• news

زینب کیس: چالان پیش‘ سماعت آج سے جیل کے اندر‘7 روز میں مکمل ہو گی: خصوصی عدالت

لاہور (اپنے نامہ نگار سے+ این این آئی+ نوائے وقت رپورٹ) محکمہ داخلہ پنجاب نے قصور میں ننھی زینب سمیت کئی بچیوں کے قاتل عمران علی کے خلاف مقدمہ جیل میں چلانے کا فیصلہ کر لیا۔ یہ فیصلہ عمران علی کی سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لئے کیا گیا ہے، عمران علی کو کوٹ لکھپت جیل میں خصوصی سیل بنادیا گیا ہے جس میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہیں، ان کیمروں کی مدد سے عمران علی پر نظر رکھی جائے گی تاکہ وہ کوئی انتہائی قدم نہ اٹھا سکے۔ دوسری جانب لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے ملزم عمران کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل منتقل کردیا ہے۔ انسداد دہشت گردی عدالت کے جج سجاد احمد نے زینب قتل کیس کی سماعت کی۔ ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ملزم عمران کو ڈی این اے میچ ہونے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا اور ملزم عمران کا زینب قتل کیس میں 16 روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل ہو چکا ہے۔ ملزم کے خلاف دیگر 8 مقدمات میں تین روزہ جسمانی ریمانڈ بھی مکمل ہو چکا ہے اور قصور میں پہلے زیادتی اور قتل کے آٹھ مقدمات میں بھی ملزم ملوث پایا گیا ہے جبکہ ملزم عمران نے دوران تفتیش اپنے جرم کا اعتراف بھی کرلیا۔ ملزم سے مقدمات کی تفتیش مکمل کر لی، اس کے ساتھ ہی ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نے ملزم عمران علی کو چودہ روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کی استدعا کی۔ علاوہ ازیں پراسیکیوشن نے زینب قتل کیس کا مکمل چالان عدالت میں جمع کرا دیا، چالان میں پراسیکیوشن کا کہنا تھا کہ ملزم عمران نے زینب سمیت 8 بچیوں کو زیادتی کے بعد قتل کیا جبکہ ملزم عمران کا ڈی این اے 8 کیسز میں میچ کرگیا ہے۔ زینب قتل کیس کی سماعت 7 دن میں مکمل کریں گے اور زینب قتل کیس کا فیصلہ شہادتوں کی بنیاد پر ہو گا۔ اس حوالے سے پراسیکیوٹر جنرل پنجاب نے تین رکنی ٹیم تشکیل دے دی، جن میں پراسیکیوٹر عبدالرئوف وٹو، وقار بھٹی اور حافظ اصغر شامل ہیں۔ پراسکیوشن ٹیم روزانہ کی بنیاد پر مقدمے کی کارروائی سے متعلق تمام شہادتیں پیش کرے گی۔ بعد ازاں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں زینب قتل سمیت 8 بچیوں کے قتل کے کیس کی سماعت بھی ہوئی۔ عدالت نے ملزم کے خلاف چالان پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے ہدایت کی کہ ملزم کا ٹرائل جیل میں آج سے شروع ہوگا۔ سماعت کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے ملزم عمران کے وکیل نے بتایا کہ قانون کی نظر میں ڈی این اے کی کوئی حیثیت نہیں ہے، جبکہ انہوں نے دعویٰ کیا کہ عمران اس قتل کیس مجرم نہیں ہے اور عمران کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہے۔ جب تک جرم ثابت نہیں ہو جاتا آپ عمران کو مجرم نہیں کہہ سکتے، اور ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کرلیا کہ ملزم عمران نے کہیں بھی اپنا جرم نہیں مانا اور ملزم عمران نہیں ہے۔ اگر شہباز شریف کے کہنے پر کسی کو سزا دینی ہے تو پورے لاہور کو سزا ملنی چاہیے اور یہ دعویٰ بھی کر ڈالا کہ یہ بندہ کورٹ سے بری ہو گا۔ چالان میں ملزم کیخلاف 55گواہوں کی لسٹ لف کی گئی ہے۔ چالان ایک ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔ شہادتوں میں ڈی این اے رپورٹ اور پولی گرافک ٹیسٹ میڈیکل رپورٹ، سی سی ٹی وی ویڈیو اور ملزم کے کپڑے بھی شہادتوں میں شامل ہیں۔ تفتیشی افسر نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ملزم عمران بچوں کو اغوا کرتا اور اسکے بعد انہیں زیادتی کا نشانہ بناتا، ملزم کا ڈی این اے سات دوسرے کیسز میں بھی میچ کیا ہے۔ جیل ٹرائل کی کارروائی کا آغاز ہوتے ہی دہشت گردی عدالت کے جج کی جانب سے ملزم کو چالان کی کاپی فراہم کی جائیگی جبکہ عدالت کی جانب سے ملزم پر فرد جرم بھی عائد کئے جانے کا امکان ہے۔

ای پیپر-دی نیشن