• news
  • image

مشاہد حسین کی سیاسی بصیرت اور ایک اولڈ راوین

میں مشاہد حسین کے لیے لکھنے والا تھا کہ وہ ن لیگ میں اس طرح شامل ہوئے جس طرح ن لیگ سے ق لیگ میں شامل ہوئے تھے مگر آج صبح سویرے مجید منہاس میرے پاس تشریف لائے۔ وہ کبھی کبھی آ جاتے ہیں اور ہم مجدد نعت، پاکستان کے سب سے بڑے شاعر، نعت رسول کی روشنی سے بنے ہوئے حفیظ تائب کو یاد کرتے ہیں اور اپنے دلوں کو عشق رسول کی بے قراریوں اور سرشاریوں سے آباد کرتے ہیں۔
شان محبوب خدا کس سے بیاں ہو تائب
کیسے اک ذرے کو آفاق کا اندازہ ہو
میں نے کالم کے آغاز میں ایک جملہ مشاہد حسین کے لیے لکھا ہے، یہ کیسی سیاسی ”بصیرت“ ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت میں جانے کے لیے سیاستدان ایک معیار سامنے رکھتے ہیں مگر اس سے کوئی فائدہ مشاہد حسین کو نہیں ہو گا۔آج نواز شریف کو اقتدار حاصل ہے اور شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب ہیں۔ کل کوئی اور وزیراعلیٰ پنجاب ہو گا۔ وہ خود تو کبھی وزیراعلیٰ پنجاب نہیں بن سکتے؟ بہرحال وفاقی وزیر تو وہ بنتے رہے ہیں۔ ہر وزیر شذیر وزیراعظم یا وزیراعلیٰ بننے کا خواب دیکھتا رہتا ہے۔
ان کے بڑے بھائی مواحد حسین میرے بہت دوست ہیں مگر وہ امریکہ چلے گئے ہیں اور وہیں کے ہو گئے ہیں۔ ان کا امریکہ جانا مشاہد حسین کے لیے اطمینان کا باعث ہے۔ ان کے والد محترم حمید نظامی کے دوست تھے۔ مجید نظامی بھی ان کی عزت کرتے تھے۔ مشاہد حسین ایک دانشور سیاستدان ہیں۔ ہمارے ملک میں دانشور سیاستدانوں کی بہت کمی ہے۔ البتہ دانشمندانہ سیاستدانوں کی اکثریت ہے۔ مشاہد حسین کے سنیٹر بننے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ جو اپنی ”دانش“ اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
آج ”صدر“ زرداری نے لاہور کے تاریخی مقام موچی گیٹ پر جلسہ عام سے خطاب کیا ہے۔ یہ بڑا جلسہ یوم کشمیر پر منعقد کیا گیا ہے۔ یہ ایک علامت ہے کہ ہم کشمیر کو پاکستان سے الگ نہیں سمجھتے۔ ”کشمیر بنے گا پاکستان“ اس سے پہلے یہ ہونا چاہیے ”پاکستان بنے گا کشمیر“۔
ہم ”صدر“ زرداری کے اس وژن کو سلام کرتے ہیں کہ یوم کشمیر اور یوم پاکستان میں کوئی فرق نہیں رہنے دیا۔ چودھری شجاعت نے بھی زرداری صاحب سے ملاقات کی ہے۔ یہ اگلے کسی زمانے کی ابتدا ہے۔ ایک دوست نے میرے سامنے مشاہد حسین کے لیے ”لوٹا“ کے الفاظ استعمال کیے تو مجھے اچھا نہیں لگا۔ یہ ن لیگ کے لیے اعزاز ہے کہ وہ وہاں چلے گئے نجانے یہ بات شہباز شریف نے کس طرح کہہ دی اور یہ بات انہوں نے مشاہد حسین سے ملاقات کے موقع پر کہی کہ ترقی کے مخالف سن لیں۔ ہم خوشحالی کا ایجنڈا مکمل کریں گے اور 2018ءمیں بھی ن لیگ ہی جیتے گی۔ یہ ”خوشخبری“ انہوں نے مشاہد حسین سے ملاقات پر سنائی۔ مشاہد حسین پہلے بھی ن لیگ میں تھے۔ خوشحالی نہیں آئی تھی۔ اب شاید وہ کسی دوسری طرح ن لیگ میں آئے ہیں؟
ممتاز شیخ لاہور آئے تو ایک تقریب ان کے لیے اور ان کے ادبی میگزین ”لوح“ کے لیے منعقد کی گئی۔ صدارت ایم ایس ایم ظفر نے کی۔ شہباز شیخ نے نظامت سنبھالی اور پھر یہ ذمہ داری بہت معروف شاعر اور ممتاز کمپیئر ناز بٹ کے سپرد کر دی۔ جنرل شاہد اقبال ڈاکٹر سعادت سعید افتخار مجاز قمر رضا بھٹی حمیدہ شاہین طارق نعیم رخشندہ نوید ایوب خاور، غلام حسین ساجد، خالد شریف اقبال سہوانی کراچی، ڈاکٹر صائمہ ارم شاہدہ دلاور شاہ، عباس تابش جواز جعفری، مظہر سلیم مجوکہ، سعید مہدی، حمیدہ شاہین، غافر شہزاد اور سلمان طارق بٹ کے علاوہ بھی تقریباً سب لوگوں نے خطاب کیا جو محفل میں موجود تھے۔ ہمیں ممتاز شیخ کی مقبولیت کا اندازہ ہوا کہ کہاں کہاں سے لوگ انہیں ملنے چلے آئے۔ ممتاز شیخ پنڈی میں اتنے متحرک نہیں ہیں۔ وہ سچے پکے اولڈ راوین ہیں۔ اب اولڈ راوین واقعی اولڈ ہو چکے ہیں۔ ان کے لیے ایک خوشگوار ماحول بنانا بڑی بات ہے۔ اس کے لیے ممتاز شیخ ہم سب کے شکریے کے مستحق ہیں۔
بے نیازیاں

epaper

ای پیپر-دی نیشن