امریکی صدر کا قوم سے سالانہ خطاب خود ستائش کا مظہر تھا: چینی جریدہ
`
بیجنگ(آئی این پی)چینی جریدہ گلوبل ٹائمز کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا قوم سے سالانہ خطاب خود ستائش رپورٹ دکھائی دیتا ہے۔امریکی صدر نے اپنے ایک سالہ دور اقتدار کو ’’ نیا امریکی لمحہ‘‘قرار دیا ہے ۔اور کہا ہے کہ امریکی خواب کے مطابق زندگی گزارنے کا اس سے بہتر کوئی وقت نہیں ہے۔انہوں نے کہا محض ایک سال قبل امریکہ ’’غیر لچکدار ملک‘‘ تھالیکن اب یہ ’’محفوظ،مضبوط اور فاخر ملک ہے ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں چین کا تین مرتبہ ذکر کیا اور واضع طور پر چین اور روس کو ’’مخالفین‘‘ قرار دیا چین کو اوباما کے دور میں پارٹنراور مسابقتی خیال کیا جاتا تھا۔ پیسہ لگتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے اپنی قومی سلامتی حکمت عملی سے لے کر قوم کے نام سالانہ خطاب تک چین کے بارے میں اپنے منفی مطمع نظر کو بہتر بنایا ہے۔ امریکی صدر نے ایک مرتبہ پھر’’جوہری اسلحہ‘‘ اور ’’عظیم فوج ‘‘ کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ سپر پاور کے طور پر امریکہ اب بھی زبردست فوجی صلاحیت اور بڑے دفاعی میزانیوں کی تبلیغ کررہا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ اور امریکی اشرافیہ یہ باور کرنے پر رضامند دکھائی نہیں دیتے ہیں۔ کہ ان کے فیصلوں سے دنیا کو کیونکر تکلیف پہنچتی ہے ، جریدہ کے مطابق امریکی اشرافیہ کی نظر میں امریکہ عظیم ہے، جو کہ یک ایسی صورتحال ہے جس کا دنیا کے بیشتر ممالک کسی بھی ممکن طریقے سے استحصال کرنا چاہتے ہیںاخبار لکھتا ہے کہ واشنگٹن کو اعتراف کرنا پڑے گا کہ اس کی موجودہ پالیسی نے پہلے ہی دنیا بھر میں تشویش کی لہر دوڑادی ہے۔ اس کی تحفظاتی ازم کے رجحانات اور پیرس ماحولیاتی معاہدے سے واپسی کو وسیع پیمانے پر خود غرضی تصور کیا جارہا ہے۔ ’’پہلے امریکہ ‘‘کی بین الاقوامی برادری کے لیے سود مند ہونے کی وکالت کو بڑے پیمانے پر منافقانہ خیال کیا جارہا ہے۔ عالمی استحکام برقرار رکھنے کیلئے امریکہ کی طرف سے گزشتہ سال میں کوئی اضافی کوشش دیکھنے میں خال خال نظر آئی ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ امریکہ دوسرے ممالک کوڈرا دھمکا کر ’’امریکہ کو پھر عظیم بنائو‘‘ نہیں بنا سکتا۔ بین الاقوامی برادری کے امریکہ کے ساتھ عدم اطیمنان میں بتدریج اضافہ ہورہاہے۔ اور اس سے ملکی خوشحالی کی پائیداری کو خطرہ اور نقصان پہنچ رہا ہے۔ ٹرمپ نے بین الاقومی پریشانی کے موقع پر اپنا فاخرانہ خطاب کیا ہے۔ امریکی سیاستدان اس قسم کی لاپرواہی کو نظر انداز کرسکتے ہیں۔ لیکن اس سے یقیناً امریکی قومی مفاد کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔