گنے کے کاشتکار کا مقدمہ
دن بھر پریشان حال کسانوں کے مسائل حل کرتے اور شوگر مِل مالکان کو قائل کرنے میں سر کھپاتے کھپاتے تھک گیا تو شام ڈھلے سرگودھا کے سرکٹ ہاؤس واپس پہنچا۔ طبیعت بھی بوجھل تھی اور جسم بھی دین محمد کو بلایا اور کہا کہ گرما گرم دودھ لے آؤ شاید یوں طبیعت بحال ہو جائے۔ دودھ آیا تو پہلا ہی گھونٹ بھرنے پر احساس ہوا کہ یہ توڈبّے کا دودھ تھا۔ دین محمد کو پھر بلایا اور پوچھا کہ کیا سرگودھا میں بھی تازہ اور خالص دودھ نہیں ملے گا؟ دین محمد بولا: ’’صاحب جی، تازہ اور خالص دودھ تو صرف میرے حضور داتا صاحب کے عُرس کے موقع پر ہی ملتا ہے۔ آزما کر دیکھ لیجیے، ایسا خالص دودھ آپ کو پاکستان میں تو کہیں سے نہیں مل پائے گا۔‘‘
ایک لمحے کو میں اس کی بات پر چونکا لیکن پھر مجھے یاد آیا کہ دین محمد در اصل اس واقعے کے تناظر میں بات کر رہا تھا جس کے مطابق اپنے وقت کے قلندر نے علاقے کے گوالوں کو اُس راجو جوگی نامی شعبدہ باز کے چنگل سے رہائی دلائی تھی جو ان سے زبر دستی دودھ لیا کرتاتھا لیکن داتا صاحبؒ کے سامنے اسکی جادو گری کی قلعی کھُل گئی۔ تب سے آج تک تمام گوالے عُرس کے موقع پر داتا گنج بخش ؒ کے مزار پر دودھ کے چڑھاوے چڑھاتے ہیں۔ آج بھی جب ہمارے یہاں خالص دودھ کی دستیابی فی الحقیقت جوئے شِیر لانے کے مترادف ہو چکی ہے، سید ہجویرؒ کے مزار پر لایا جانے والا دودھ خالص ہی ہوتا ہے۔ گوالوں کا ماننا ہے کہ وہ عظیم شخصیت جس کی بدولت ان کے آبا کو ایک شعبدہ باز سے نجات ملی اس کے ساتھ بد دیانتی کے متعلق وہ سوچ بھی نہیں سکتے۔ وہ داتا صاحبؒ کے احسان مند ہیں اور خواہ اس نذرانے سے انہیں کتنا ہی نقصان ہوتا ہو، وہ تا قیامت اس احسان کا قرض چکاتے رہیں گے۔
اس سارے معاملے میں قابلِ غور نقطہ تھا ایک احسان! اور ہزار سال گزر جانے کے باوجود گوالے اب تک اپنے آبا کی روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں؟ اس قدر احساسِ ممنونیت! کاش ہم بھی ایسے ہو جائیں! پھر تصور کے آئینے پر باریش کسان بابا گُل شیر کی صورت ابھر آئی جو صبح مجھ سے گِلہ کر رہا تھا کہ: ’’دیکھ پُتر وزیر، ہماری عمریں ان شوگر مِل مالکوں کی خدمت کرتے کرتے گزر گئیں۔ میرا باپ بھی انہی کی مِلوں کو گنّا دیتا تھا اور اس کا باپ بھی۔ مالکوں نے ایک کے بعد دوسری اور پھر تیسری مِل بھی لگا لی لیکن ہمارے حصے میں کیا آیا۔ فصل خراب ہوئی تو نقصان ہمارا ہوا، بٹوارا ہوا تو زمین تقسیم ہو گئی، نقصان پھر غریب کسان کا، اور آج دنیا میں چینی کی قیمتیں گر گئیں تو بھی گھاٹے میں کسان ہی آ رہا ہے۔ کوئی حد ہوتی ہے، جب ہم نے ہمیشہ مِل مالکوں کا دم بھرا ہے تو کبھی ہمارے لیے بھی تو کوئی کچھ سوچ لے! گنے کی فصل پورے سال کی فصل ہے، ہماری کمر ٹوٹ گئی تو بچے گا ان کا بھی کچھ نہیں۔ کیا مشکل کی اس گھڑی میں یہ مِل مالک ہمارے ساتھ وسیبہ نہیں کر سکتے؟‘‘ میں مانتا ہوں کہ ایک طرف سیدنا علی بن عثمان ہجویریؒ جیسی جلیل القدر ہستی کی بات ہے اور دوسری طرف بے چارے غریب کسانوں کی لیکن ادھر گوالے ہوں یا مِل مالکان، یہ بات تو یکساں ہے کہ دونوں کو ممنونِ احسان ہونا چاہیے اس ذریعے کا جس نے انھیں اس قابل بنایا کہ آج وہ دن دو گُنی رات چو گُنی ترقی کر رہے ہیں۔ اور ادھر وہ بے چارہ کسان جس کا خون پسینہ ان کے محلات کی بنیادوں میں خُشک ہو گیا لیکن آج اپنا حق لینے کے لیے بھی وہ شوگر مِل مالکان کے آگے دستِ سوال پھیلائے کھڑا ہے اور اس کی نظریں پھر بھی جھکی جاتی ہیں۔
سوچنے کی بات ہے کہ کون سا ایسا شوگر مِل مالک ہے جو یہ دعویٰ کر سکے کہ وہ کسان کے بغیر اپنی مِل چلا سکتا ہے۔ اگر ایسا کوئی بھی نہیں تو مِل مالکان کو بھی چاہیے کہ وہ بھی مشکل کی گھڑی میں کسان کا ساتھ دیں۔ سرگودھا میں ایک مِل مالک سے گفتگو کے دوران معلوم ہوا کہ وہ پچھلے پچاس برس سے یہ مِل چلا رہا ہے اور پانچ سے زیادہ سال ایسے نہ ہوں گے جب اسے منافع نہ ہوا ہو یہ پانچ سال بھی ایسے نہیں کہ ان میں مِل اونر کو نقصان اٹھانا پڑا ہو بلکہ اس مالک کا کہنا تھا کہ یہ سال بھی وہ ہیں جن میں ’’کام تقریباً برابر‘‘ رہا۔ تو کیا ایسا ممکن نہیں کہ حاصل ہونے والے کثیر منافع میں سے کچھ حصہ اس بار غریب کسان کے نام کر دیا جائے۔ اگر خود کو ایک بار نقصان ہو بھی گیا تو کیا فرق پڑ جائے گا۔ دوسری طرف اگر غریب کسان کی تمام امیدیں دم توڑ گئیں تو وہ فصل اگانے کے قابل نہ رہے گا۔ اور اگر ایسا ہو گیا تو مِل اونر کا کیا ہو گا؟ کسان اور مِل اونر کے مابین اس کشمکش کا ایک مستقل حل یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کسان کا استحصال کرنے کے بجائے مِل مالکان اپنی مِلوں کو جدید بنائیں اور گنّے سے حاصل ہونے والی تمام ذیلی اجناس سے فائدہ اٹھائیں۔ گنّے سے کم و بیش دو درجن بائی پروڈکٹس حاصل ہوتی ہیں اور چینی ان میں خاصے نچلے نمبر پر آتی ہے۔ اگر مِل مالکان اپنی مشینری کو بہتر بنا لیں تو چینی ان کے لئے مفت حاصل ہونے والی جنس بن جائے گی۔ اگر شوگر مِل مالکان اپنی مِلوں کو تکنیکی اعتبار سے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کر لیں تو الکحل کی صورت میں حاصل ہونے والے ایندھن سے بہت سا ملکی زرِ مبادلہ بچا کر مِل مالکان ڈالروں میں منافع کما سکتے ہیں۔ اسی طرح گنّے کے پھوگ سے بجلی بنانے کا کام لیا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں اگرچہ یہ کام کیا جا رہا ہے لیکن بہت کم مِلیں اس قابل ہیں کہ وہ اپنی ضرورت سے زائد بجلی پیدا کر کے توانائی کے بحران سے نمٹنے میں معاون ثابت ہوں۔ اس طریقہ کار سے انہیں یہ یونٹ صرف3 سے 4 روپے میں پڑے گا جبکہ تقسیم کار کمپنیاں یہ یونٹ 11سے 12روپے میں خرید رہی ہیں۔بات صرف اتنی سی ہے کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ شوگر مِل مالکان مشکل کی اس گھڑی میں اپنے اُس وسیلے کو فراموش نہ کرتے جس کی بدولت آج ان کی دنیا ہی بدل چکی ہے۔ مِل مالکان کی ذرہ سی کشادہ دلی سے شاید ان کا تو کچھ نہ بگڑتا، غریب کسان کی رکتی سانسوں کو سہارا ضرور مل جاتا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اتنی سادہ سی بات کے لیے بھی خادمِ پنجاب کا ڈنڈا چلنا ضروری تھا؟ کیا مِل مالکان ان گوالوں کی طرح اپنے کارو بار میں برکت کا وسیلہ بننے والوں کے لیے تھوڑی سی قربانی نہیں دے سکتے تھے؟ آخر وزیرِ اعلیٰ پنجاب کو اس قدر انتہائی اقدام کیوں اٹھانا پڑا کہ براہِ راست حکومتی نگرانی میں کسانوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے؟ کسان شوگر مِل مالکان سے رحم کی اپیل نہیں کر رہے تھے، وہ تو اپنا حق مانگ رہے تھے!شہباز شریف کی کسانوں کیلئے تڑپ دیکھتے ہوئے مجھے معروف چینی وزیراعظم چو این لائی اور روسی کمیونسٹ پارٹی کے سر گرم لیڈر نکیتا خروشچیف کا مکالمہ یاد آ گیا جب روسی راہنما نے چینی وزیراعظم سے طنزاً کہا کہ: ہم میں کوئی بات بھی تو مشترک نہیں ہے، تم ایک سرمایہ دار کے بیٹے ہو اور میں ایک کان کُن کا فرزند‘‘۔چو این لائی نے جواب دیا: ’’ایک قدر مشترک ہے؛ ہم دونوں اپنے اپنے طبقات کے باغی ہیں!‘‘