• news
  • image

گنے اور گندم کی لوٹ کھسوٹ پر مبنی مصنوعی بحران

امان اللہ چٹھہ
پاکستان جیسے ملک میں جس کی معیشت کا دار و مدارزراعت پر ہے۔ آج یہاں تمام کسان بنکوں کے مقروض ہیں اور مڈل مین تاجر آڑھتی کسانوں کو لوٹ کر دبئی میں پلازے کھڑے کر رہے ہیں ۔ بلا شبہ حکومت کی ناقص پالیسی نے زراعت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔کسان گنا پیدا کریں تو گنے کا بحران چاول گندم پیدا کریں تو پھر بھی بحران پیدا کردیا جاتاہے ۔ جبکہ ان مسائل پر سیاست کرنے والے ارب پتی بن گئے ہیں اور کسان کی فصلیں تک نہیں بکتیں۔ اگرچہ ملک کی سب سے بڑی فصل کپاس کی صورتحال بھی قابل بیان نہےں تاہم گنا اور گندم کا بحران تو انتہائی سنگین صورت اختیار کرچکا ہے۔گزشتہ سیزن میں گندم کی امدادی قیمت سے محرومی پر کاشتکاروں میںزبردست بے چینی نظر آئی وہاں گنا کے حالیہ سیزن کے آغاز ہی سے کسان سڑکوں پر نکل کر حکام کو اپنی مشکلات سے آگاہ کرتے رہے ان کے نمائندے اعلیٰ سطح پر حکومت سے رابطہ میںبھی رہے جبکہ شوگر ملوں کو راہ راست پر لانے کیلئے کسان تنظیموں نے عدالت عالیہ کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا مگر حکومتی حلقوں کی ٹال مٹول اورملوں کی کھلے عام لوٹ کھسوٹ جاری رہی ۔
وفاقی وزیر کی تلخ نوائی
حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) سے دیرینہ وابستگی رکھنے والے وفاقی کابینہ کے بین الصوبائی رابطہ کے وزیر یاض حسین پیرزادہ نے قومی زرعی تحقیقی مرکز(NARC) میں حال ہی میں ہونے والے سیمینار میں اظہار خیال کرتے ہوئے زراعت اور کسانوں پر موجودہ حکومتی پالیسی کے تباہ کن اثرات کا جائزہ ان الفاظ میں لیا ہے کہ موجودہ حکومت کسان دشمن ہے جس نے زراعت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے اور مجھ سمیت تمام کسان بنکوں کے مقروض ہیں۔ تاجر مافیا نے ملک کا بیڑا غرق کردیا ہے میرے ساتھ سیاست میںآنے والے ارب پتی بن گئے ہیں۔ایک سینئر وفاقی وزیر نے جن تلخ حقائق کی نشاندہی کی ہے ان کی وضاحت کیلئے یہاں پر دو نمایاں مثالیں پیش کی جارہی ہیں جس سے ہردرمند شخص اندازہ کرسکتا ہے کہ ہماری حکومت دانستہ یا نا دانستہ طور پر استحصالی طبقہ کو کس طرح ناجائز منافع خوری کے مواقع فراہم کررہی ہے۔جبکہ کاشتکار کو فصل پر بھاری خسارہ کے زیر بار کرکے دو وقت کی روٹی مہیا کرنے کے لائق نہیں چھوڑا گیا ۔
گنا کی فصل کو لیجئے جو ایک سال کے عرصہ میں تیار ہوتی ہے حکومت نے پچھلے چار پانچ سال سے اس کی قیمت 180/-روپے فی من مقرر کر رکھی ہے ۔اس فصل کی کھپت شوگر ملوں میں ہوتی ہے کرشنگ سیزن کا آغاز معمول کے مطابق ماہ اکتوبر سے ہوتا ہے جب کاشتکار گنا کی اگیتی تیار ہونے والی فصل کاٹ کر گندم کاشت کرسکتے ہیں۔ لیکن امسال یہ ہوا ہے کہ اولاً بیشتر ملیں دسمبر تک نہیں چلائی گئی کسانوں نے جو گنا اکتوبر نومبر میں سابقہ شیڈول کے مطابق ملوں کو سپلائی کرنے کیلئے کاٹ لیا تھا وہ سوکھ کر خراب ہوا جہاں کٹائی روک دی گئی وہ کھیت گندم کاشت کرنے کے لئے خالی نہ ہوسکے ۔ثانیاً جب بڑی تاخیر کے ساتھ ملیںچلائی گئیں تو مقررہ قیمت کی ادائیگی سے صاف انکار کردیا گیا۔ سست رو ( Go Slow) پالیسی اختیار کی گئی ملوں سے باہر تین کلو میٹر تک گنا سے لدی ٹرالیوں کی قطاریں لگ گئیں بیچارے کاشتکار باری کے انتظار میں آٹھ دن رات شدید سردی کے موسم میں ٹرالیوں پر گزارنے پر مجبور ہوگئے پھر ایجنٹوں کے ذریعہ 130/-روپے من تک کی قیمت پر خریداری کی جاتی رہی تمام قانونی ضابطوں کے بالائے طاق رکھتے ہوئے منظور شدہ رسید (CPR)سی پی آر کی بجائے مل انتظامیہ کی طرف سے سادہ کاغذ پر دو نمبر پرچی جاری کی گئی جس پر صرف وزن کا اندراج کیا گیا جو من مانی کٹوتی کے بعد درج کیا جاتا۔ جبکہ قیمت اور تاریخ ادائیگی کا ذکر تک نہ ہوتا۔ گویا کسان کو مکمل طور پر مل انتظامیہ کے رحم و کرم پررہنے پر مجبور کیا گیا ۔ثالثاً کسان تنظیموں سے حکومتی مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا جس کو نصف سیزن گزرنے تک طول دیا گیا یہاں تک کہ حکومت نے سیزن کے آغاز پر ہی شوگر مل مالکان کے تمام ترمطالبات تسلیم کر لئے تھے یعنی 15لاکھ ٹن فاضل چینی سب سڈی کے ساتھ برآمد کرنے کے علاوہ ٹریڈنگ کارپوریشن کے ذریعہ مزید3لاکھ ٹن چینی خریدنے کا فیصلہ کیا گیا۔
یہ تو ہے گنا کے سلسلہ میں مڈل مین اور مل مالکان کے استحصال کا ایک نمونہ۔ اب گندم کی مارکیٹنگ کے استحصالی نظام کی ایک جھلک ملاحظہ ہو جس کا گزشتہ سیزن میں نظارہ کیا جاچکا ہے اور دو تین ماہ بعد ایک دفعہ پھر جس کا نہایت تکلیف دہ منظر سامنے آنے والاہے ،کاش ارباب اختیار اس کے بروقت ازالہ کیلئے ٹھوس اقدام کرنے پرآمادہ ہوجائیں۔گندم کی فصل کی خریداری میں بھی مافیا کا کردار رہا ہے۔حکومت نے گندم کی امدادی قیمت گزشتہ پانچ چھ سال سے 1300/-روپے فی من مقرر کر رکھی ہے پاسکو اور محکمہ خوراک جیسے دو بڑے اداروں کو بھاری بجٹ کے ساتھ مارکیٹ میں لایا جاتا ہے۔ جو اپنی خریداری سکیم کے تحت ملکی پیداوار کا قابل لحاظ حصہ خریدنے کیلئے مراکز قائم کرتے ہیں ۔اپنے عملہ کے ذریعہ مخصوص باردانہ تقسیم کرکے کسانوں سے براہ راست خریداری کرتے ہیں۔ تاکہ کھلی منڈی میں بھی قیمتوں کو مستحکم رکھا جاسکے۔ لیکن عملاًکچھ اور ہی نقشہ سامنے آتا ہے۔ فصل کی کٹائی شروع ہوجانے کے باوجود خریداری میں تاخیر روا رکھی جاتی ہے۔ باردانہ کی تقسیم انتہائی محدود پیمانہ پر کی جاتی ہے لوگ کھیت کھلیان سے اپنی پیداوار اونے پونے فروخت کرنے پر مجبور ہوتے رہتے ہیں جب بڑی مقدار میں جنس مڈل مین، بیوپاروں کے ہاتھوں میں چلی جاتی ہے تو باردانہ کی فراخدلانہ تقسیم شروع کردی جاتی ہے ۔جس سے استفادہ کرنے والوں میں تاجر مڈل مین کے ساتھ با اثر سیاسی شخصیات بھی شامل ہوتی ہیں اس دوران میں نرخ گر کر 1100/-روپے من تک پہنچ چکا ہوتا ہے۔ چنانچہ قریباً500/-روپے بوری منافع کے ساتھ مخصوص افراد کا مال دھڑا دھڑ پاسکو ، محکمہ خوراک کے مراکز پر آنے لگتا ہے۔ اس طرح کاشتکار کو خون پسینہ کی کمائی کے جائز معاوضہ سے محروم کرکے زور آور مافیا راتوں رات لاکھوں روپے کما لیتا ہے۔
اندریں حالات ایک وفاقی وزیر کی اس تلخ نوائی پر مخالفانہ کی بجائے ہمدردانہ غور و فکر کی ضرورت ہے ۔
کیونکہ تمام بڑی فصلیں کے اسی طرح مصنوعی بحران کے کے نتیجہ میں اگرملک کی 70فیصد آبادی مالی بدحالی سے دوچار رہے اور خزانہ عامرہ بھی 80ارب ڈالر کے بھاری قرضوں کے زیر بار ہوچکا ہو تو یہ بات کسی قدر یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اس دور کے سلطان (ہیئت مقتدرہ) سے کوئی بڑی بھول ہورہی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک میں موجود تمام وسائل اور استعداد (Potential) کو ٹھیک طور پر بروئے کار لاکر معاشی محرومی کے ازالے کا بندوبست کیا جائے۔ ورنہ جماعت اسلامی ہو یا پھر کوئی دوسری جماعت اس امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ کسانوں کی حالت زار کی سنگینی پر صدائے احتجاج بلند کرکے یہ جماعتیں ارباب اقتدار کو اس کا کما حقہ احساس دلائےں۔
فنش،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

epaper

ای پیپر-دی نیشن