• news
  • image

صحافت میں تنزلی… ذمہ دار کون؟

ویسے تو ’’میں نہ مانوں‘‘ کو ہر دور میں جہالت کی پہچان سمجھا گیا ہے مگر آج کل سیاست ہو یا صحافت، معیشت ہو یا معاشرت ادب ہو یا فنون لطیفہ ’’میں نہ مانوں‘‘ کا نعرہ لگانے والوں نے عملاً ایسا کنفیوژن پیدا کر دیا ہے کہ وہ شعبوں میں نامور ہونے یا ان شعبوں کی آبرو سمجھنے والے گوشہ نشینی میں عافیت سمجھتے ہیں۔ پہلے جمہوریت، انسانی حقوق، انصاف، مساوات اور آزادی اظہار کے نام پر شعبے میں کچھ ’’گھس بیٹھئے‘‘ داخل ہوئے اور ان معقول رویوں کا نام لیکر اپنے پر آئندہ ذہن سے ایسی تاویلیں سامنے لانے لگے کہ اچھے بھلے پڑھے لکھے لوگوں کے دماغ بھی چکرا گئے۔ رائے عامہ ہموار کرنے والوں نے اس بڑے مقصد کو یا تو نظرانداز کردیا یا اس کی حساسیت اور حب الوطنی پر وار لگانے والوں کو برداشت کر کے انہیں عملاً معتبر بنانے میں ایسا کردار ادا کیا کہ ہر شے اپنے مقام سے کھسکنے لگے اور پھر بغیر کسی بھونچال کے اقدار کو تہس نہس کرنے واالا ایسا خاموش بھونچال آیا جسے کسی نے نہ ریکارڈ کرنے کی ضرورت محسوس کی اور نہ ہی اس سے ہونے والے ناقابل تلافی نقصان کا اندازہ کیا۔ اس سے ’’میں نہ مانوں‘‘ والے زیادہ بلند آہنگ ہوگئے اور شور شرابہ کر کے جب مقصد حاصل کرنے میں ذرا سی دیر محسوس کی تو گالی گلوچ پر اتر آئے۔ باربار ایک ہی رویئے پر اظہار کیلئے گالیاں عملاً کم پڑ چکی ہیں اور ان کی ’’نیوارائیول‘‘ کا ابھی تک کاروبار کرنے والا کوئی شخص مارکیٹ میں نظر نہیں آیا۔ گالیوں کے استعمال میں جتے ہوئے لوگوں کی اپنی ’’وکیبلری‘‘ کے کم ہونے کا اگرچہ احساس ہے مگر وہ اسے دھمکیوں کی آمیزش سے زیادہ موثر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ غصے، بغض اور تعصب، الزام تراشی، دشنام طرازی اور بہتان بازی کی قبیل کے سارے خاندانوں سے الفاظ مستعار لیکر استعمال کئے جانے والے یہ لفظ بھی انکے باطن کی تسلی نہیں کرتے تو احساس ہوتا ہے کہ یہ بیچارے تو جہالت میں بھی ’’کوالیفائی‘‘ نہیں کرتے مگر ہر قدر تہس نہس کر دی گئی ہے۔ سیاست میں غیر ذمہ داری پہلے عیب تھا تو اب گالی گلوچ بھی عیب نہیں۔ صحافت میں غلط خبر تو درکنا غلط تفلظ اور غلط املا بھی شرمندگی کا باعث تھی تو اب تو کہیں ہفتوں مہینوں کے بعد کسی درست خبر کو فخر سے بیان کرنے اور یہ دعویٰ کرنے والے ’’سب سے پہلے یہ خبر ہم نے دی تھی‘‘ ایسے دعوے بھی نظر نہیں آتے۔ 

سیاسی قدروں کی پاسداری کرنے والوں کو سیاست دان نہیں سمجھا جاتا یا اگر سمجھا جاتا ہے تو وہ قرون اولیٰ کے سیاست دان کی تہمت سے نہیں بچ سکتے اور اگر اس سے بچ بھی جائیں تو ناکام سیاستدان کے سرٹیفکیٹ دینے والے سیاسی اور غیر سیاسی افراد انکے وہم کو یقین میں اور ناکامی حوالے سے یقین کو ایمان میں بدل دیتے ہیں۔
صحافت کا گلا تو جنرل مشرف نے ٹی وی چینلز کی مشروم گروتھ کے آہنی ہاتھ سے ایسا دبایا کہ اس گلا کو دبانے والے کے گریبان پر جن کا ہاتھ آبروئے صحافت کے محافظ طور پر پڑنا چاہئے تھا انہوں نے بھی بہتی گنگا میںہاتھ دھونے کو اپنی ایک اور کامیابی سمجھا۔ میں نے گیارہ سال پہلے پاکستان ٹیلی ویژن کے لائیو پروگرام ’’رائزنگ پاکستان‘‘ میں کہا تھا کہ چوبیس گھنٹے کی نشریات دینے والے ٹی وی چینلز ہی سے ایک بھی ایسا نظر نہیں آتا جو مہینے میں چوبیس گھنٹے کے معیاری پروگرام پیش کرسکے اور اب گیارہ بارہ سال بہتر تو صورتحال اتنی بگڑ چکی ہے کہ شائستگی اور ہنرمندی سے بات کرنے والے اینکر بھی گالی گلوچ کے گندے تالاب میں ڈبکیاں کھاتے ہوئے مطمئن و مسرور نظر آتے ہیں۔ شرمندگی اور ندامت اور ماضی کا سارا احترام اسی غلاظت میں غرق کر بیٹھنے والے اسی بڑے خسارے پر ہرگز پشیمان نہیں۔ انہیں کام کی بات یا سچی بات آگ بگولا کر دیتی ہے۔ ٹیلی ویژن کی سنسنی خیزی نے صحافت کی آبرو کا جس طرح جنازہ نکالا ہے شاید اسی کے پیش نظر صحافت کی تعریف کہنہ مشن صحافیوں کو بھی یاد آرہی ہے اور وہ تجزیہ کاروں کی بھیڑ میں اب بھی پیشے کے تقدس کے خیال کو نظرانداز نہیں کرتے۔ اگرچہ یہ کام ہنرمندی سے کرنے کے باوجود اینکر بالکل ’’وکھرے ٹائپ‘‘ کا بندہ بن چکا ہے۔
ماضی ہی حالات حاضرہ کو ٹیلی ویژن کی سکرین پر اپنے پروگراموں کے ذریعے معتبر بنانے والے ایک اینکر نے اپنی ایک خبر پر اختلاف کرنے والوں سے بلکہ ان کو صحافی نہ سمجھنے والوں کی ذاتی یا پیشہ وارانہ رائے کا اتنا بربادی کہ ہے کہ ماضی ہی سرراہ مل جانے والے سے لیکر ساتھ کام کرنے والے یا کام کرنے کی خواہش کرنے والوں کا لعن طعن کے ذریعے جس طرح سواگت کیا ہے اس کی مثال صحافت میں چونکہ مل نہیں سکتی شاید اسی لئے وہ بار بار کہہ رہے ہیں کہ مافیا چاہتا ہے مجھے پھانسی لگا دو۔ ان لفظوں اور طعنوں کی گولہ باری میں معروف کالم نگار برادرم حسن نثار نے جس خوبصورتی سے خود کو صحافی کے معیار پر پورا نہ اترنے کا حوالہ دلیل سے دیا ہے وہ قابل قدر بھی قابل تعریف بھی۔ ان کا کہنا ہے کہ میں کالم لکھتا رہا، کبھی نیوز روم میں کام نہیں کیا اور جب تک نیوز روم میں مار نہ کھائی جائے، رپورٹنگ نہ کی جائے بندہ صحافی کہلانے کا حقدار نہیں۔ ہرچند کہ صحافت میں ان کا نام اور کام دونوں کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ میں رئوف کلاسرا سے کبھی نہیں ملا مگر انکے اس خاص موضوع پر اور تحقیقاتی خبر کے حوالے سے خیالات اور تبصرے کو ایک پروفیشنل کی حیثیت سے نہ سراہنا بددیانتی ہوگی۔ مجھے چونکہ نیوز روم میں تقریباً ہر حیثیت سے ڈسٹرکٹ نیوز ایڈیٹر، سٹی ایڈیٹر اور مین کاپی پر کام کرنے، سیاسی اور تحقیقاتی رپورٹنگ کرنے، کالم، فیچر اور آرٹیکل لکھنے میں شعبوں میں عملاً شرکت کا موقع ملا ہے ٹیلی ویژن کے اکلوتے چینل پر کئی سال کمپیئرنگ جسے آج کل ’’اینکر‘‘ کہا جاتاہے مسلسل کرنے کاموقع ملا ہے ٹیلی ویژن اور ابلاغ کے علاوہ فن خبر تدریس اور کانسپٹس آف جرنلزم۔ کمیونیکیشن ٹوڈے ایسی کتابیں لکھ کر یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم طلبا کو اسی وادی خارزار میں داخل ہونے اور وہاں کامیابی سے اپنا سفر کرنے کے قواعد وضوابط، فنی اور پیشہ وارانہ ذمہ داریاں اور صحافی کیلئے مطالبہ کی وسعت اور کردار کی پختگی کے حوالے سے یہ کتابیں کچھ نہ کچھ اثر دکھاتی ہیں بالکل اسی طرح کہ ایم اے صحافت کرنے سے پہلے میں بھی، کارکن صحافیوں کا بہت بڑی تعداد کی طرح صحافت کو بطور پیشہ اختیار کرچکا تھا۔ پہلے دن سے کالم لکھنے کی ذمہ داری اور وہ بھی محترم مجید نظامی کے اخبار میں اور بھر رپورٹنگ اور وہ بھی عبدالقادر حسن کے ساتھ اور پھر نیوزروم میں نوائے وقت کے پہلے نیوز ایڈیٹر حاجی صالح محمد صدیق کے ساتھ اور ایڈیٹروں میں مجید نظامی صاحب کے علاوہ ظہیر بابر صاحب اور حمید جہلمی صاحب کے ساتھ اور نیوز ڈیسک پر اسلم کاشمیری، فضیل ہاشمی، وحید قیصر اور طارق وارثی کے ساتھ غرضیکہ پر معتبر نام کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ (جاری)

ڈاکٹر اے آر خالد....

ڈاکٹر اے آر خالد....

epaper

ای پیپر-دی نیشن