بدھ ‘ 20 ؍ جمادی الاوّل‘1439 ھ ‘ 7؍ فروری 2018ء
میمو گیٹ کا دوبارہ کھولنا سیاسی تماشہ ہے، بابا رحمتے کے کہنے پر پاکستان نہیں آئوں گا: حسین حقانی
یہ تو بڑی شرم کی بات ہے۔ حقانی صاحب آپ پاکستان سے باہر بھی تو اسی بابا رحمتے کے کہنے پر جا سکے تھے ورنہ آج بھی کسی جیل میں یا نامعلوم قید خانہ میں اسیری کے دن بسر کر رہے ہوتے، ویسے یہ بھی ممکن ہے کسی نیک طینت ڈاکٹر عاصم کی بدولت ہمارے باقی طبقہ اشرافیہ کے قیدیوں کی طرح کسی عمدہ ہسپتال میں بیماری کی اداکاری کر کے ’’کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے‘‘ کے مزے لوٹ رہے ہوتے۔ یہ تو بڑی گھٹیا بات ہے کہ حقانی صاحب امریکہ میں بیٹھ کر اسی بابا رحمتے کا مذاق اڑا رہے ہیں جن کی وجہ سے آج امریکہ میں بیٹھ کر بونگیاں مار رہے ہیں۔ سچ کہتے ہیں جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو۔
میمو گیٹ بدنامی کا وطن دشمنی کا ایک ایسا داغ ہے جو حسین حقانی کے دامن کا ہی نہیں روح کا داغ بھی بن چکا ہے، جب تک یہ دھلے گا نہیں انہیں آئینہ میں بھی اپنا چہرہ داغدار ہی نظر آئے گا۔ اگر وہ اسے تماشہ اور وہ بھی سیاسی تماشہ سمجھتے ہیں تو پھر ڈرنا کیسا…! یہ سب کھیل تماشے تو برسوں سے چل رہے ہیں۔ یاد رکھیں غداری، وطن دشمنی اور کھیل تماشے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ غلطیاں کیا خون بھی معاف ہو سکتا ہے مگر وطن سے غداری اور ملک دشمنی کبھی معاف نہیں ہو سکتی۔ اگر وہ سچے ہیں تو آ کر اپنے دامن کا یہ داغ دھو ڈالیں جو میمو گیٹ سکینڈل کہلاتا ہے۔ اس کام میں وہی بابا رحمتے ہی آپ کی مدد کر سکتا ہے! جس کی مہربانی سے آپ امریکہ میں مزے اڑا رہے ہیں۔
٭…٭…٭…٭
ساڑھے چار برس میں کشمیر کمیٹی کے 8 اجلاس، بجٹ دیگر کمیٹیوں سے زیادہ نکلا
یہ ہیں ہمارے سب سے اہم مسئلہ کیلئے قائم کی گئی کشمیر کمیٹی کے حالات۔ بجٹ اس کمیٹی کا سب سے زیادہ ہے اور کارکردگی زیرو! ساڑھے چار برسوں میں صرف 8 اجلاس کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کتنی فعال کمیٹی ہے جو پاکستان کے سب سے اہم ایشو کو دنیا بھر میں اجاگر کرنے کی ذمہ دار ہے مگر اسکی حالت یہ ہے کہ یہ کمیٹی صرف اپنے حصے کا بجٹ کھانے کے لئے رہ گئی ہے۔ اس سے ہماری حکومتوں کی کشمیر کاز سے حقیقی دلچسپی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ جس کمیٹی کے چیئرمین کی تقرری بھی سیاسی بنیادوں پر ہوتی ہو اسکی کارکردگی بھی پھر ظاہر ہے ایسی ہی ہو گی۔ صرف اس کا کیا رونا ہو… باقی صوبائی اسمبلیوں کا علم نہیں پنجاب اسمبلی میں یوم یکجہتی کشمیر پر جو اجلاس طلب کیا گیا اس میں صرف 40 سے 60 تک ارکان شریک تھے۔ پیپلز پارٹی کے سارے ارکان اپنے قائد کے جلسے کیلئے بندے پہنچانے پر مامور تھے، اب باقی ارکان اسمبلی بھی جو غیرحاضر تھے کہہ سکتے ہیں کہ وہ بھی یوم یکجہتی کشمیر منانے نکلے تھے حالانکہ اگر ایسا ہوتا تو ملک کے شاید کسی شہر میں ان کی شکل ہی دیکھنے کو مل جاتی مگر ایسا بھی نہ ہوسکااس لئے لگتا ہے کشمیر کمیٹی سے لے کر ہماری اسمبلیوں تک ہر جگہ کشمیر کی حالت ویسے ہی پتلی ہے جیسے مقبوضہ کشمیر میں آج کل بھارتی فوج اور حکومت کی حالت پتلی ہے۔
دھمکیوں پر پاکستان چھوڑ دیا، بیٹی کو بھی سکول سے اٹھا لیا ہے: ریحام خان
جب سے ریحام خان نے وڈے خان صاحب کے بارے میں شوخی گفتار دکھانا شروع کی ہے بقول ان کے انہیں مختلف طریقوں سے مختلف لوگوں سے دھمکیاں مل رہی تھیں جن سے خوفزدہ ہو کر انہوں نے پاکستان چھوڑا اور اپنی بیٹی کو بھی جو سکول میں پڑھ رہی تھی اٹھا دیا۔ بقول ریحام انہیں مختلف کرکٹرز نے بھی منع کیا تھا کہ خان صاحب کے بارے میں خاموش رہو۔ اب اتنے خطرات کے باوجود اگر ریحام نے زبان کھولی ہے تو ماننا پڑے گا کہ وہ بھی واقعی خان ہیں۔ ہمارے معاشرے میں خواتین کی جو حالت ہے شاید لندن میں رہنے والی ریحام اس سے واقف نہیں تھیں، امید ہے اب ریحام جان گئی ہوں گی جبھی تو جان بچانے کیلئے بیرون ملک چلی گئی ہیں۔ اب بھی وہ کہہ رہی ہیں کہ وقت اچھا آیا تو وہ پھر واپس آئیں گی۔ شاید عوام کو خان صاحب پر مبنی انکشافات کی باقی کہانی سنانے کیلئے۔ انہیں افسوس اس بات کا ہے کہ اس وقت کوئی سیاسی جماعت انکی حمایت میں نہیں بولی ان کے ساتھ کھڑی نہیں ہوئی۔ شاید اس وقت جب …؎
کون مصلوب ہوا کس پہ لگا ہے الزام
کشمکش ایسی ہے انصاف عدالت مانگے
والی حالت ملک میں چل رہی ہے تو ریحام کا ساتھ کون دے گا۔ یہاں تو سب کو اپنی اپنی پڑی ہے!
٭…٭…٭…٭
قزاقستان: مقابلہ حسن میں شامل سابق امیدوار مرد نکلا
اب اس نامعلوم شخص کی وجہ سے لوگوں کا اعتبار ہی ملکہ حسن کے ان عالمی مقابلوں سے اٹھنے لگ پڑے گا کیونکہ ان مقابلوں میں بڑی چھان پھٹک کے بعد شرکت کی اجازت ملتی ہے۔ اب یہ کیسے نادان ماہرین حسن تھے جنہوں نے ابتدائی مراحل میں اسکی تصاویر پھر اسکی بھولی بھالی حسین صورت دیکھ کر اسے مقابلے میں شرکت کے قابل قرار دیدیا، یہ تو اچھا ہوا کہ آخری مراحل میں اس شخص نے خود اپنا بھانڈا پھوڑ دیا کہ وہ عورت نہیں مرد ہے۔ دوسرے الفاظ میں لڑکی نہیں لڑکا ہے۔ شاید اسے اندازہ ہو گیا ہو گا کہ آخری مراحل میں جیوری ممبران خود جسامت و قدامت کا ظاہری و باطنی حسنِ تناسب کا جائزہ لے کر منتخب خواتین کو ہی مقابلے میں شرکت کی اجازت دیتے ہیں، اس موقع پر کچھ بھی چھپانا ممکن نہیں رہتا۔ اب یہ سب کچھ اس شخص نے شہرت حاصل کرنے کیلئے کیا تھا یا وہ یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ وہ کس طرح دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک سکتا ہے۔ وجہ جو بھی ہو کمال کی بات یہ ہے کہ موصوف اس میں پوری طرح کامیاب رہے۔ اب اس مقابلہ حسن کے منتظمین کو اپنی ساری ابتدائی شناختی ٹیم تبدیل کرنا پڑے گی جو مرد اور عورت کی تمیز نہ کر سکے ان کی شناخت حسن پر اعتبار کون کرے گا۔ یہ لوگ بھی …؎
میری سانسوں کی الجھی ڈور بن کر
مجھے الجھا گیا تھا کون تھا وہ
کہتے ہوئے اس شخص کے بارے میں ہی سوچ رہے ہونگے۔
٭…٭…٭…٭