ایگزیکٹ کیس: ملکی وقار کا معاملہ‘ قوم کو شرمندہ نہیں ہونے دیں گے: سپریم کورٹ
اسلام آباد(نمائندہ نوائے وقت)سپریم کورٹ میں ایگزیکٹ جعلی ڈگری ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے بشیر میمن نے عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا کہ ایگزیکٹ سے ڈگری ایک گھنٹے میں مل جاتی ہے۔جس پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے سوال کیا کہ میرا قانون کا تجربہ ہے، کیا مجھے پی ایچ ڈی کی ڈگری مل سکتی ہی ڈی جی ایف اے نے جواب دیا کہ تجربے کی بنیاد پر آپ کو قانون اور انگلش کی ڈگری مل سکتی ہے تاہم چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ میری انگلش اتنی اچھی نہیں ہے۔ڈی جی ایف آئی اے نے عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا کہ ایگزیکٹ جولائی 2006 سے پہلے سے رجسٹرڈ ہے اور اس کا ہیڈ آفس خیابان اقبال، کراچی میں ہے۔ کمپنی نے سافٹ ویئر کی ایکسپورٹ کا بزنس ظاہر کر رکھا ہے اور اس کے 10 بزنس یونٹس ہیں۔بشیر میمن نے عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا کہ ایگزیکٹ کی 330 یونیورسٹیاں تھیں اور اس کا 70فیصد ریونیو آن لائن یونیورسٹیوں سے آتا ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کہ کیا ایگزیکٹ کا کسی یونیورسٹی سے الحاق ہے جس پر ڈی جی ایف آئی نے جواب دیا کہ ایگزیکٹ کا کسی یونیورسٹی سے الحاق نہیں، یونیورسٹیوں کا صرف ویب پیج تھا جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یونیورسٹیاں تو کسی قانون کے تحت بنتی ہیں ،یہ کام 2006 سے ہو رہا ہے ، 2006 سے 2015 تک یہ کاروبار ہوتا رہا ،اگر یہ درست ہے تو لوگوں سے فراڈ ہوا۔سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے سندھ ہائیکورٹ کو ایگزیکٹ مقدمات کا فیصلہ 15 روز، اسلام آباد ہائیکورٹ کو 3 ہفتوں میں مقدمے کا فیصلہ سنانے کی ہدایت کردی۔عدالت عظمیٰ نے ٹرائل کورٹ کو ملزموں کی ضمانت منسوخی کا فیصلہ 2 ہفتوں میں کرنے کا بھی حکم دیا۔ عدالت نے کہا کہ اگر ملزم تعاون نہیں کرتے تواستغاثہ ضمانت منسوخی کی درخواست دے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہیں کہ یہ معاملہ ملکی وقار کا ہے‘ قوم کوشرمندہ نہیں ہونے دوں گا۔ عاصمہ جہانگیر پی بی اے کی جانب سے پیش ہوئیں، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کااس کارروائی سے کیا مفاد وابستہ ہے، جس پر عاصمہ جہانگیر نے بتایا کہ پی بی اے اس مقدمہ میں شکایت کنندہ ہے۔ ایگزیکٹ متاثرین بھی پیش ہوئے۔ انہوں نے درخواست کی کہ ہم متاثرین ہیں ہمیں بھی سنا جائے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میری عدالت میں کوئی ہاتھ کھڑا کرے تو اس کو ضرور سنتا ہوں۔ یہ بہت اہمیت کاحامل ایشو ہے ، معاملہ ملکی وقار کاہے، پاکستان کاوقار سٹیک پرہے، ہمیں قانون کے مطابق معاملات کوڈیل کرناہوگا ۔ اس مقدمے میں تحقیقات کمزور ہیں، ہم ایف آئی اے کو معاملہ کا جائزہ لینے کا کہیں گے۔ ڈی جی ایف آئی اے پر بہت اعتماد ہے ،دیکھناچاہتے ہیں کہ تحقیقات کی کیا صورتحال ہے۔ڈی جی ایف آئی اے نے بتایا 5ہزار ڈالرز میں ایگزیکٹ کی ڈگری مل جاتی ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر کیمپس نہیں تو کلاس رومز بھی نہیں ہوں گے۔ ہمارے ہاں بھی ورچوئل یونیورسٹی ہے، کیا ورچوئل یونیورسٹی کوئی پروگرام کنڈکٹ بھی کرتی تھی۔اس جرم کو ثابت کرنے کے لئے ایف آئی اے کیا کر سکتی ہے۔بشیر میمن نے عدالت کو بتایا اسلام آباد کے مقدمے میں ملزم بری ہو چکے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایف آئی اے نے ثبوت پیش کئے، بشیر میمن نے جواب میں بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل زیرالتوا ہے، رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ نے بتایا کہ اپیل 22 فروری کوسماعت کے لئے مقرر کردی، جسٹس اطہرمن اللہ کیس سنیں گے۔ چیف جسٹس نے رجسٹرار کو ہدایت کی کہ جسٹس اطہرمن اللہ کے ساتھ جسٹس گل حسن کو بھی شامل کریں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ تین ہفتوں میں فیصلہ کرے۔ عوام میں افواہیں تھیں جج نے ضمانت کے لئے پیسے لیے،اس جج کا نام کیا ہے اور اس کے خلاف کیاکارروائی ہورہی ہے۔ رجسٹراراسلام آباد ہائی کورٹ نے بتایا کہ جج کا نام پرویزالقادر میمن ہے، جس پر چیف جسٹس نے ڈی جی ایف آئی اے کو مخاطب کرتے کہا یہ تو آپ کی برادری کانکل آیا، بشیرمیمن نے جواب میں کہا کہ یہ میرا عزیز ہے لیکن میں شرمندگی محسوس کرتاہوں۔ ڈی جی ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ ہمارا مرکزی کیس کراچی میں ہے۔ شعیب شیخ نے عدالت سے درخواست کی کہ غلطی کی ہے تو معاف کردیں ، عدالت میرا موقف بھی سنے، اپنا مقدمہ خود لڑنا چاہتا ہوں، عدالت نے جو حکم دیا وہ درست ہے، ماتحت عدلیہ اور ہائیکورٹ مجھے سن کر فیصلہ کریں، یہ ملک کی عزت کے ساتھ مستقبل کا بھی سوال ہے، عدالت دیکھے آجکل یہ کام ہو رہا ہے یا نہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ٹی وی پربولتے دیکھا اچھے مقررہوں گے مگریہاں نہیں ، غیرمتعلقہ بات کو نہیں سنوں گا، آپ کے خلاف خبریں چلتی ہیں تو ہتک عزت کا دعوی کریں، غلط خبر پر پیمرا معاملے کو دیکھے گا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ایگزیکٹ کمپنی پر جعلی ڈگری دینے کا الزام ہے، لوگوں کو فون کال پر ایگزیکٹ کی ڈگری دی جاتی تھی، جس پر شعیب شیخ نے کہا کہ ایف آئی اے نے جعلی ڈگری کے بارے میں غلط بیانی کی۔ جس پر چیف جسٹس نے شعیب شیخ کو خاموش رہنے کا حکم دے دیا۔ سپریم کورٹ نے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلہ کا نوٹس لیتے ہوئے فیصلہ کی فائل منگوالی۔ ملزموں نے دوران سماعت ہی تحقیقات میں تعاون کی تحریری یقین دہانی کرادی، جس پر سپریم کورٹ نے ایگزیکٹ ملزموں کے نام ای سی ایل میں ڈالنے سے روک دیا۔