• news

صوبے کا برا حال کردیا گیا‘ سندھ حکومت کیسے چل رہی ہے: سپریم کورٹ

کراچی(صباح نیوز‘ نوائے وقت رپورٹ)سپریم کورٹ کے جسٹس گلزار احمد نے سندھ حکومت پر شدید اظہارِ برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ لوگ کس طرح حکومت چلارہے ہیں،سندھ کا برا حال کردیا گیا ہے کیا اس لئے حکومت دی جاتی ہے؟ کراچی کا شمار دنیا کے 10 بڑے شہروں میں ہوتا ہے لیکن اس شہر کو ایڈہاک پرچلایا جارہا ہے، جس شخص کو قائم مقام میونسپل کمشنر بنایا گیا اسے کچھ علم نہیں، اس عمارت سے باہر نکلیں تو مسائل ہی مسائل ہیں‘ یہ صورتحال ہمارے لئے ناقابل قبول ہے،کسی کو کوئی احساس نہیں کیا ہورہا ہے اگر کراچی کو اب نہ سنبھالا گیا تو یہ کبھی بھی نہیں سنبھلے گا۔ہفتہ کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں مستقل میونسپل کمشنر کی تقرری نہ کرنے کے معاملے پر کیس کی سماعت ہوئی۔جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ کسی کو کوئی احساس نہیں کیا ہورہا ہے‘ اگر کراچی کو اب نہ سنبھالا گیا تو یہ کبھی بھی نہیں سنبھلے گا کچھ تو اپنی عزت کا خیال رکھیں۔ایڈوکیٹ جنرل سندھ ضمیر گھمرو نے کہا کہ میں سندھ حکومت سے بات کرتا ہوں معاملہ حل کرلیں گے۔عدالت نے ڈی جی کے ڈی اے کے وکیل سے استفسار کیا کہ شہر میں قبضوں کا ذمہ دار کون ہے۔ واگزار کرنے کے بعد پلاٹوں کا کیا کیا ۔ان کا تحفظ کون کرے گا۔ ان پلاٹوں کو گرین بیلٹ میں تبدیل کرتے جائیں، اور جو باقی رفاعی پلاٹوں پر قبضے کئے گئے ہیں ان کے قبضے کب ختم کرائے جائیں گے۔ فٹ پاتھوں پر ہریالی کیوں نہیں کی جاتی یہ کس کا کام ہے۔ ہم کسی پر تنقید کرنے کے لئے نہیں بیٹھے۔ حکومت کی مدد کے لئے بیٹھے ہیں۔ کے ڈی اے وکیل نے کہا کہ ماسٹرپلان سے مزید تفصیلات طلب کی ہیں، برسوں کا کام ہے کچھ وقت دیں۔ ہمارے پاس مشینری کی کمی ہے۔ جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا دنیا کہاں سے کہاں چلی گئی ہے اور آپ کے پاس مشینری نہیں ہے آپ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔ اگر مشینری نہیں ہے تو ادارہ بند کردیں۔ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے جواب دیا کہ میں یہ معاملہ حل کرتا ہوں اور کے ڈی اے کو وسائل دینے کے لئے تیار ہیں جلد ہی معاملہ حل کرلیں گے۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ آپ کیا کریں گے آپ چھوڑیں چیف سیکرٹری کو ابھی بلائیں۔ ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے جواب دیا کہ چیف سیکرٹری کو شدید بخار ہے، عدالت نے ریمارکس دیئے کہ سندھ حکومت کیسے چل رہی ہے۔عدالت نے رفاعی پلاٹوں پر قبضے کے متعلق کے ڈی اے کی رپورٹ مسترد کردی۔ جسٹس گلزارنے ریمارکس دیئے کہ رپورٹ دیکھی ہے، اس میں کچھ نہیں۔ سب کچھ آپ کی ناک کے نیچے ہو رہا ہے۔شادی ہال اب بھی چل رہے ہیں ، ہوٹلوں کو دیکھیں فٹ پاتھ پر قبضے کررکھے ہیں۔ ہوٹلوں کو کس نے اختیار دیا کہ وہ سڑکوں پر قبضے کریں۔ یہ سب کچھ کے ایم سی،ڈی ایم سی کی ناک کے نیچے ہو رہا ہے۔ ہمیں سخت ایکشن لینے پر مجبور نہ کریں، بلا تفریق کارروائیاں کیوں نہیں کر رہے؟جسٹس گلزار نے سوال کیا کہ بتایا جائے کراچی میں کتنے رفاعی پلاٹوں پر قبضے ہیں ؟ کیا ایف آئی اے اور نیب سے تحقیقات کرائیں؟ پھر نیب، ایف آئی اے آپ لوگوں کو بھی ساتھ لے جائے گی۔ایکسپوسنٹر کے ساتھ رفاعی پلاٹ پرشادی ہال کیسے چل رہے ہیں۔پی آئی اے والے کیسے شادی ہال چلا رہے ہیں،پی آئی اے سے پلاٹ واپس لیں اور پارک بنائیں،یونیورسٹی روڑ پر رات کو ہوٹل سڑک پرچلائے جارہے ہیں۔بتایا جائے سٹرک پر چلنے والے کتنے ہوٹل ختم کرائے؟

ای پیپر-دی نیشن