کراچی سنٹرل جیل توڑنے کا منصوبہ ناکام خطرناک قیدی اندرون سندھ جیلوں میں منتقل
کرا چی (کرائم رپورٹر) دہشت گردوں کی جانب سے کراچی سنٹرل جیل کو توڑنے کا منصوبہ ناکام بناتے ہوئے سندھ حکومت نے انتہائی خطرناک قیدیوں کو اندرون سندھ کی مختلف جیلوں میں منتقل کردیا اور جیل حکام کو سختی سے ہدایت کردی ہے کہ قیدیوں کی نقل وحرکت اور جیلوں کی تفصیلات سے متعلق کسی کو بھی آگاہ نہ کیا جائے۔ ذرائع کے مطابق وفاقی انٹیلی جنس اداروں کے سندھ میں تعینات سربراہوں نے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کو خفیہ رپورٹ کے ذریعے آگاہ کیا تھا کہ کچھ گرفتار ملزمان نے انکشاف کیا ہے کہ کراچی سینٹرل جیل کو توڑنے کا منصوبہ بنا لیا گیا ہے اور جہادی تنظیموں کے قید ملزمان کو فرار کرایا جائے گا۔ خفیہ اداروں کی رپورٹ کی روشنی میں وزیراعلیٰ نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے آئی جی جیل خانہ جات کو حکم دیا ہے کہ فوری طور پر جہادی اور خطرناک قیدیوں کو اندرون سندھ کی مختلف جیلوں میں منتقل کردیا جائے جس کے بعد گذشتہ ماہ 28 جہادی اور خطرناک قیدوں کو سکھر، لاڑکانہ اور نارا جیل منتقل کردیا گیا۔دوسری جانب کالعدم جماعت لشکر جھنگوی کے2ہائی پروفائل قیدیوں شیخ محمد ممتاز عرف فرعون اور محمد احمد خان عرف منا کے کراچی سنٹرل جیل سے فرار ہونے کے واقعے کی تحقیقاتی رپورٹ میں جیل میں سیکیورٹی کے ناقص انتظامات اور بدترین اندرونی صورت حال کے حوالے سے سنسنی خیز انکشافات سامنے آئے ہیں۔مذکورہ رپورٹ کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل ثنا اللہ عباسی نے آئی جی سندھ کو پیش کردی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کراچی سنٹرل جیل کا انتظام جیل انتظامیہ کے بجائے جہادی قیدی چلارہے ہیں ، جیل کے اسٹاف پر ان کی مرضی چلتی ہے اور جیل کا اسٹاف خوف یا نااہلی کے باعث ان قیدیوں کی ہدایات پر عمل کرتا ہے نتیجتاً جیل کے قیدی ہی کورٹ کلرک اور مددگار بنے ہوئے ہیں اور وہ ہی جیل کے وارڈز اور کھولیوںکو کھولنے کا انتظام سنبھالتے ہیں، انہی جہادیوں نے خود کو وارڈز کا ذمے دار بنایا ہوا ہے ، ایسے قیدیوں نے جیل کے اندر خفیہ طور پر سہولتیں حاصل کر رکھی ہیں، ایسے قیدی جہادی قیدی حافظ رشید اور سرمد صدیقی اور ایم کیو ایم کے منہاج قاضی کی طرح جیل کے ڈان بنے ہوئے ہیں اور وہ جیل کے باہر اپنے نیٹ ورک کو کنٹرول کرتے ہیں۔رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیاہے کہ کراچی سنٹرل جیل کے قیدی اپنے کورٹ پروڈکشن آرڈر بھی خود ہی ایک دوسرے کو پہنچاتے ہیں، حتیٰ کہ قیدیوں سے ملنے کے لیے آنے والے ملاقاتیوں کا انتظام بھی قیدیوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیاہے کہ جیل اسٹاف کو جہادی قیدیوں کی جانب سے مسلسل دھمکیاں ملتی رہتی ہیں، حافظ قاسم رشید جیسے قیدیوں کو کئی مرتبہ سرعام یہ کہتے ہوئے سنا گیا ہے کہ وہ آئی جی جیل خانہ جات کے بھائی کے قتل کے ذمے دار ہیں اور وہ کسی بھی جیل سٹاف کو باآسانی قتل کراسکتے ہیں، اس وجہ سے جیل کا سٹاف مکمل طور پر دباؤ میں ہے اور ان کا جہادی قیدیوں پر حکم نہیں چلتا۔رپورٹ میں جیل میں سکیورٹی کے ناقص انتظامات کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ جیل کے ساتھ زیرتعمیر جوڈیشل کمپلیکس پر کئی ٹھیکے دار کام کر رہے ہیں، اس سلسلے میں مضبوط شواہد ملے ہیں کہ فرار ہونے والے قیدی باہر کے سہولت کاروں کی مدد سے جیل توڑ کر فرار ہوئے جو مزدوروںکے روپ میں آئے ہوںگے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ جیل کے 15 افسران واہلکاروں کو گرفتار کیا گیا ہے لیکن جیل میں کئی ایسے مشتبہ قیدی موجود ہیں جن پر شک ہے کہ انہوں نے فرار ہونے والے قیدیوں کے فرار میں مدد کی۔ انہوں نے سیکرٹری داخلہ سندھ قاضی شاہد پرویز نے ذرائع کو بتایا کہ اپیکس کمیٹی کے فیصلے کی روشنی میں آئی ایس آئی اور کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کی جانب سے فراہم کردہ فہرست کے مطابق تمام ہائی پروفائل قیدیوں کو مختلف جیلوں میں منتقل کردیا گیا ہے۔