پاکستان کے شمالی علاقوں میں قدیم سلک روڈ پر تجارت جاری ہے: رپورٹ
واخان (اے ایف پی) افغانستان میں برف پوش پہاڑوں پر مشتمل دور افتادہ واخان راہداری کو زمانہ قدیم سے تجارت کے لیے استعمال کیا جارہا ہے ۔ سطح سمندر سے 16 ہزار 3 سو فٹ کی بلندی پر واقع واخان راہداری پاکستان کے شمالی علاقے ہنزہ سے متصل ہے اور یہ پاکستان کے شمالی علاقوں کے علاوہ چین اور تاجکستان سے بھی منسلک ہے۔ ہنزہ کے تاجر صدیوں سے قراقرم پہاڑی سلسلے پر ارشاد پاس جیسے راستوں سے گزرتے ہوئے واخان کے مقامی قبائلیوں کے ساتھ تجارت کرتے ہیں۔ اس مشکل راستے پر تاجر مال بردار جانوروں کے ذریعے نقل و حرکت کرتے ہیں۔ تجارتی قافلے میں شامل فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے نامہ نگار کو تاجر افضل بیگ نے بتایا کہ اس راستے پر کبھی بھی اعتبار نہیں کیا جا سکتا اور یہ کسی بھی وقت آپ کو دھوکہ دے سکتا ہے۔ واخان کے علاقے میں واخائی قبیلہ آباد ہے اور تاجروں سے یاک اور مال مویشیوں کے بدلے میں تجارتی سامان خریدتا ہے۔ اس دشوار گزار پرخطر راستے پر سفر کے دوران تاجروں کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور طوفان کی صورتحال میں حد نگاہ چند فٹ تک ہی رہ جاتی ہے اور تاجروں کو آگے چلنے والے گھوڑوں کی آوازوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ تاجر اسلم بیگ نے بتایا کہ تجارتی راستے میں آنے والے غاروں میں تاجروں کی باقیات ملتی ہیں جو سفر کے دوران موسم کی سختیوں کی وجہ سے مارے گئے اور ان کے اپنے چھ ساتھی برفانی تودوں کی زد میں آ کر ہلاک ہو چکے ہیں۔ اسلم بیگ کے مطابق ان کے چھ ساتھیوں کی لاشیں ایک برس گزرنے کے بعد بھی نہیں ملی ہیں، اسلم بیگ کے مطابق واخان کے مقامی افراد کے پاس پیسے نہیں ہیں اور نہ ہی ان کے پاس زیادہ مالی وسائل ہوتے ہیں۔ ماہر بشریات عزیز علی داد کے مطابق یہ راہداری افغانستان کو چین، پاکستان، تاجکستان سے جوڑتی ہے اور زمانہ قدیم میں ان ملکوں کی سرحدوں پر آباد قبائل اس راہداری کو ایک دوسرے کے ساتھ تجارت کے لیے استعمال کرتے تھے، انہوں نے بتایا کہ افغانستان میں سوویت یونین کی مداخلت کے بعد تجارتی رشتے ٹوٹ گئے لیکن ہنزہ اور واخان کے درمیان تعلق برقرار رہا اور اس کی وجہ ارشاد پاس جیسے چند قدیم راستے ہیں جن پر لوگ سفر کرنے کی جرات کرتے ہیں۔