کسی منصوبے کا حصہ ہیں نہ بنیں گے جمہوریت ڈی ریل ہوئی تو عہدہ چھوڑدوں گا:چیف جسٹس
اسلام آباد(نمائندہ نوائے وقت)چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار نے جوڈیشل پالیسی ساز کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پارلیمنٹ سپریم ہے مگر آئین پاکستان اس سے بھی اوپر ہے کیونکہ آئین کے تحت ہی پارلیمنٹ کو سپریم قرار دیا گیا اور یہ اختیار دیا گیا کہ وہ ایک قانون ساز پلیٹ فارم ہے ، کسی بھی ملک میں عدلیہ اہم ترین ستون ہوتی ہے جو اگر فعال نہ ہوتو ریاست عدم توازن کا شکار ہو جاتی ہے ، عدلیہ ہی ریاست کے شہریوں کے انسانی حقوق کی ضامن ہے، سپریم کورٹ کے پاس،بنیادی حقوق کو یقینی بنانے کے لیے از خود نوٹس لینے کا اختیار ہے ، سپریم کورٹ نے سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے کیس کے فیصلہ میں نظریہ ضرورت کو ہمیشہ کے لیئے دفن کردیا ہے،سیاسی سطح پر چہ مگوئیاں ہورہی ہیں کہ شاید سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو مفلوج کر دیا ہے مگر ایسی باتیں کرنے والے لوگوں کو نہیں پتہ ان کی وجہ سے سپریم کورٹ اور ججز کتنے مفلوج ہوئے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وہ ججز سے وعدہ کرتے ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے۔تاثر دیا جا رہا ہے کہ جمہوریت کو خطرہ ہے اور ہم اس کا حصہ بن گئے ہیں ہم اس کا حصہ نہیں اور نہ ہی کبھی اس کا حصہ ہوںگے، آئین پاکستان نے عدلیہ کو انصاف فراہم کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے اور انصاف اﷲ تعالی کی صفت ہے ۔ٹارگٹ کیا ہے انصاف دل سے نکلتا ہے ٹارگٹ دے کر انصاف لینا تو مزدوری ہے میں آپ سے مزدوری نہیں کروانا چاہتا ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ نے ایمانداری اورانتہائی صلاحیت کیساتھ قوم اور ملک کی خدمت کرنی ہے میں نے آپ کوٹارگٹ نہیں دیئے۔ان کاکہنا تھا کہ مجھے ٹارگٹ دل اور جذبہ سے چاہیے ہم عدلیہ کاحصہ ہیں اور عدلیہ کسی بھی ملک اور ریاست کا اہم ستون ہے۔اس ستون نے اگر اپنی کارکردگی نہ دکھائی تو ریاست عدم توازن کا شکار ہوجائیگی لوگوں کو شکایت ہے اس کی ذمہ داری میں بطور چیف جسٹس آف پاکستان خود لیتا ہوں لیکن میں عدلیہ کے ججزسے درخواست کروں گاکہ اس بڑے بھائی کو شرمندگی سے آپ نے بچانا ہے گاڑی نہیں ملی کمرہ نہیں ملا چپڑاسی نہیں ملا یہ مسائل ہیں مگر یہ ہمارے راستہ کی رکاوٹ نہیں بننے چاہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ کینیڈا کے چیف نے استعفی دے دیا اس نے کہا کہ یہ میرا جذبہ تھا مگر یہ نوکری ہے جو کہ میں نہیں کروں گا جب جج نوکری سمجھ کر کام کریں گے تو پھر یہ ان سے کام نہیں ہو سکے گا ۔ ٹربیونلز کے ججز کی زیادہ اہمیت ہے کیونکہ انہیں خصوصی ذمہ داری تفویض کی گئی ہے۔ دہشت گردی کے کیسز سننے کے لیے نڈر ،بے خوف ،بے خطر اورجید بندے چاہئیں۔انسداد دہشت گردی کے کیسز وہ بندہ کر سکتا ہے جس کو اپنی ذات اور کسی اور چیز کا بھی خوف نہ ہو۔اﷲ تعالیٰ نے اس ملک کو بنایا بڑے بد نصیب وہ لوگ ہوتے ہیں جو بے وطن ہیں جن کے ملک نہیں ہوتے جن کو یہ ماں میسر نہیں آتی جس طرح اعتزاز احسن نے کہا تھا کہ یہ دھرتی میری ماں جیسی ہے میں کبھی غرور اور تکبر نہیں کرتا تکبر والا دن میرا آخری دن ہوگا مجھے بڑا مزہ آتا ہے کہ میں پاکستان کا ایک شہری ہوں۔کیا ہم آج اس ماں کاحق آج ہم ادا کررہے ہیں میں چین گیامیری چینی چیف جسٹس سے ملاقات ہو رہی تھی میں نے اس سے پوچھا آپ نے اتنی جلدی ترقی کر لی میں دیکھ کر حیران اور پریشان ہوگیا میری بیوی بھی میرے ساتھ وہ کہتی ثاقب یہاں ہو کیا گیا ہے ان کا کہنا تھا کہ امریکہ،یورپ اور پوری دنیا میں گئے مگر چین میں جو ترقی ہوئی ۔ہم نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی مجھے چینی چیف جسٹس تین دفعہ ملے یہ ان کی محبت ہے ہم سی پیک کے بارے میں ابھی ایک میٹنگ بھی کررہے ہیں پندرہ ممالک میں سے میں واحد چیف جسٹس تھا جس کو علیحدہ بلا کر لنچ پر چینی چیف جسٹس نے میرے ساتھ گفتگو کی اس گفتگو میں انہوں نے اپناسسٹم مجھے سمجھایا اور اپنی ترقی کا راز بھی سمجھایا اور کہا کہ ہم ایک مفاہمت کسی یادداشت پر دستخط بھی کرتے ہیں جب ترقی کے راز کی بات آئی تو انہوں نے کہا کہ ہم نے ایک ہی چیز سیکھی ہے اور وہ ہے ایک قوم بننا ۔ چینی لوگ دن رات اپنے ملک کے لیے کام کرتے ہیں اور یہی جذبہ ہمارے ججز کو کام کرتے ہوئے اپنانا ہو گا ۔ اگر ہم اپنے بچوں کو ملک اچھا دے کر نہیں جا رہے تو پھر میری بہنیں ، بیٹیاں جو بچے پیدا کر رہی ہیں ان کو کوئی مستقبل نہیں دے کر جا رہیں ۔ ججز اپنے مفاد کو ایک سال کے لیے بھول جائیں ۔ دیانتداری ، قابلیت ، اہلیت اور اپنی خود داری کا تحفہ ملک کو دے دیں۔ تعلیم ، صحت ، ترقی اور مفاد عامہ کے کام یہ ہمارا جذبہ ہے یہہماری خواہش ہے جو ہم نے بطور قوم دینی ہے ۔ باقی سب ڈھونگ ہے اگر میرے بہن ، بھائی ، بیٹے اور بیٹیاں کام نہیں کر سکتے تو وہ نہ اپنا وقت ضائع کریں نہ قوم کا وقت ضائع کریں ۔ رازق اللہ کی ذات ہے وہ کہیں نہ کہیں سے آپ کو رزق دے دے گا اگر عدلیہ میں کام کرنا ہے تو دیانتداری اور جذبہ سے کام کرنا ہے اہداف کو مد نظر رکھ کر نہ کوئی کام ہو سکتا ہے نہ میں آپ کو کرنے دوں گا ۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی عدالت کا بجٹ ایک کروڑ 14 لاکھ سالانہ ہو اور اس میں 0.5 یا 0.85 کیسز کا فیصلہ سنایا ہو تو کیا اس نے اپنی دیانتداری کے ساتھ کام کیا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک ہائی کورٹ کا جج جسے ٹربیونل کا چیئرمین لگایا جاتا ہے اس کی کتنی تنخواہ ہوتی ہے ۔ 9-10 لاکھ روپے ہوتی ہے میرے خیال میں ملک میں 40-43 ہزار روپے روزانہ جج کی تنخواہ ہے اور سپریم کورٹ کے جج اس سے پانچ یا دس ہزار زیادہ لیتے ہیں ہمارا فرض نہیں بنتا کہ ہم چالیس پچاس ہزار روپے کا کام کر کے اٹھیں ۔ میں صرف ججز کو احساس دلا رہا ہوں ڈانٹ نہیں رہا یہ احساس میرے اندر پیدا ہونا شروع ہو گیا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ریاست کے تین ستون ہیں پارلیمنٹ سپریم ہے مگر اس سے تھوڑا سا اوپر دیکھیں تو آئین سپریم ہے ۔آئین کے تحت پارلیمنٹ سپریم ہے اور قانون پارلیمنٹ نے بنانے ہیں ۔ کراچی میں ، میں نے قوانین کا مختصر حوالہ دیا تھا ۔ 1908-1856-1872-1860 ء یہ وہ قانون ہیں جن پر ہم عملدرآمد کر رہے ہیں کیونکہ ہم ان قوانین کے تابع ہیں جو مقننہ نے ہمارے لیے بنائے ہیں ہم نے انہی کی پیروی کرنی ہے اور انہی کے مطابق انصاف کرنے ہیں کوئی اور ایسا راستہ نہیں ماسوائے اس قانون کے جس کو ان قوانین کی تشریح کرنے کے بعد سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ نے تشریح کی شکل دے دی ہے ۔ ہم ان پر عملدرآمد کے پابند ہیں آج کے حالات کا سامنا کرنے کے لیے قانون میں ترمیم ہوئی ہمیں آنے والے قانون کا انتظار نہیں کرنا بلکہ اسی قانون کے مطابق انصاف کرنا ہے جو موجود ہے ججز کو قانون کے مطابق فیصلے کرنا ہیں ہمیں یہ اجازت نہیں کہ ہم اپنی خواہشات کے مطابق فیصلے کریں۔ان کا کہنا تھا کہ ہم چند لوگوں میں سے ہیں جن کو حکومت اتنی زیادہ تنخواہیں دیتی ہے، آئیں ہم کام کر کے دکھائیں۔ایک عادل اور قاضی کو قیامت کے دن بھی چھائوں نصیب ہو گی ان کا کہنا تھا کہ ججز نے ایک ماہ میں فیصلہ دینا ہے میرے پاس کیسز آ رہے ہیں جس میں ایک ایک سال بعد فیصلہ لکھا گیا ان کا کہنا تھا کہ ججز میرے ساتھ وعدہ کریں کہ ہم نے یہاں سے جا کر انصاف کرنا ہے پیسہ اور تنخواہ بے معنی ہے بچے کو پراڈو دے کر جائو گے کچھ نہیں بنے گا اس بچے کو آنے والے وقت میں پراڈو کا کوئی فائدہ نہیں جس پراڈو کو وہ بیٹھ کر ملک میں سکون کے ساتھ نہیں چلا سکے گا بڑی کوٹھی کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور ڈکیتی ہو جائے گی ان کا کہنا تھا کہ اگر انصاف ہوگا تو ملک اور معاشرے میں فتنہ کا خاتمہ ہوگا لوگوں کے بنیادی حقوق کو یقینی بنانا ہماری ذمہ داری میں شامل ہے جہاں پر بھی ہم ہیں ہمیں اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا یہ ذمہ داری ہے ٹربیونل ،سیشن ججز اور سول ججز کے پاس بھی بنیادی حقوق کو یقینی بنانے کا اختیار ہے ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ پاکستان میں واحد عدالت ہے جس کے پاس بنیادی حقوق کو یقینی بنانے کے لیے ازخود نوٹس لینے کا اختیار ہے اگر لوگوں کو علاج معالجہ اور صاف پانی کے پینے کی سہولتیںمیسر نہیں آ رہیں تو ہم نے از خود نوٹس کا اختیار استعمال کیا ہے کیا ہم اپنے اختیارات سے تجاوز کر رہے ہیں ہم اختیارات سے تجاوز نہیں کر رہے۔ جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ ملک کو بہتر بنانے کے لیے ہم نے جدوجہد کرنی ہے کاش کوئی عمر خطاب ثانی یہاں تشریف لے آئیں کاش کبھی حضرت علی ؓ ثانی یہاں تشریف لے آئیں جو انصاف کا بہت بڑا نام ہیں اگر ملک میں بڑے لیڈر اور بڑے منصف آ گئے تو دیکھیں گا کہ ملک کی ترقی اور پرواز کوئی روک ہی نہیں سکتا ان کا کہنا تھا کہ ججز کی مراعات آپ کا حق ہے اگر ان میں کوئی کمی بیشی ہے تو رجسٹرار کے ذریعہ ہمیں بھجوا دیں ہم اپنی سطح پر کوشش کریں گے اور ان کو یقینی بنایا جائے گا ۔ان کا کہنا تھا کہ میرا ججز سے وعدہ ہے کر ہم پاکستان میں جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے اگر ایسا نہ ہوا تو میاں یہاں نہیںرہوں گا یہ میرا وعدہ ہے تاثر دیا جا رہا ہے کہ جمہوریت کو خطرہ ہے اور ہم اس کا حصہ بن گئے ہیں ہم اس کاحصہ نہیں اور نہ کبھی حصہ ہوںگے ہم نے نظریہ ضرورت کو دفن کر دیا ہے سندھ ہائی کورٹ بار کے کیس میں یہ فیصلہ دے چکے ہیں اس فیصلہ سے زیادہ اچھا فیصلہ ملکی تاریخ میں نہیں ہو سکتا۔ میں سندھ ہائی کورٹ بار کے کیس کے فیصلہ میں شامل تھا اس کوکیوں کوئی کریڈٹ نہیں دیتا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں تحمل سے کام کرنا چاہیے اورتوازن کو قائم رکھنا چاہیے جب توازن خراب ہو جائے تو پھر ادارے کی عزت،تکریم اور حفاظت کرنا ہماری ذمہ داری ہے میں ساتھی ججز کے سوا اکیلا کچھ نہیں میرا مڈل کلاس سے تعلق ہے اورمیں چیف جسٹس بن گیا ہوں اس سے بڑا عہد نہیں ہو سکتا اس سے بڑا عہدہ اﷲ تعالی مجھے مغفرت کی صورت میں دے گا میں کسی کے ساتھ ناانصافی کر کے نبی ؐکی شفاعت کو نہیں چھوڑ سکتا یہاں کوئی منصوبہ بندی نہیںچل رہی عدلیہ آزاد ہے ۔انہوں نے کہا کہ کسی مصلحت اور خوف کے باعث اپنے فرائض سے غفلت نہیں برتیں گے۔ بنیادی حقوق کا تحفظ عدلیہ کی بنیادی ذمہ داری ہے۔نیوزایجنسی کے مطابق چیف جسٹس کا کہنا تھاملک میں گریٹ لیڈر اور گریٹ منصف آگئے تو ملکی ترقی کو کوئی نہیں روک سکتا‘ ہمیں موجودہ حالات اور قانون کے مطابق انصاف فراہم کرنا ہے ‘ عدلیہ نے کارکردگی نہ دکھائی تو ریاست لڑکھڑا جائیگی‘ انصاف وہ ہے جو ہوتا نظر آئے ‘ بڑے بڑے مگر مچھوں کو کٹہرے میں لانا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے ججوں کو قانون پر مکمل گرفت ہو ۔ آپ میرا حصہ ہو اس لئے آپ سے بات کر رہا ہوں۔ بچوں کو کوٹھی اور پراڈو دے کر جائو گے تو اس کا کچھ نہیں بنے گا۔ انصاف کا بول بالا کر کے جائیں گے تو معاشرے میں بہتری آئے گی۔ خدا کے واسطے انصاف کی فراہمی کے لئے جو کرسکتے ہیں کر گزریں۔چیف جسٹس نے کہاکہ بھول جائیں کہ یہاں کوئی سازش ہورہی ہے ٗآئین کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے ٗ انشا اللہ اس سے پہلو تہی نہیں کریں گے۔ احتساب عدالت اور انسداد دہشت گردی کی عدالت کے ججز بہت اہمیت کے حامل ہیں اور انسداد دہشت گردی عدالتوں کیلئے تگڑے بندے چاہئیں ٗعدلیہ میں جلد فیصلوں کی پالیسی نافذ کردی گئی۔ اگر جمہوریت کو ڈی ریل کیا گیا تو میں عہدے پر نہیں رہوں گا۔عدلیہ کی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عدلیہ نے ’ماضی میں چند غلطیاں کی ہیں‘ اور ادارے کو آگے بڑھنے کے لئے خود احتسابی بھی کرنا ہو گی۔
چیف جسٹس
شہبازشریف/ نوٹس
مریم اورنگزیب
آصفہ سالگرہ