مفاد عامہ کا نگہبان چیف جسٹس پاکستان
ریاست سوشل کنٹریکٹ (سماجی معاہدے) کی بنیاد پر چلتی ہے۔ پاکستان کا آئین سوشل کنٹریکٹ ہے جس میں شہریوں کے بنیادی حقوق درج کیے گئے ہیں۔ ریاستی اداروں کے سربراہ اور اراکین پارلیمنٹ حلف اُٹھاتے ہیں کہ وہ آئین کی پاسداری کرینگے۔ بات اس وقت بگڑتی ہے جب ریاست کے منصب دار انسانوں کی بجائے چیزوں(مال و دولت) سے پیار شروع کردیتے ہیں اور شہریوں کے بنیادی حقوق کے بجائے ذاتی اور سیاسی مفادات کو ترجیح دینا شروع کردیتے ہیں۔ گزشتہ دس سالہ (2008-18) کے جمہوری دور میں عام آدمی کے مفاد کو بری طرح نظرانداز کیا گیا۔
قومی دولت کی لوٹ مار کی نئی داستانیں رقم کی گئیں۔ افسروں، سیاستدانوں کے گھروں اور سمندری کشتیوں سے کرپشن کے اربوں روپے برآمد ہونے لگے۔ آلودہ زہریلے پانی کی وجہ سے ہیپا ٹائٹس اور دوسری جان لیوا بیماریاں تیزی سے بڑھنے لگیں۔ مفاد پرست حکمرانوں نے قوم کو نسل درنسل بیرونی قرضوں میں جکڑ دیا۔ شہری معیاری تعلیم اور صحت کی سہولتوں سے محروم ہونے لگے۔ سرمایہ داروں ، جاگیرداروں اور سیاسی جماعتوں نے مافیاز کی شکل اختیار کرکے عوام کا کھلا استحصال شروع کردیا۔ غریب اور لوئر مڈل کلاس کے بچے اغوا، جنسی ہوس کا شکار اور قتل ہونے لگے۔ پولیس عوامی خدمت کی بجائے سنگدل حکمرانوں کے مفادات کا ہتھیار بن گئی۔ حد سے بڑھی ہوئی کرپشن نے ریاستی اداروں کو کنگال کردیا۔ قومی دولت منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرونی ممالک منتقل ہونے لگی۔ قومی وسائل اقربا پروری کیلئے استعمال ہونے لگے۔ عوام لاوارث ہوگئے۔ آئین منجمد ہوگیا۔ سوشل کنٹریکٹ ٹوٹنے لگا اور ریاست کا اندرونی استحکام شدید خطرے میں پڑگیا۔
معاشی دہشت گردوں کا غرور اور گھمنڈ دیکھ کر اللہ کی حاکمیت جوش میں آئی اور اللہ تعالیٰ نے دراز رسی کھینچ لی اور عدلیہ کے باوقار ججوں کے دلوں سے ہر قسم کا خوف نکال کر ان کو مافیاز کیخلاف جہاد کی توفیق عطا کردی۔ چیف جسٹس پاکستان محترم ثاقب نثار نے مفاد عامہ کیلئے سوموٹونوٹس لے کر نئی تاریخ رقم کی ہے۔ ان کا بے مثال عزم ہے کہ پاکستان کے عوام کو آئین میں شامل بنیادی حقوق کیمطابق صاف پانی، شفاف ماحول، مناسب فیسوں پر معیاری تعلیم، سستے داموں صحت کی بنیادی سہولتیں ملیں، ان کی جان و مال اور عزت کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ پاکستان کے قومی لٹیرے جو دولت غیر قانونی ذرائع سے پاکستان سے باہر لے گئے ہیں وہ واپس لائی جائے تاکہ عوام کو بنیادی حقوق فراہم کیے جاسکیں۔ سعودی عرب اگر کرپٹ شہزادوں کو گرفتار کرکے ایک سوبلین ڈالر واپس لے سکتا ہے تو بیس کروڑ عوام کی ایٹمی ریاست کے مقتدر ادارے یہ کام کیوں نہیں کرسکتے۔ لوٹی ہوئی دولت پاکستان واپس آجائے تو ریاست بیرونی قرضوں کے شکنجے سے آزاد ہوسکتی ہے۔ چیف جسٹس پاکستان محترم ثاقب نثار پاک دل پاک باز شخصیت ہیں۔ جب قصور کی بیٹی زینب کے والد نے انکے روبرو عدالت میں المناک داستان سنائی تو چیف جسٹس کی آنکھیں نمناک ہوگئیں۔ ’’جو آنکھ ہی سے نہ ٹپکے وہ لہو کیا ہے‘‘۔ پاکستان کے نوجوان محافظ شہید ہوں۔ پولیس سیدھی گولیاں چلاکر چودہ معصوم شہریوں کا قتل عام کردے، غریب کی بچی اغوا ہو اور اسے جنسی ہوس کا شکار کرکے قتل کردیا جائے۔ عوام نے کبھی سیاستدانوں کے چہروں پر ملال اور آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھے۔ قحط الرجال کے اس دور میں چیف جسٹس پاکستان کا مفاد عامہ کے لیے آئینی عدالتی جہاد مجبور ، مظلوم اور بے بس پاکستانی قوم کے لیے اللہ تعالیٰ کا خاص انعام ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو آخر کار اسلامی جمہوریہ پاکستان پر رحم آگیا ہے اور اللہ نے قوم کو بابا رحمت عطا کردیا ہے۔بقول علامہ اقبال :۔
خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا
چیف جسٹس پاکستان نے جوڈیشل پالیسی ساز کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں پاکستانی قوم کو یقین دلایا ہے کہ عدلیہ کسی منصوبے کا حصہ نہیں بنے گی اور جمہوریت ڈی ریل ہوگئی تو وہ عہدہ چھوڑ دینگے۔ بڑے مگرمچھوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا پڑیگا وگرنہ ریاست لڑکھڑا جائیگی۔ نظریہ ضرورت دفن ہوچکا، گریٹ لیڈر اور منصف آگئے تو کوئی ترقی کو نہیں روک سکتا۔ چیف جسٹس پاکستان چوں کہ آئین کے ساتھ وفاداری نبھا رہے ہیں انکے کوئی سیاسی عزائم نہیں ہیں۔ وہ مگرمچھوں کا بلاتفریق احتساب کرکے عوام کا مقدر تبدیل کرکے خدا کی رضا اور خوشنودی کے طالب ہیں اس لیے انکے بارے میں پھیلائے گئے شکوک وشبہات انتہائی افسوسناک اور گمراہ کن ہیں۔ پاکستان سے محبت کرنیوالے عوام کبھی مفاد پرست حکمرانوں کے پروپیگنڈے میں نہیں آئینگے اور انصاف و احتساب کیلئے سیسہ پلائی دیوار کی طرح عدلیہ کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔ پاکستان فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔ آئینی انصاف اور احتساب سے کوئی مگرمچھ نہیں بچ سکے گا یہ اللہ اور تاریخ کا فیصلہ ہے۔ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کا رویہ غیر سیاسی، غیر جمہوری، غیر اخلاقی اور غیر آئینی ہے۔ وہ عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بناکر پاکستان کے سیاسی اور سماجی کلچر کو تباہ کررہے ہیں اور مجرموں کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ وہ اپنے خلاف عدلیہ کے فیصلوں کو مسترد کردیں۔ عدلیہ اور احتساب کے ادارے سیاستدان نہیں بلکہ مجرموں اور لٹیروں کا مساوی اور شفاف احتساب کررہے ہیں۔ اب کوئی لٹیرا سیاست کے پردے کے پیچھے چھپنے میں کامیاب نہیں ہوسکے گا۔ سابق وزیراعظم نے پشاور کے عوامی جلسے میں توہین عدالت کے مرتکب مسلم لیگ(ن) کے لیڈروں طلال چوہدری اور دانیال عزیز کو جس طرح ہلہ شیری دی وہ جمہوری اُصولوں اور آئینی تقاضوں کے سراسر منافی ہے۔ اگر میاں صاحب خدا سے ڈرنے کی بجائے اسی طرح ریاست کے مقتدر اداروں کو للکارتے رہے تو الطاف حسین کی طرح انکی تقریروں اور بیانات پر بھی پابندی لگ سکتی ہے۔
پاکستان کے وزیرداخلہ احسن اقبال کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر آمرجنرل مشرف کو پاکستان سے باہر جانے کی اجازت دی گئی تو وہ وزارت سے مستعفی ہوجائینگے۔ جب انکے لیڈر وزیراعظم میاں نواز شریف نے جنرل مشرف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی تو وہ اپنے وعدے سے پھر گئے اور اب وہ عدلیہ سے مطالبہ کررہے ہیں کہ جنرل مشرف کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے حالانکہ جنرل مشرف کو انٹرپول کے ذریعے واپس لانے کے ریڈ وارنٹ جاری کرنا خود ان کی وزارت داخلہ کی ذمہ داری ہے۔ مسلم لیگ(ن) کے لیڈر عوام کو طویل عرصہ سے بے وقوف بناتے رہے ہیں۔ اب عوام باشعور ہوچکے ہیں وہ تفریح کیلئے جلسوں میں ضرور جاتے ہیں مگر اگلے انتخابات میں بار بار جھانسا دینے والے آزمودہ سیاستدانوں کے فریب میں کبھی نہیں آئینگے۔
میاں نواز شریف تاریخ کے مخالف دھارے پر چل رہے ہیں وہ اپنی ذات کے قیدی بن چکے ہیں اور خود کو ریاست سے بڑا سمجھنے لگے ہیں۔ سیاست کے ماہر کھلاڑی آصف زرداری نے کہا ہے کہ دھرتی اب میاں نواز شریف کو برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ اگر ان کو معاف کردیا گیا تو اللہ ہمیں نہیں چھوڑے گا۔یہ بھی خدائی معجزہ ہے کہ عمران خان کے بعد اب آصف علی زرداری بھی میاں نواز شریف کیخلاف صف آرائی کرنے لگے ہیں۔شیروں کے شہر لاہور موچی دروازہ میں پی پی پی کا کامیاب جلسہ میاں نواز شریف کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔پاکستان کی عدلیہ آزاد اور مستحکم ہوچکی ہے۔ عدلیہ کے محترم جج نہ ڈرنے والے ہیں نہ بکنے اور جھکنے والے ہیں انہوں نے ریاست کا قبلہ درست کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ پاکستان کے عوام باشعور اور بیدار ہوتے تو لٹیرے سیاستدان کبھی ان کو بیوقوف بنانے میں کامیاب نہ ہوتے۔ تاریخ نے ذمے داری عدلیہ پر ڈال دی ہے اور عدلیہ نے تاریخ کا چیلنج قبول کرلیا ہے۔ جو سیاستدان آئین اور قانون کو توڑے گا وہ آئین کی گرفت میں آئیگا۔ اللہ نے نیک نام خدا کا خوف رکھنے والے ریٹائرڈ جسٹس جناب جاوید اقبال کو نیب کے چیئرمین کے منصب پر فائز کردیا ہے۔
پاکستان کے چیف جسٹس اور چیئرمین نیب مل کر ریاست کا گند صاف کرکے پاکستان کو صحیح معنوں میں پاک کردینگے۔ پاک فوج کی قیادت آئین اور قانون کی حکمرانی کیلئے انکی پشت پر کھڑی ہوگی اور عوام بھی آخر کار اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کیلئے کرپٹ سیاستدانوں کا ساتھ چھوڑ دینگے۔ انشاء اللہ اب آئین اور قانون کی طاقت سے نیا پاکستان وجود میں آئیگا۔