ہمیں یونس خان، مصباح اور رزاق کی ضرورت نہیں!!!!
بہت دن ہوئے ٹیلی ویژن چینلز، اخبارات اور پھر سوشل میڈیا پر پاکستان انڈر نائنٹین ٹیم کی کارکردگی اور اس سطح پر کوچنگ سٹاف کی تعیناتی کے حوالے سے بحث جاری ہے اسکی بنیادی وجہ بھارت کی انیس سال سے کم عمر کرکٹرز کی ٹیم تربیت و رہنمائی کا ذمہ نامور کرکٹر راہول ڈریوڈ انجام دے رہے ہیں اور انہوں نے اپنے ملک کے لیے عالمی کپ بھی جیت لیا ہے۔ کیا بھارت عالمی کپ نہ جیتتا تو یہ بحث نہ ہوتی کہ جونئیر لیول پر ہمارا کوچ کون ہونا چاہیے، یقینا ہوتی لیکن اتنی شدت سے نہ ہوتی اب ہمارے ساتھ دو مسائل ہیں ایک یہ کہ ہم نے نہ چاہتے ہوئے بھارت کی کامیابی کو ہضم کرنا ہے دوسرا اپنے نظر انداز کرکٹرز کو اس طرف راغب کرنا اور کرکٹ بورڈ حکام کی توجہ اس اہم مسئلے کی طرف دلانا ہے۔ ان دونوں مسائل کے حل میں یقینا ہم ناکام رہیں گے کیونکہ بھارت کی شکست کبھی ہضم نہیں ہو سکتی نہ ہمارے کرکٹرز نظام میں آنے کے لیے اپنی انا کے خول سے باہر نکلیں گے اور نہ ہی کرکٹ بورڈ کبھی یہ چاہے گا کہ کسی اپنے عظیم کھلاڑی کو جائز عزت مرتبہ و مقام دیکر فیصلہ سازی میں شامل کرے۔
ان دنوں ہونیوالی ساری بحث کا مرکزی خیال ہی یہ ہے کہ ہمارے ہاں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا کہ ہم اپنے عظیم کرکٹرز کو نوعمر پلئیرز کی کوچنگ کی ذمہ داری کیوں نہیں دے سکتے،ہم اپنے عظیم کھلاڑیوں کی صلاحیتوں اور تجربے سے فائدہ کیوں نہیں اٹھاتے، ہم اپنے بہترین کرکٹرز کو نظام سے کیوں دور رکھتے ہیں، ہم غیر ملکیوں کے نخرے کیوں اٹھاتے ہیں، ہم اپنے پلئیرز کے ساتھ بات کرتے ہوئے انا کے خول سے باہر کیوں نہیں نکلتے؟؟؟
ایک طرف راہول ڈریوڈ کوچنگ کر رہے تھے تو دوسری طرف منصور رانا پاکستان انڈر نائینٹین ٹیم کے کوچ کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے۔ کیا واقعی اس سطح پر کوچنگ اتنا اہم کردار ادا کر سکتی ہے کہ ایک کامیاب کرکٹر کی موجودگی سے منظر نامہ بدل جائے،کیا ہم ایسا کر سکتے ہیں، ہم ایسا کیوں نہیں کریں، ہم ایسے فیصلے کب کریں گے؟؟
ہم ایسا کبھی نہیں کریں گے ہمارے لیے جونئیر سطح پر کوچنگ سٹاف کی تعیناتی کرتے ہوئے میرٹ سے زیادہ تعلقات اور دوستیاں اہم سمجھی جاتی ہیں، ہمارا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ ایک نئی ٹیم تشکیل دینی ہے مستقبل کے سٹارز تیار کرنے ہیں ہمارا مقصد اپنے من پسند کو دورے کروانا اسکو مالی فائدہ دینا اور اسکی سی وی کا وزن بڑھانا ہوتا ہے۔ ہم اس سوچ کے ساتھ کام کرتے ہیں کہ اگر فلاں یہ کام کر سکتا ہے تو ہمارا(من پسند) بھی کر لے گا۔ ایسی سوچ اور حکمت عملی سے ٹیمیں کہاں بنا کرتی ہیں؟؟ ہم جونئیر سطح پر کوچ مینجر مقرر کرتے کرکٹ کے مستقبل کے بجائے اپنے اور دوستوں کے مستقبل کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ہم اپنے لوگوں کے ناز اٹھانے کے بجائے غیروں کی خوشامد میں زیادہ خوشی محسوس کرتے ہیں۔ یہی حال ہمارے عظیم کھلاڑیوں کا ہے وہ باہر والوں کے ساتھ بات اور کام کرتے ہوئے اپنا طرز عمل پیشہ وارانہ رکھتے ہیں اپنے ملک میں کام کرتے ہوئے "انا" کو بنیادی اہمیت دی جاتی ہے۔ ہمارے بڑے کھلاڑی کوچ بنکر بھی خود کو سٹار سمجھتے ہیں۔
کامیاب کرکٹر کا کامیاب کوچ ہونا ضروری نہیں ہے لیکن جو تجربہ کامیاب کرکٹ کھیلے ہوئے کرکٹر کا ہے وہ کسی اور کا نہیں ہو سکتا لیکن ہم یہ ماننے کو تیار نہیں۔ ہمارا ہر بڑا نام صرف بڑی ٹیم کے ساتھ کام کرنا چاہتا ہے اور جو بڑا نام چھوٹی ٹیم کے ساتھ کام کرنے کا خواہشمند ہے ہماری "انا" اسکے جذبے اور صلاحیت سے زیادہ اہم ہے سو اسے ہم لے نہیں سکتے۔ ہم نے چھوٹی کرکٹ کے کوچ مینجر کو تعینات کرتے ہوئے یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ وہ سمندر کنارے شہر سے ہے وہاں بیٹھے افراد خوش ہو جائیں گے۔ کبھی سوچتے ہیں کہ فلاں کو کر دیں اسکا تعلق اولیا کی سر زمین سے ہے وہاں والوں کا بھی منہ بند ہو جائیگا، کبھی سوچتے ہیں کہ وفاقی دارالحکومت والوں کو خوش کرنے کے لیے فلاں کو کر دو،کبھی سوچتے ہیں کہ فلاں کو کر دو اسکی لابی بورڈ کے اندر بہت مضبوط ہے،فلاں کو کر دو کوئٹہ کے بھائی خوش ہو جائیں گے،فلاں کو کر دو پنجاب والوں کو بھی تو خوش رکھنا ہے۔ جب فیصلے ایسے ہونگے تو تعمیر کیسے ہو گی؟؟
اس لیے ہمیں یونس، مصباح، عبدالرزاق کی ضرورت نہیں ہے، کرکٹ بورڈ کو سماعت، بصارت اور سوچ سے محروم ایسے ضرورت مندوں کی ضرورت ہے جو انکی ضرورت پوری کر سکے۔ ہمیں مکی آرتھر اور مارک کولز پسند ہیں جو ہم سے پیسے بھی لیں گے نخرے بھی دکھائیں گے باتیں بھی سنائیں گے اور سب کچھ سمیٹ کر گھر کو چلے جائیں گے۔ اور ٹیم کی بہتری کے لیے خواہ کچھ بھی نہ کریں۔
ہمیں اپنے عظیم اور فکری لوگوں کے بجائے ایسے کھلونوں کی ضرورت ہے جنکا ریموٹ کنٹرول کسی اور کے پاس ہو۔ کوئی کہے بیٹھو وہ بیٹھ جائیں کوئی کہے کھڑے ہو جاﺅ وہ کھڑا ہو جائے کوئی کہے دن ہے تو کہیں دن ہے کوئی کہے رات ہے تو کہیں رات ہے۔ کیا مختکف کام کرنیوالے، اپنی کارکردگی سے فرق ڈالنے والے ایسے ہوتے ہیں؟؟؟
سو ہمیں یونس،مصباح اور عبدالرزاق کی نہیں، ضرورت مندوں کی ضرورت ہے۔