھری منہ میں رام رام اس کا نام ہے۔ جنوبی ایشیا میں بھارت اور مشرقی وسطیٰ میں اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم اور جارحانہ اشتعال انگیزی بالادستی کے جنون کا مظہر ہے۔ اگرچہ مودی اور نیتن یاہو کے درمیان گٹھ جوڑ کر خفیہ رکھنے کا فیصلہ کیا گیا تھا مگر دونوں ملکوں کے قومی سلامتی کے مشیروں میربن شیت اور اجیت دوول کی ملاقات نے جس میں ’را‘ اور موساد کے سربراہ بھی شریک ہوئے سارا بھانڈا پھوڑ دیا، اسرائیلی روزنامہ حارث کے مطابق 50 کروڑ ڈالر مالیت کے میزائلوں کی خریداری کا سمجھوتہ ہوا جبکہ بھارتی اخبار انڈیا ٹوڈے کے مطابق پاکستان کی آئی ایس آئی کے خلاف اسرائیلی ایجنسی موساد اور ’را‘ کے مابین خفیہ اطلاعات کے تبادلے و مدد کے معاملات طے کئے گئے جبکہ بات چیت کا ایجنڈا پاکستان میں دہشت گردی تیز کرنے کا منصوبہ تھا۔ یہ بات آسانی سے سمجھی جا سکتی ہے کہ ایک ہی وقت میں مودی اور نیتن یاہو کے پاکستان کیلئے فریبی بیانات کا مقصد پاکستان مخالف گٹھ جوڑ سے توجہ ہٹانا ہے۔ بھارت نے جمہوریت اور آئین کی بالادستی کا ڈھونگ رچا رکھا ہے لیکن آئین کے آرٹیکل 35-Aکی کھلی خلاف ورزی کر کے غیر ریاستی باشندوں کو مقبوضہ کشمیر میں بسایا جا رہا ہے، مقصد آبادی کا توازن بگاڑنا ہے، ہزاروں غیر کشمیریوں کو زرعی اصلاحات ایکٹ 78 کے تحت کسان قرار دیکر جموں میں آباد کیا گیا، غیر کشمیری ہندو جنہیں مغربی پاکستان کے مہاجرین کا نام دیا گیا ہے اور جن کی تعداد 6 سے 10 لاکھ بتائی جاتی ہے وزارت داخلہ کی سٹینڈنگ کمیٹی نے جموں میں مستقل رہائشی سرٹیفکیٹ دینے کی سفارش کی ہے۔ ادھر محبوبہ مفتی کی قیادت میں کٹھ پتلی انتظامیہ نے مودی کے کہنے پر غیر کشمیریوں کو ڈومیسائل دینا شروع کر دیئے ہیں جبکہ کشمیر میں یہودیوں کی طر زپر کشمیری پنڈتوں کی الگ بستیاں بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے حالانکہ اقوام متحدہ کی قرارداد 1950ء کے تحت کوئی دستور ساز یا قانون ساز اسمبلی ایسی تبدیلیاں نہیں کر سکتی جو استصواب رائے کے نتائج کہ متاثر کر سکے۔ دریں اثناء مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ان کی مساجد اور مدارس کے خلاف بھی مہم شروع کر دی گئی ہے جس نے نام نہاد سیکولرازم کا پول کھول دیا ہے۔ انتہائی مسلمان دشمن وزیراعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ نے اترپردیش میں دینی مدارس کو ہندو تہواروں کے موقع پر بند رکھنے کا حکم جاری کر دیا ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کیلئے عید میلاد النبیؐ کی سرکاری تعطیل ختم کر دی گئی ہے۔ وشوا ہندو پریشد کے لیڈر پروین توگڑیہ نے دارالعلوم دیوبند کو دہشت گردی کا گڑھ قرار دے دیا حالانکہ دہشت گردی کے خلاف دارالعلوم کے فتویٰ کی بھارتی میڈیا نے زبردست تشہیر کی تھی۔ دینی مدارس کے نصاب میں تبدیلی اور انہیں حکومتی شکنجے میں جکڑنے کیلئے اترکھنڈ کے دینی مدارس میں سردار پٹیل کا جنم دن منانا لازمی قرار دیدیا گیا ہے۔ آر ایس ایس کے لیڈروں نریندر مودی، وین دیال آپا دھیائے کی زندگی، نمامی دیوی سے محبت کے تقاضوں اور دھرتی ماتا کے اسباق کے ساتھ گیت پاتھ بھی لازمی قرار دیا گیا ہے جبکہ ’’بیٹی بچائو، بہو لائو‘‘ کے سیاہ منصوبے کے تحت غربت و افلاس میں جکڑی مسلمان لڑکیوں کو لالچ دیکر، مختلف انداز سے ورغلا کر اور دیگر ہتھکنڈے اختیار کر کے ہندو لڑکوں سے شادیوں پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ ویسے بھی بھارت میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی جان، مال اور آبرو کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ اس صورتحال کی منظرکشی ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر نے اپنی کتاب ’’دی انڈین مسلمز‘‘ میں یوں کی ہے ’’مسلمانوں کی مذہبی تعلیم کے تمام ذرائع پر حکومتی شکنجہ، مذہبی تعلیمات کو غیرموثر قرار دینے اور مذہبی تعلیمات کی حقیقی روح نکال کر رکھ دینے کی کوشش ہے‘‘۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن