یوم کشمیر پر جشن کشمیر کب ہو گا؟
ہمارے ہاں صرف یوم کشمیر منایا جاتا ہے۔ نجانے جشن کشمیر کب منایا جائے گا۔ خون کی ہولی کے درمیان جشن کیسے ہوتا ہے۔ وہ آج کل کشمیر جا کے دیکھنا ہو گا۔ مگر اب تو کشمیر کی طرف دیکھنا بھی تکلیف دہ ہے۔ وہ آزادی کا ماتم منایا جا رہا ہے۔ ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘۔ اس کے لیے ہمیں پاکستان کو کشمیر بنانا پڑے گا۔
دو ہی مسئلے ہیں دنیا میں۔ ایک کشمیر اور دوسرا فلسطین۔ دونوں کا تعلق مسلمانوں کے ساتھ ہے۔ دونوں کے حل میں ابھی بہت کچھ رہتا ہے۔ عالمی سطح پر ضمیر سویا ہوا ہے۔
سب سے زبردست تقریب ورلڈ کالمسٹ کلب کے زیراہتمام ناصر اقبال خان نے کی۔ یہ بلاشبہ بڑی تقریب تھی جہاں مجاہد کشمیر پروفیسر حافظ سعید موجود تھے۔ صدارت چیف جسٹس (ر) میاں محبوب احمد نے کی۔ محبوب صاحب اپنے نام کے سارے معنی جانتے ہیں۔ اسم بامسمیٰ شخصیت ہیں۔ انہوں نے صدارتی تقریر میں محبت اور جرات کو ملا جلا دیا۔ لوگ بھی بہت تھے اور کشمیر کے لیے نعرے لگا رہے تھے۔ حافظ صاحب نے کہا کہ کشمیر کے لیے اب عملی طور پر کچھ کرنا ہو گا۔ یہ حافظ صاحب کے دل کی بات ضرور تھی مگر میں کہہ رہا ہوں کہ آزادی کشمیر کے لیے ایک تحریک ضرور چلنی چاہیے۔
جنگ اب ہو نہیں سکتی۔ پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی ملک ہیں۔ اب دنیا میں بھی جنگ کے ذریعے کسی ملک کو مجبور کرنا مشکل ہے کہ وہ اپنا موقف چھوڑ دے تو پھر کیا کیا جائے؟
مسئلہ کشمیر کو زندہ رکھنا بھی ایک عمل ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اب کشمیر کی بات ہوتی چلی جا رہی ہے جو بھارت کے لیے یہ ایک عذاب سے کم نہیں۔
جب تک حافظ سعید جیسے لوگ زندہ ہیں تو بھارت کی خیر نہیں۔ اب تو حافظ صاحب کے لیے کروڑوں روپے امریکہ نے بھی مقرر کر دیے ہیں۔ بھارت اور امریکہ ایک آدمی سے ڈرتے ہیں۔ قوم سے نہیں ڈرتے۔ امت مسلمہ سے تو بالکل نہیں ڈرتے۔
حافظ سعید ہمارے ایک ہی نمائندہ ہیں۔ ایک ہی آدمی کہیں ہوتا ہے۔ قائداعظم ایک تھے۔ بھٹو ایک تھا۔ شاہ فیصل ایک تھا۔ قذافی ایک تھا۔ بے نظیر بھٹو بھی تھیں۔ وہ عورت تھیں اور ایک ہی تھیں۔ ہمارے ہاں وزیراعظم بننے کے لیے کوئی میرٹ نہیں ہے جبکہ کچھ نہ کچھ میرٹ مریم میں ہے مگر وہ بے نظیر بھٹو نہیں بن سکتیں۔ وزیراعظم بننے کے لیے میرے دل میں ایک نام چودھری نثار کا ن لیگ میں ہے۔
کشمیر کے حوالے سے جو تقریب ایوان پاکستان میں ہوئی۔ اس کی بہت خوبصورت کمپیئرنگ معروف شاعرہ ادیبہ اور سماجی خاتون ناز بٹ نے کی اور خوب کی۔ وہ دھیمے انداز میں بولتی تھیں۔ مگر لہجہ مستحکم تھا۔ وہ کلب کی ویمن ونگ کی مرکزی صدر ہیں۔ کشمیرکی آزادی کے حوالے سے ایک نمائندہ قرارداد بھی ناز بٹ نے پیش کی جسے سب حاضرین نے منظور کیا اور پسند کیا۔ حافظ سعید کا خطاب خصوصی تھا۔ برادرم مظہر برلاس راولپنڈی سے کلب کے مرکزی صدر ہیں۔ انہوں نے اور انقلابی سوچ رکھنے والے پیپلز پارٹی کے رہنما نوید چودھری اور ہمارے دلاور چودھری نے بڑے جذبے سے خطاب کیا اور بڑی ہلچل محفل میں مچ گئی۔
قیوم نظامی قاضی سعد اختر یحیٰی مجاہد، آصف عنایت بٹ، کاشف سلمان، ممتاز اعوان، ناصر چوہان، محمد رضا یونس ملک اور کئی دوسرے دوستوں نے بات کی۔ بہت متحرک خاتون شاعرہ ڈاکٹر نبیلہ طارق، نیلما درانی، فرحت پروین، بینا گوئندی نے بہت دلگداز نظمیں سنائیں۔ حاضرین کے جوش و خروش سے لگتا تھا کہ سب لوگ اس اجلاس میں شریک گفتگو ہیں۔ حیرت ہوئی کہ آج شاہد رشید اس تقریب میں نہ تھے۔ وہ ہوتے تو یہ تقریب نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی سمجھی جاتی۔ اب یہ ناصر اقبال خان کی سرگرمی تھی جسے ناز بٹ کی کمپیئرنگ نے زندہ تر کر دیا۔ اب تو لگتا ہے کہ شہر میں تقریباتی سرگرمی نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں ہوتی ہے اور ناصر اقبال خان کچھ نہ کچھ کرتا رہتا ہے۔
اپنے لہو میں پھول کھلانے کا وقت ہے
ہر دل ہے آج خطۂ کشمیر کی طرح