• news
  • image

منو بھائی اور بھائی ایوب خان

”صدر“ آصف زرداری قلوں پر منو بھائی کے گھر آئے اور ان کی تعزیت کی۔ منو بھائی رابطوں اور نظریاتی طور پر بہت مضبوط آدمی تھے۔ ان لوگوں نے بھٹو کے ساتھ سفر شروع کیا تھا اور اسی قافلے میں ساری زندگی گزار دی مگر

منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے
میں زرداری صاحب کا پوری برادری کی طرف سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ان کے علاوہ کوئی اس مرتبے کا سیاستدان یہاں نہ تھا۔ پھر زرداری صاحب نے داتا صاحب کے دربار میں حاضری دی۔ یہ دونوں کام انہوں نے ایک ساتھ کئے۔
یہاں چیف جسٹس (ر) افتخار چودھری، خورشید محمود قصوری، اعتزاز احسن، پرویز ملک، سلمان غنی، امتیاز عالم، فائزہ ملک، شاہدہ منی، کنول اور میرا نے بھی شرکت کی۔ بہت لوگ تھے۔ سب کا شکریہ منو بھائی کے بیٹے کاشف منیر نے ادا کیا۔
منو بھائی بات کرتے ہوئے تھوڑا سا بڑبڑاتے تھے۔ جتنا مزا اس کا آتا کسی اور کے ہاں اس عادت کا نہیں آتا۔ حیرت ہے کہ ان کی بات سمجھ میں آتی تھی وہ کبھی نہ گھبرائے نہ شرمائے نہ سننے والوں نے محسوس کیا بلکہ سب کو اچھا لگا۔ ان کا انداز گفتگو بہت فطری تھا۔
مجھے ستارہ امتیاز ملنے پر نعیمہ بی بی اور ذوالقرنین نے ایک تقریب پذیرائی کی۔ کوئی رسمی تقریب نہ تھی مگر منو بھائی کی موجودگی وہاں ایک شاندار آسودگی کی طرح تھی۔ منو بھائی باقاعدہ صدر نہ تھے نہ میں روایتی طور پر مہمان خصوصی تھا۔ مگر منو بھائی ساری تقریب کے لیڈر تھے۔ وہاں میرے لئے انہوں نے جو الفاظ کہے وہ میرے لئے ہمیشہ اعزاز رہیں گے۔
منو بھائی اولیں کالم نگاروں میں سے تھے۔ وہ کبھی کبھی پنجابی میں بے مثال نظم لکھتے تھے۔ پنجابی شعر و ادب سے محبت رکھنے والے منو بھائی کے اس تخلیقی سرمائے کو ضائع نہ ہونے دیں۔ وہ باقاعدہ شاعر نہ تھے مگر ایسی شاعری لازوال ہے۔
ایک عجیب و غریب اور حیرت انگیز حسِ مزاح ان میں تھی۔ وہ ایسا جملہ بولتے ایسی بات بے دھیانے میں کر دیتے کہ دل خوش ہو جاتا۔ آج کل مزاحیہ جملوں پر دل خوش نہیں ہوتا صرف ہنسی آتی ہے۔ ان کا جنازہ بہت بڑا تھا۔ نجانے کیسے کیسے لوگ آ گئے۔ ان سے پیار کرنے والے کہاں کہاں تھے۔
منو بھائی نے ساری زندگی ایک چھوٹے سے مکان میں گزار دی۔ بہت سادگی اور آسودگی سے عمر بسر کی۔ وہ کبھی ایک لمحے کے لئے امیر نظر نہ آئے۔ امیر ہونا کسی حد تک ٹھیک مگر امیر کبیر نظر آنا بہت بُری بات ہے۔ منو بھائی بڑے آدمی تھے مگر بڑے آدمی لگتے نہیں تھے۔ وہ اپنے جیسوں میں ہمیشہ خوش رہتے۔ خوش رہنے کا اپنا ایک ان کا معیار تھا۔ سلیقہ تھا۔ خوش نظر آنے والے اندر سے خوش نہیں ہوتے۔
وہ چھوٹے بڑے کے لئے منو بھائی تھے۔ وہ سب کے بھائی تھے۔ ایک دفعہ یار جانی دلدار بھٹی نے منو بھائی کی طرف جملہ پھینکا ”منو بھائی آپ کو ہماری بھابھی کیا کہتی ہیں؟“ منو بھائی نے برجستہ اور بے ساختہ کہا کہ وہ مجھے دلدار کہتی ہیں۔ دلدار لاجواب ہو گیا جبکہ وہ لاجواب ہوتا نہ تھا۔ ایک دفعہ ہم لبرٹی میں تھے۔ برادرم توفیق بٹ بھی تھا۔ وہ دلدار کے عاشقوں میں سے ہے۔ ایک آدمی مسلسل بھابھی ہماری بہن بیگم دلدار بھٹی کو دیکھے جا رہا تھا۔ ہم سب نے اس حرکت کو محسوس کیا۔ عقیدہ بھابھی عظیم عورت ہے۔ دلدار کے ہمسفر ہو کر اس نے عقیدے کو عقیدتوں میں بدل لیا تھا۔ دلدار نے اس نوجوان کو بلایا اور کہا کہ میں اس عورت کا شوہر ہوں۔ میں پچھلے 25 سال میں کچھ نہیں دیکھ سکا۔ تم کیا تلاش کر رہے ہو؟
منو بھائی میرے رشتہ دار نہ تھے بظاہر مگر رشتہ داروں سے بڑھ کر تھے۔ ان کے ساتھ ایسا رشتہ نہ تھا بظاہر مگر رشتہ داروں سے بڑھ کر تھے۔ ان کے ساتھ ایسا رشتہ تھا کہ کئی رشتے اس میں گھل مل گئے تھے۔ مجھے یہاں بھائی ایوب خان یاد آتے ہیں۔ وہ بھی انہی دنوں میں وہاں چلے گئے جہاں منو بھائی چلے گئے ہیں۔ وہ پھوپھی زاد بھائی تھے۔ وہ روایتی طور پر ادبی آدمی نہ تھے مگر ہمارے آئیڈیل تھے میں نے ان سے بڑھ کر کم کم لوگوں کو اتنی بھرپور اور اچھی گفتگو کرتے سنا ہے۔ وہ ہمارے خاندان میں پہلے گریجوایٹ تھے۔ ہمارے گھریلو ماحول میں بچوں کے پڑھائی کے معاملے میں بہت غیر ذمہ داری پائی جاتی ہے البتہ بھائی ایوب خان کی اولاد پڑھ گئی۔ اسد ایوب نیازی اور ڈاکٹر بلال نیازی گورنمنٹ کالج سے پڑھے اور وہ کہتے ہیں کہ ہم نے ماموں اجمل نیازی سے اس رستے پر چلنا سیکھا۔ اسد ایوب تو گورنمنٹ کالج سٹوڈنٹس یونین کا آخری صدر تھا۔ اس نے اس منصب کے لئے ایک تاریخ رقم کی میرے لئے یہ اعزاز سے کم نہیں۔ میں گورنمنٹ کالج لاہور کے شاندار ادبی میگزین ”راوی“ کا ایڈیٹر تھا۔ اب ہمارے خاندان میں عجیب روایت آن پڑی ہے کہ یہاں لڑکیاں پڑھ لکھ گئی ہیں۔
گریجوایٹ تو ہر بچی ہے۔ کئی نے ایم اے کیا ہوا ہے وہ اب ملازمت بھی کر رہی ہیں۔ میرے لئے یہ بات حیرت انگیز ہے اور میں بہت خوش ہوں البتہ لڑکے سب کے سب پڑھائی نہیں کرتے۔ میرا اپنا بھتیجا سہیل خان ویسے ہی پھرتا ہے مگر اس کی سب بہنیں میری بھتیجیاں پڑھ لکھ گئی ہیں۔ سہیل بہت اچھا نوجوان ہے مگر ان پڑھ؟ ثمینہ تہمینہ کشمالہ سب ٹیچر ہیں، مگردیکھیں کہ بھائی ایوب خان کے سب بچے پڑھ گئے مگر بیٹیاں پیچھے رہ گئیں۔ میں یہ باتیں کیوں کر رہا ہوں۔ یہ جو کہتے ہیں کہ دیہاتوں میں بچیاں آگے نہیں پڑھ سکتیں اب گھروں میں بچیاں بہت آگے نکل گئی ہیں۔ ماموں یوسف خان موسیٰ خیل کی تہذیب سے کبھی باہر نہیں نکلے مگر ان کے بیٹے اور اب ان کی پوتیاں پڑھائی میں لڑکوں سے پیچھے نہیں۔ آپ حیران ہونگے کہ ستار بھائی کی ایک بیٹی میمونہ نے ایم اے انگریزی کر رکھا ہے۔
دو دن کے بعد ہم واپس لاہور آ گئے، میرے خیال میں کبھی کبھی اپنے ان دور دراز کے علاقوں میں چکر لگانا چاہئے۔ ہم راستے میں مدی خیل ہو کر آئے یہ چند لمحے پورے ایک کالم کے متقاضی ہیں۔ انشاءاللہ اس کا بھی ذکر کروں گا۔ یہاں ہم نے گائے بھینس بچھڑے اور مرغیاں بھی دیکھیں پہلے مدنی خیل میں بھی ہر گھر میں جانور ہوتے تھے۔ چند مرغیاں ماموں امیر خان نے ذبح کر کے ہمارے ساتھ بھیج دیں یہ گوشت کھا کر ایسا مزہ آیا کہ اب ہمیں لاہور میں گوشت اچھا نہیں لگتا۔
٭٭٭٭٭

epaper

ای پیپر-دی نیشن