جناب نواز شریف عرض یہ ہے
ہر دل عزیز اور مقبول عام راہنما جناب نوازشریف' بلا سوچے سمجھے شیخ مجیب الرحمن کو جرمِ غداری میں بے گناہ قرار دے چکے ہیں تو انکے انجام سے بھی آگاہ ہونگے۔ جسے پاکستانی فوج نے نہیں مکتی باہنی کی 'سپاہ آزادی' کے ریٹائرڈ کمانڈروں نے مار ڈالا تھا ان بوڑھے بنگالی شوریدہ سر قاتلوں نے تو انکے اہل خانہ کو بھی نہیں بخشا تھا سب کو چن چن کر مار ڈالا تھا آج کی وزیراعظم حسینہ واجد صرف اس لئے بچ گئی تھیں کہ بنگلادیش سے باہر تھیں جناب نواز شریف' آپ کو شیخ مجیب بنانے یا اسکی راہ پر چلانے کے خواہشمند آپکے اور پاکستان کے دوست نہیں ہیں از قسمِ بھارتی پٹھو امتیاز عالم آپکی سیاست کی لاش پر اپنی آشاؤں کے محل تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔
الحذر! ہوشیار' خبردار
آپ نے مشورہ کرنا ہی ہے تو وفاشعار پرویز رشید سے کریں یا پھر استاد گرامی پروفیسر عرفان صدیقی کس دن کام آئیں گے یا پھر جناب مشاہد حسین سید بھی موجود ہیں خدا کیلئے بھارتی بھاڑے کے ٹٹوؤں سے بچئیے۔ یہ آپ کو زندگی کی راہ نہیں دکھا رہے۔ جناب نواز شریف: فوج اور عدلیہ کے حوالے آپ راندہ درگاہ الطاف حسین کے نقش قدم پر بگ ٹُٹ بھاگے جا رہے ہیں جس کا انجام بخیر نہیں ہو سکتا۔ عدلیہ کو منہ بھر بھر کے گالیاں دینے والوں کے منہ پر توہین عدالت کی ٹیپ چپکنے کی دیر ہے یہ سب مداری منظر سے غائب ہو جائینگے۔ لندن والے’بھائی‘ کی طرح گمنام بن جائینگے۔ شاید آپ بھول گئے کہ ہمارے مشترکہ دوست ابصار عالم کب کے گھر جا چکے ہیں پیمرا ہیڈکوارٹرز پر رشید چودھری کے سائے گہرے ہوتے جا رہے ہیں وہی رشید چودھری جسے آپ نے بھارتی چینل ZEE NEWS کو بیک وقت 8 لائسنس جاری نہ کرنے پر برطرف کر دیا تھا جس کی گواہی ڈاکٹر نذیر سعید کو بھی دینا ہو گی۔ ماں مٹی نے خوں مانگا تھا اور بیٹے پانی سے تالاب کو بھرتے جاتے ہیں۔
جناب نواز شریف آپکے دشنام سے عدالتی فیصلوںپر ردعمل پیدا ہونا ناگزیر ہے۔ آخر جج صاحبان بھی تو گوشت پوست کے انسان ہیں۔ عدلیہ کے صبر کو للکارنے والے ایسی آگ بھڑکانے کی کوشش کر رہے ہیں عام انتخابات (Election 2018) کا انعقاد ممکن نہ رہے۔ الزامات کے تیروتفنگ سے عدلیہ پر حملہ ہوچکا عوام اور آئینی اداروں میں تصادم کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ گالی نکال کر پائوں پڑنے والا حربہ اب ناکام ہوچکا ہے۔ ’گالی بریگیڈ‘ یکے بعد دیگرے کٹہروں میں طلبی کے حکم وصول کر چکے ہیں۔ اب انہوں نے عدالت کے روبرو اپنے ’خیالات‘ کا جواب دینا ہے۔ بدقسمتی کہیں یا ستم ظریفی سیاسی محاذ سے عوامی رائے کو مشتعل کرنے کیلئے تمام حدیں عبور ہوچکی ہیں لیکن جناب نواز شریف آپکے پاس بلاشبہ کروڑوں ووٹر موجود ہونگے لیکن شیخ الحدیث مولوی خادم حسین رضوی کی طرح 5 ہزار جانثار فدائی نہیں ہیں جو آپکے ایک اشارے پر اپنی جانیں نچھاور کر دیں۔ وفاقی حکومت کو سر جھکانے پر مجبور کر دیں زاہد حامد سے استعفیٰ لے کر گھر جائیں آج آپ کو کروڑوں ووٹروں کی نہیں صرف 5 ہزار جانثاروں کی ضرورت تھی جن سے آپ کا دامن خالی ہے۔
موجودہ صورتحال پر لندن والے میثاق جمہوریت کے حقیقی مصنف جناب شاہین صہپائی لکھتے ہیں۔ "آئین، قانون کی حکمرانی پر عمل کیلئے طریقہ کار پر تنقید ہو رہی ہے کہ ’جوڈیشل ایکٹوازم‘ نے ’گورننس پالیسی‘ کی جگہ لے لی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں عدالتی فعالیت ماضی سے بھی زیادہ سرعت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ نااہلی کا داغ سینے پر لئے نوازشریف نے توپوں کا رخ فوج اور پھر عدلیہ کی طرف موڑ دیا۔ الفاظ کی گولہ باری میں وقت کے ساتھ ساتھ تیزی اور شدت آرہی ہے۔ اشاروں کی زبان اب براہ راست دشنام میں بدل چکی ہے۔ ڈاکٹرشاہد مسعود کو قصور کے واقعہ پر ’قصوری چکی‘ کا سامنا ہے۔ عدالتی سماعت کے موقع پر دیگر صحافتی زبانیں ببانگ دہل یہ شکوہ کناں رہیں کہ قانون کے لباس پر کیچڑ اچھالنے والے بااثر طبقات سے تعلق رکھتے ہیں ان کو لگام کون دے گا؟ جناب منصف اعلیٰ میاں ثاقب نثار گویا ہوئے جب ہم نوٹس لیں گے، دنیا دیکھے اور محسوس کرے گی: اس جملے کی عملی تفسیر نہال ہاشمی کی عدالت سے سزا لی جارہی ہے۔ ججوں پر زمین تنگ کرنے والے کیلئے سیاسی زمین تنگ ہو چکی ہے۔ موصوف اڈیالہ جیل تشریف لے جاکر "شریف گزاری" کی قیمت چکا رہے ہیں۔
احسن اقبال کی سرکردگی میں وزارت داخلہ کے چھوٹے وزیر طلال چوہدری نوٹس وصول کر چکے ہیں۔ نوازشریف، خواجہ سعد رفیق اور مریم نواز شریف کے ’خطبات‘ اور’بیانات‘ کے ریکارڈ کی طلبی کا حکم نامہ بھی جاری ہو چکا ہے۔ معروف خاتون وکیل کیلئے پیغام دیا گیا کہ وہ عدلیہ پر زہرناک نشتر چلانے والوں میں شامل ہیں۔ ’بندہ ناداں پہ کلام نرم ونازک بے اثر‘۔
میمو گیٹ کے مردے میں پھر سے جان پڑ گئی ہے۔ امریکی نان نفقہ پر خوشحالی کی بنسری بجانے والے حسین حقانی کو نوٹس دیاگیا ہے جو ’موقع‘ ملنے پر رفوچکر ہوگئے تھے اور پھر پلٹ کر نہ دیکھا کہ کہیں پتھر کے نہ ہو جائیں۔ ان کی واپسی کیلئے کیاکیا جتن کرنے ہونگے۔ یہ منظر دلچسپ ہوگا۔ حقانی ہذیان بک رہا ہے اپنی طلبی عدالتی ڈرامہ قرار دے رہا ہے اس کے ضامنوں کو طلب کیا جانا چاہئے فیڈرل بیورو آف ریونیو (ایف بی آر)، سٹیٹ بنک اور دیگر مالیاتی انتظام وانصرام کے ذمہ دار اداروں کو حکم دیاگیا ہے کہ شک کے سیاہ بادل میں آنیوالے تمام پاکستانیوں کی آف شورکمپنیوں، غیرملکی اکائونٹس، بیرون ملک جائیدادوں کی تفصیل عدالت میں پیش کریں۔ منی لانڈرنگ اور بدعنوانی کے رجسٹر کھلوائے جا رہے ہیں۔ دو ہفتے میں یہ معلومات پیش ہونی ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ بابوئوں کے ’محلے‘ سے کیا برآمد ہوتا ہے۔ فوج، آئی ایس آئی اور دیگر ایجنسیوں کو ’کلنگ ایکسپرٹ‘ مفرور رائو انوار کو گرفت میں لانے کا حکم صادر ہوا۔ میڈیا پر رائو انوار کے بیانات نشر کرنے پر پابندی عائد کی گئی۔ آئی جی سندھ سے کہاگیا کہ سیاسی یا انتظامی کسی دبائو کو خاطر میں نہ لائیں۔ عدالت کا ہاتھ ان کی پشت پر ہے۔ شاہ زیب قتل کیس میں رہا ہونیو الے دوبارہ قانون کی گرفت میں ہیں۔ ہائیکورٹ کے فیصلے کو ختم کیا جا چکا۔
سابق وزیراعظم کے داماد کیپٹن صفدر کی ’سسر‘ کی محبت میں واجد ضیاء کی قومی اسمبلی میں طلبی کی جسارت بھی ناکام ہو چکی ہے۔ پاناما کیس میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) میں شامل واجد ضیاء کو عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں تحفظ فراہم کیاگیا تھا۔ چیف جسٹس نے فرمایا ’معافی مانگنے والے کو اپنے جرم کا اعتراف کرنا چاہئے۔‘ عوام کے سامنے اللہ سے معافی مانگنے کی بات بھی کہی گئی۔ یہ واقعات عدالت عظمیٰ کے ایک دن کی کارگزاری میں شمار ہوئے۔ بدانتظامی کی اندھیر نگری کے شکار اس پیارے ملک میں عدالت عظمیٰ کا ڈنڈہ چلتا ہے تو انتظامیہ کے اختیار چھن جانے کی دہائی کا کہرام مچ جاتا ہے۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ ’ہم جو بھی کریں، ہمیں کوئی نہ نکالے، ہمیں کوئی نہ پوچھے۔‘ کہتے ہیں عدالتی فعالیت کا سیدھا مطلب ’گورننگ پالیسی‘ اب ’جوڈیشل ایکٹوازم‘ بن گئی ہے۔ مقننہ اور انتظامیہ اپنے کام سے فارغ ہوچکے ہیں۔ نوازشریف عدلیہ کے ادارے کیخلاف نفرت پھیلانے میں پوری محنت سے جتے ہوئے ہیں۔ زہر کی ایسی فصل لہلہانے کے جتن میں ہیں جس کا مقصد انکی ذات میں قید ہے۔ ’مجھے کیوں نکالا‘ سیاسی فلسفہ بن چکا ہے۔ الزامات کی اینٹیں لگا کر قلعے کی شکل دی جارہی ہے۔ میڈیا کا ایک حصہ اس دشنام طرازی کاترجمان، وکیل اور نقیب کیوں بنا ہوا ہے؟ میڈیا تہذیب و اخلاق کی حدیں پھلانگ کر ’بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ‘ کیوں ہے؟ اتنا ہی سادہ ہے کہ وہ کس کھیل کا حصہ بن رہا ہے؟ ذمہ داری فریقین سے وفاداریاں نبھانا ہے؟ میڈیا کایہ حصہ خود توہین کا مرتکب نہیں ہو رہا؟ کہتے ہیں کہ عدالت عظمی کا اصلاحاتی ایجنڈا زیادہ شدومد سے لاگو ہوگا جب نگران براجمان ہونگے۔ ’شریف ٹولہ‘ حکومتی تحفظ اور پروٹوکول سے نجات پا لے گا تو قانون کی آنچ تیز ہوگی۔ اقدامات کی روانی میں تیزی آئیگی۔ تجزیات ہیں کہ فریقین لڑائی اس درجے پر لے جا چکے ہیں جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔ دونوں کیلئے موت وحیات سی کشمکش ہے۔ جی ہاں "پارٹی" (party on) نگرانوں کے بروئے کار آنے کے بعد شروع ہوگی یہ وعدہ معافوں کا دور ہوگا یہ مسعود محمودوں کا دور ہوگا۔ وہ دن بھی آنیوالے ہیں جب قانون پوری طاقت سے نافذ ہوگا اور شکیل انجم سمیت تمام کرائم رپورٹرز اہم ہو جائیں گے جبکہ کئی بل تلاش کر رہے ہونگے۔ وہ دور آنے والا ہے جلد بہت جلد آ رہا ہے جب نگران حکمران بروئے کار ہوں گے۔پھر تخت اچھالے جائینگے پھرتاج گرائے جائیں ۔