• news

فوج‘ عدلیہ کے بعض عناصر جمہوریت سبوتاژ کر رہے ہیں: نوازشریف

کراچی(سٹاف رپورٹر+ نیشن رپورٹ+ ایجنسیاں+نوائے وقت رپورٹ) سابق وزیراعظم نوازشریف نے کہا ہے کہ ایسا پہلی بار نہیں ہورہا ہے کہ فوج اور عدلیہ کے بعض عناصر جمہوریت کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کررہے ہیں بلکہ ملک میں جب بھی جمہوریت جڑیں پکڑنے لگتی ہے ایسا ہوتا رہا ہے۔ منہ زور عدلیہ ڈکٹیٹروں کے سامنے ڈھیر ہوجاتی ہے۔ نواز شریف نے کہا ہے کہ ملک میں جب بھی جمہوریت پر یلغار ہوئی عدلیہ کے ایک حصے نے آمروں کا ساتھ دیا، آج بھی سیاسی مطلع پوری طرح سے صاف نہیں ہے ہر طرف گردوغبار ہے، 70 سال گزرنے کے بعد بھی جمہوریت کے مستقبل کے حوالے سے سوالیہ نشان ہے، نظریہ ضرورت نے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اس ہی کی وجہ سے جمہوریت کو منزل حاصل کرنے سے روکا گیا پارلیمنٹ میں دوبارہ آکر پی سی او ججوں کے خلاف سخت فیصلے کریں گے۔ 99ء میں ایک جج نے کہا اچھاہوا نواشریف کا تختہ الٹ دیا مشرف کو وہ اختیار دے دیا گیا کہ وہ آئین کے ساتھ جو چاہے سلوک کرے، مشرف پہلا ڈکٹیٹر ہے جسے ہم عدلیہ کے کٹہرے میں لائے جو ملک سے فرار ہوا اور پاکستان کی سرزمین پر واپسی کے حوالے سے خوفزدہ ہے۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے جمعہ کو مقامی ہوٹل میں مسلم لیگ (ن) سندھ کی جانب سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا  جس کا عنوان تھاپاکستان میں جمہوریت کا مستقبل۔ اس موقع پر مسلم لیگ (ن) سندھ کے سیکرٹری جنرل شاہ محمد شاہ، صحافی و دانشور آئی اے رحمان، مسلم لیگ فنکشنل کی رہنما مہتاب اکبر راشدی، سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے رہنما غلام شاہ،عورت فائونڈیشن کی انیسہ ہارون، نیشنل پارٹی کے صدر وفاقی وزیر سنیٹر میر حاصل بزنجو،پختونخواملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے خطاب کیا جبکہ اس موقع پر گورنر سندھ محمد زبیر، وفاقی وزراء مشاہد اللہ خان، خواجہ سعد رفیق بھی موجود تھے۔ نوازشریف نے مزید کہا کہ 70 سال گزرنے کے باوجو د بھی جمہوریت کا مستقبل ہمارے لئے سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔ آج بھی وسوسے اور اندیشے پوری قوت کے ساتھ موجود ہیں ہم جمہوریت کے مستقبل کی گواہی کیوں نہیں دے سکتے۔ ان سوالوں کا جواب یہ ہے کہ آج بھی ماحول میں ہر طرف گرد و غبار ہے اس ہی وجہ سے جمہوریت منزل پر نہیں پہنچ پائی، اگر ہم ماضی میں جھانکیں تو معلوم ہوگا کہ اس کی شروعات اس وقت شروع ہوئی جب گورنر جنرل غلام محمد نے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کو ہٹاہا گیا اور یہیں سے جمہوریت کو گھر کی لونڈی بنانا شروع کیا گیا، اسکے بعد غلام محمدنے ایوب خان کی ملازمت میں توسیع کرکے اپنے عزائم میں انہیں شریک کیا۔54ء میں گورنر جنرل نے دستور ساز اسمبلی توڑی اور اراکین کو گھر بھیج دیا، اس وقت کے وزیر اعظم رکشہ میں بیٹھ کر ہائیکورٹ گئے اور ہائیکورٹ نے تاریخی فیصلہ دیتے ہوئے حکومت کو بحال کردیا لیکن فیڈرل کورٹ گورنر جنرل کے فیصلے کو درست قرار دے دیا۔ اور یہیں سے رسوائے زمانہ نظریہ ضرورت سامنے آیا۔ اس کے بعد جمہوریت پنپ نہیں سکی اس کی روایت اس وقت جسٹس منیر نے ڈالی اس کے بعد سے ہی جمہوریت کو اپنے پیروں پر کھڑا نہیںکیا جاسکا،اور ہر مرتبہ ابھرتی ہوئی جمہوریت پر کلھاڑا چلایا جاتا رہا۔فوجی آمر جمہوریت پر وار کرتے رہے عدلیہ کا ایک حصہ عوام کے بجائے آمروں کا ساتھ دیتا رہا۔56ئ￿ میں ملک کا آئین بنا لیکن 58ئ￿ میں اسے منسوخ کردیا گیا جب یہ معاملہ عدالت پہنچا توجسٹس منیر نے ایک بار پھر نظریہ ضرورت کے تحت مارشل لاء کا ساتھ دیا گیا۔ 1999ء میں میری حکومت کو جب ہٹاکر مارشل لاء لگایا گیا تو ایک جج نے اس وقت یہ بات کہی کہ بہت اچھا کیا کہ نواز شریف کا تختہ الٹ دیا گیاآپ نے یہ احسان کیا ہے۔ اور پرویز مشرف کو وہ اختیار دے دیا گیا جو ججوں کے پاس بھی نہیں تھا۔ اور اسے یہ اختیار دیا گیا کہ وہ آئین کے ساتھ جوچاہے سلوک کرے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہوگا۔جسٹس منیر کا نظریہ ضرورت اس کام کو بھی قانونی بنا دیتی ہے جو غیر قانونی ہوتا ہے۔ یہ کیسی منطق ہے یہ کیسا ملک ہے، جسٹس منیر کی کامیاب انقلاب اور نظریہ ضرورت کی تھیوری چلائی گئی۔ کراچی میں وکلا سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ انتظامیہ کو بے بس کرنے کے بعد صوابدیدی اختیار کے لمبے ہاتھ پارلیمنٹ تک پہنچ چکے ہیں۔ عدلیہ کی بحالی کی تحریک کا مقصد چند ججوں کی بحالی نہیں تھا بلکہ ’ہم یہ اصول تسلیم کروانا چاہتے تھے کہ کسی آمر کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ اپنی مرضی مسلط کرنے کے لیے ججوں پر دباؤ ڈالے، انھیں قید کرے اور انھیں عدالتوں سے نکال باہر کرے۔انھوں نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم عدلیہ بحالی میں تو کامیاب ہو گئے لیکن عوام کو انصاف نہ مل سکا اور وہ صبح طلوع نہ ہو سکی جسے عدل کی تابناک صبح کہا جا سکے۔ نواز شریف نے کہا کہ پاکستان میں منتخب نمائندوں کے مقابلے میں آمروں کو من مانی کا اجازت دی گئی۔ ’ہمارا المیہ یہ بھی رہا ہے کہ ہماری عدلیہ نے سیاست دانوں اور منتخب نمائندوں کے بارے میں ہمیشہ انتہائی سخت اور اکثر انصاف کے تقاضوں کے منافی رویہ اختیار کیا جبکہ ڈکٹیٹر انھیں ہمیشہ بہت عزیز رہے۔ یہ فرق آپ جاننے کی کوشش کریں۔سیاستدانوں کو پھانسی چڑھایا گیا، مقبول جماعتوں کے مقابلے میں کٹھ پتلی پارٹیاں کھڑی کی گئیں۔ انھوں نے کہا کہ سیاسی نوعیت کے مقدمات ہماری عدلیہ کو ہمیشہ بہت عزیز رہے ہیں۔ ان مقدمات کے فیصلے بہت تیزی سے کیے جاتے رہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’وکلا برادری کو یہ بھی جائزہ لینا ہو گا کہ آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت عدلیہ کا صوابدیدی اختیار اس دائرے میں ہے جو آئین بنانے والوں کے پیش نظر تھا۔‘ ان کے بقول ’وزیراعظم اور وفاقی کابینہ کی حیثیت یہ رہ گئی ہے کہ وہ کسی انتظامی عہدے دار کا تقرر بھی نہیں کر سکتی۔ روز مرّہ کے عمومی معاملات سے لے کر پالیسی اقدامات تک انتظامیہ مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔ ابھی حال ہی میں وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کا یہ اختیار بھی سلب کر لیا گیا کہ وہ کسی اہم معاملے پر جوڈیشل کمیشن قائم کرے۔‘ انھوں نے سوال کیا کہ اگر ریاست کا ایک ستون دوسرے پر اپنے صوابدیدی اختیار کے کوڑے برسانے لگے تو کیا دستوری نظام برقرار رہ سکے گا؟ میاں نواز شریف نے الزام عائد کیا کہ صوابدیدی اختیار کے لمبے ہاتھ انتظامیہ کو بے بس کرنے کے بعد مقنّنہ تک پہنچ چکے ہیں۔ ’اس وقت پارلیمنٹ کا بنایا ہوا ایک قانون عدلیہ کے سامنے ہے۔اپنی تقریر کے آخر میں ان کا کہنا تھا کہ ’میں تسلیم کرتا ہو کہ عدلیہ کا عزت و احترام ضروری ہے لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ عدلیہ اپنے مرتبے اور اپنے وقار کا لحاظ کرتے ہوئے دوسروں کی عزت و نفس کا بھی خیال کرے۔‘اس موقع پر سابق صدر سپریم کورٹ بار یاسین آزاد نے 40 وکلا سمیت مسلم لیگ ن میں شمولیت کا اعلان کرے۔ ’سپریم کورٹ کے ایک جج نے کہا کہ ہم وزیراعظم کو بھی طلب کر سکتے ہیں اور وزیراعظم کو یہ بھی پتہ ہونا چاہیے کہ اڈیالہ جیل میں بڑی جگہ ہے۔ یہ کسی فرد واحد کی نہیں میری نہیں وزیراعظم کے منصب کی توہین ہے۔ انھوں نے عمران خان کے خلاف نااہلی کیس کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’وہ صادق امین ٹھہرے اور سارا نزلہ نواز شریف پر گرا دیا گیا،سات صفحات لکھ کر۔‘انہوں نے کہا کہ بہت ہوچکا، دھرنا گروپ کو قوم کی تقدیر سے نہیں کھیلنے دیں گے ملک کی سمت درست کرنے کیلئے سخت فیصلے کرنا ہوں گے۔ مجھے نکالنے کے فیصلے سے انتشار پھیلایا۔ نوازشریف نے پانامہ کیس پر سینئر وکلاء اور ریٹائر ججوں پر مشتمل کمیشن بنانے کی تجویز دی ہے اور کہا کہ کمیشن مولوی تمیزالدین سمیت پانامہ کیس کا جائزہ لے۔ کمیشن مقدمات کا جائزہ لے کر تاریخ کو درست کرے ایسا ممکن نہیں تو کمیشن ماضی قریب کے تین مقدمات کا جائزہ لے۔ کمیشن پانامہ کیس، عمران خان کیس اور جہانگیر ترین کیس کا جائزہ لے۔ علاوہ ازیں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور سابق وزیراعظم محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ مجھے کروڑوں لوگوں نے منتخب کیا اور 5افراد نے نااہل قرار دے دیا۔یہ کہتے ہوئے برا لگتا ہے کہ مجھے نااہل کیا گیا ہے۔پانچ افراد کی طرف سے منتخب وزیراعظم کو نا اہل قرار دینا کیا جائز بات ہے۔ہم نے اپنی حکومت میں بڑے مسائل حل کیے ہیں۔ہر حکومت کو اپنی مدت پوری کرنی چاہیے۔بنگالی قوم کی پاکستان کے لیے بڑی قربانیاں ہیں۔بنگالیوں کے شناختی کارڈ کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہرممکن کوشش کروں گا۔ان خیالات کا اظہار انہوںنے جمعہ کو مقامی ہوٹل میں پاک مسلم الائنس کے زیراہتمام منعقدہ تقریب میں بنگالی کمیونٹی سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔میاں نواز شریف نے کہا کہ مسلم لیگ کی بنیاد ڈھاکا میں ڈالی گئی تھی۔بنگالی قوم نے پاکستان بنانے کے لیے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔بانیان پاکستان کی اولادوں کی ہمیں قدر کرنی چاہیے۔انہوںنے کہا کہ بنگالی کمیونٹی کے شناختی کارڈز کا مسئلہ سیاست سے بڑھ کر انسانیت کا مسئلہ ہے۔اگر مسلم لیگ (ن)آئندہ انتخابات میں کامیاب ہوئی تو سب سے پہلے یہ مسئلہ حل کیا جائے گا۔ہم اس حوالے سے قانون سازی کریں گے۔میرے خلاف فیصلے سے یقینا ملک میں بے یقینی اور انتشار پھیلا ہے۔ملک میں استحکام کے لیے  ہر حکومت کو اپنی مدت پوری کرنی چاہیے۔ علاوہ ازیں میاں نواز شریف نے ائیر لیگ سے پی آئی اے کی بہتری کیلئے تجاویز طلب کرلی ہیں۔ایئر لیگ کے سربراہ سے میاں نواز شریف نے غیر رسمی گفتگو میں پی آئی اے میں ائیرلیگ کے کردار کو سراہا۔ میاں نواز شریف نے ائیر لیگ سے پی آئی اے کی بہتری کیلئے تجاویز طلب کر لی ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن