فیص آباد دھرنا کیس‘ معاہدے میں آرمی چیف کا نام کیسے استعمال ہوا: اسلام آباد ہائیکورٹ
اسلام آباد (,وقائع نگار+ آن لائن+ بی بی سی) اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیض آباد دھرنا کیس میں راجہ ظفر الحق کمیٹی رپورٹ پیش نہ کرنے پر شدید برہمی کا اظہار کیا ہے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی عدالت میں فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت شروع ہوئی تو ڈی جی آئی بی عدالت میں وائرل آڈیو ریکارڈنگ کے حوالے سے رپورٹ پیش نہ کر سکے جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ رپورٹ جمع نہ کرانے پر متعلقہ افراد کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہوگی، عدالت نے سیکرٹری دفاع کو دوبارہ رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت بھی کی اور کہا کہ سیکرٹری دفاع رپورٹ میں بتائیں کہ دھرنا مظاہرین سے معاہدے میں آرمی چیف کا نام کیوں استعمال ہوا، عدالت نے سیکرٹری دفاع، داخلہ اور سیکرٹری قانون کو بھی رپورٹ سمیت طلب کر رکھا تھا۔ عدالت نے ڈی جی آئی بی سے 12 فروری تک رپورٹ طلب کر لی۔ بی بی سی کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ نے سیکرٹری دفاع کو حکم دیا ہے وہ عدالت میں تحریری جواب جمع کرائیں اور یہ بتائیں کہ فیض آباد پر دھرنے کے شرکا اور حکومت کے درمیان طے پانے والے معاہدے میں آرمی چیف کا نام کیسے استعمال ہوا۔ عدالت نے سیکرٹری دفاع کو آئندہ سماعت پر ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا بھی حکم دیا ہے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ وزارت دفاع والے اچھی انگلش بولتے ہیں لیکن یہاں پر چار جملے لکھ کر دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ عدالت نے آئی بی کے سربراہ کو اس آڈیو ٹیپ کے بارے میں جامع رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے، جس میں ایک فوجی افسر اپنے ماتحت سے فیض آباد دھرنے کے بارے میں گفتگو کر رہا ہے۔ عدالت نے کہا کہ اگر اگلے دو روز میں اس بارے میں رپورٹ جمع نہ کرائی گئی تو آئی بی کے سربراہ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ آئی بی کے سربراہ نے عدالت کو بتایا کہ فون ریکارڈ کرنا آئی بی کا کام نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ آئی بی نے پاکستان میں دہشت گردی کے حوالے سے بہت کام کیا ہے۔ جس پر بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیئے کہ اگر آئی بی ایک وائس کو بھی ٹریس نہیں کر سکتا تو پھر پاکستان میں کون سا ادارہ وائس ٹریس کرسکتا ہے؟ راجہ ظفر الحق کمیٹی کی رپورٹ عدالت میں پیش نہ ہونے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اس کمیٹی کا ایک ممبر ملک سے باہر ہے، عدالت ایک ہفتے کا وقت دے۔ اس کے علاوہ وفاقی وزیر داخلہ بھی ملک سے باہر ہیں اور ان کی غیر موجودگی میں رپورٹ نہیں دے سکتے، جس پر جسٹس شوکت عزیز نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کے ساتھ ’کھلواڑ کرنا بند کر دیں‘۔ بینچ کے سربراہ نے حکم دیا کہ اگر 12 فروری تک راجہ ظفرالحق کمیٹی رپورٹ پیش نہ کی گئی تو ذمہ داروں کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کریں گے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے فیض آباد پر دھرنا دینے والی جماعت کے سربراہ خادم حسین رضوی کا نام لیے بغیر کہا کہ ’موصوف نے فیض آباد دھرنے میں بیٹھ کر جو حرکت کی ہے قابل مذمت ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ ’موصوف نے چیف جسٹس آف پاکستان کا نام لے کر جو نازیبا زبان استعمال کی ہے اس پر بھی افسوس ہی کیا جاسکتا ہے‘۔ عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کی ایک ہفتے کی مہلت مسترد کرتے ہوئے کیس کی سماعت 12 فروری تک ملتوی کر دی۔موصوف نے چیف جسٹس آف پاکستان کا نام لیکر بکواس کی ہے۔ بدقسمتی سے گزشتہ عدالتی حکم پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ عدالت نے سماعت 12 فروری تک ملتوی کردی۔ عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کی ایک ہفتے کی مہلت عدالت نے مسترد کردی۔