ملتان آرٹس کونسل اور ریڈیو ملتان
سلیم ناز
nazsaleem80@yahoo.com
گزشتہ ایک کالم میں ملتان آرٹس کونسل میں کچھ عرصہ قبل تک الو بولنے کا ذکر کیا گیاتھا۔ ہماری اس بات کی تصدیق ریذیڈنٹ ڈائریکٹر سجاد جہانیہ نے ریڈیو پاکستان ملتان کے اشتراک سے منعقدہ سر کا سفرکی تقریب میں کی کہ آرٹس کونسل کی سٹیج کے اوپر چھت پر چمگادڑوں نے بسیرا کر رکھا ہے۔ وہ کہہ رہے تھے کسی بھی وقت ہال میں داخل ہوتے تو ’’ہو‘‘ کا عالم ہوتا تھا۔ اﷲ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اب اس ہال کی رونقیں بحال ہوئی ہیں۔ یہ حقیقت ہے پچھلے تین ماہ کے دوران یہاں برپا ہونے والی ثقافتی سرگرمیوں سے کونسل کا پرانا دور لوٹ آیا ہے۔ محفل موسیقی ہو یا سٹیج ڈرامہ ہال شائقین سے کھچا کھچ بھرا ہوتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ریڈیو پاکستان ملتان جیسے ادارے نے بھی سروائیو کرنے کیلئے آرٹس کونسل کا سہارا لینا شروع کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق چونکہ ریڈیو ملتان سٹیشن کے پاس اس قدر فنڈز نہیں ہیں کہ وہ تقریبات کے ذریعہ لائیو پروگرام دکھا سکیں۔ ویسے بھی آج کل سامعین کم اور ناظرین کی تعداد زیادہ ہو گئی ہے۔ لوگ سننے سے زیادہ دیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ دوسری طرف ریڈیو ملتان کا یہ زعم برقرار ہے کہ ہمارے لسنرز میں کوئی کمی واقع نہیں حالانکہ ریڈیو ایف ایم یا میڈیم وے بہ امر مجبوری وہاں سنا جاتا ہے جہاں دیکھنے کی کوئی چیز نہ ہو۔ ورنہ سمارٹ فون تو ہر ہاتھ میں پایا جاتا ہے۔ خیر ’’سر کا سفر‘‘ جو آرٹس کونسل اور ریڈیو پاکستان ملتان کی مشترکہ کوشش تھی اس لحاظ سے کامیاب رہی کہ مقامی گلوکاروں نے اپنی مسحور کن آواز وں سے خوب رنگ جمایا۔ آرٹس کونسل کی یہ کوشش بھی قابل تحسین ہے کہ کوئی بھی پروگرام وقت پر شروع ہو اور دس بجے تک اس کا اختتام ہو جائے۔ سُر کے اس سفر کا آغاز بھی 8 بجے ہوا۔ ہال میں فرنٹ لائن پرریڈیو پاکستان ملتان کے سٹیشن ڈائریکٹر مختار ملک‘ ریذیڈنٹ ڈائریکٹر آرٹس کونسل سجاد جہانیہ‘ پروفیسر مصطفی‘ راؤ عمر دراز‘ قسور حیدری‘ عذیر سلیم‘ وائس چانسلر ایجوکیشن یونیورسٹی‘ پروگرام منیجر ڈاکٹر خالد اقبال ‘ پروڈیوسر رضوانہ درانی‘ ممتاز صنعتکار میاں مغیث شیخ اور دیگر مہمان براجمان تھے۔ ریڈیو پاکستان ملتان کے پروگرام منیجر ریاض میلسی اور عروج نے سٹیج سیکرٹری کے فرائض بخوبی نبھائے۔ ریاض میلسی کے چٹکلوں نے محفل کو کشت زعفران بنائے رکھا۔ اس موقع پر ان کی ایک ایسی عادت بھی کھل کر سامنے آئی کہ وہ ساتھی کمپیئر کی بعض باتوں پر ایسے سرپیٹ کر رہ جاتے جیسے وہ گھر میں بیگم کی ڈانٹ پر سر پیٹتے ہیں۔ تاہم ان کا یہ منفرد انداز اور گفتگو نے دلچسپی کا ساماں پیدا کئے رکھا۔ جن گلوکاروں نے اردو‘ پنجابی اور سرائیکی میں اپنی اپنی آوازوں کا جادو جگایا ان میں عارف خان بابر‘ ساجد ملتانی‘ ثوبیہ ملک اور عروج خان شامل تھے۔ عروج کی خوبصورت آواز سننے کے بعد پیچھے بیٹھے سامعین اپنا تاثر ضرور تبدیل کیا ہو گا جو کہہ رہے تھے اگر یہ عروج ہے تو زوال کیا ہو گا؟ عارف خان بابر ریاض میلسی کے اعلان کے بعد قسمیں کھا کر سامعین کو یقین دلاتے رہے کہ ’’میڈی صرف ہکو شادی اے‘‘ کمپیئر نے میرا واحد اثاثہ ’’ہکو زال‘‘ کو بدگمان کرنے کی کوشش کی ہے۔ ثوبیہ ملک اور سجاد ملتانی کی مترنم آوازوں پر جھومتے ہوئے سامعین نے دل کھول کر داد دی۔
سٹیشن ڈائریکٹر ریڈیو پاکستان ملتان مختار ملک پر تو موسیقی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ اس لئے وہ تمام وقت سلفیاں بنا کر خوبصورت لمحات کو موبائل کیمرے میں محفوظ کرنے میں مگن رہے۔ حالانکہ ان کا ماتحت عملہ یہ فریضہ بخوبی سرانجام دے رہا تھا۔ ریذیڈنٹ ڈائریکٹر آرٹس کونسل سجاد جہانیہ اپنے ’’عہدے کی لاج‘‘ رکھتے ہوئے کرسی پر چپک کر بیٹھے رہے کیونکہ جس طرح سُر بول رہے تھے خطرہ تھا کہ وہ کھڑے ہو کر سُروں میں شامل نہ ہو جائیں۔ کیونکہ ا نہوں نے اپنے اعزاز میں منعقدہ تقریب میں بھی آصف کھتران کے ساتھ رقص و سرود کو یکجا کر کے سامعین کو جھومنے پر مجبور کر دیا تھا۔ یہ یادگار محفل رات گئے تک یونہی جاری رہتی مگر لوڈشیڈنگ کے خوف سے دس بجے کے بعد سروں کی محفل ختم کرنا پڑی۔ قبل ازیں سٹیشن ڈائریکٹر ریڈیو پاکستان ملتان مختار ملک نے کہا گلوکاروں کی حوصلہ افزائی‘ نیا ٹیلنٹ سامنے لانے اور شہریوں کی تفریح کیلئے اس قسم کے پروگرام جاری رکھے جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا ریڈیو پاکستان ملتان سامعین کی دلچسپی بڑھانے اور انہیں بہتر تعلیم اور تفریح کی فراہمی کیلئے اپنے پروگراموں کو مزید بہتر بنا رہا ہے۔ ریذیڈنٹ ڈائریکٹر ملتان آرٹس کونسل سجاد جہانیہ نے اپنے خطاب میں کہا آرٹس کونسل ہال میں روزانہ کی بنیاد پر تقریبات شروع کی گئی ہیں اور ریڈیو پاکستان کے اشتراک سے ایسے پروگراموں کا انعقاد جاری رہے گا۔