سورۃ بقرہ کے مضامین (21)
صفا اورمروہ کی سعی: صفا اورمروہ مسجد حرام کے پاس دوپہاڑیوں کے نام ہیں، صفا دائیں جانب اورمروہ بائیں طرف ہے ان دونوں کے درمیان تقریباً سوا فرلانگ کا فاصلہ ہے ، صفاکے لغوی معنی صاف پتھر یا خالص چٹان کے ہیں اورمروہ کے لغوی معنی سفید سفید نرم پتھر کے ہیں ، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ رب العزت کے حکم سے اپنی اہلیہ حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا اور اپنے شیر خوار فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کو وادی فاران میں چھوڑ دیا ، جب کھانے پینے کے تمام اسباب ختم ہوگئے تو حضرت ہاجرہ بہت بے چینی اوراضطراب کے عالم میں ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان سعی اورجستجو کرتی رہیں کہ کہیں کوئی پانی کا چشمہ دکھائی دے ، زمانہ جاہلیت میں صفاپر اساف اورمروہ پر نائلہ کے بت نصب کردیے گئے تھے ، اسلام کی روشنی پھیلنے کے بعد مسلمانوں میں یہ تذبذب پیدا ہوا کہ کیا اس جگہ پر سعی کرنا مناسب ہے جہاں پہلے کفر کی علامات موجود تھیں ، مسلمانوں سے کہا گیا کہ تمہیں تو حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا کی پیروی میں اس مقام پر سعی کرنی ہے ، تمہیں مناسب نہیں کہ تم بتوں کی وجہ سے حضرت اسمعیل علیہ السلام کی والدہ مکرمہ کی سنت کوترک کرو مسلمانوں کے دلوں میں جواضطراب تھا س کو قرآن نے بڑے حکیمانہ انداز سے دورفرمادیا۔
تخلیق کائنات میں نشانیاں ہیں : توحید باری تعالیٰ پر دلائل دیتے ہوئے قرآن فلسفیوں کی طرح الجھا ہوا اورپیچیدہ طرز استدلال اختیار نہیں کرتا ۔ بلکہ قرآن کھلے دل ودماغ کے ساتھ کائنات انفس وآفاق میں غوروفکر کی دعوت دیتا، قرآن کے دلائل اتنے روشن اورواضع ہیں کہ ہر شخص انھیں اپنی قابلیت اوراستعداد کے مطابق سمجھ سکتا ہے، ’’آسمان کی نیلی وسیع چھت میں لٹکے ہوئے ان گنت ستارے ، چاند اورسورج پھر ان کا مقررہ وقت پر طلوع وغروب جن میں ایک سیکنڈ کے برابر بھی کبھی فرق نہیں ہوتا، ان کی گردش کے متعین راستے جن سے سرموکبھی انحراف نہیں ہوا، زمین کا یہ کشادہ صحن، اس میں رواں دواں ندیاں اوردریا، رات دن کی پہم گردش، ان کا گھٹنا بڑھنا، بیکراں سمندر کے سینوں پر مسافروں سے لدی اور سامان سے بھری ہوئی کشتیوں اورجہازوں کا خراماں خراماں آنا جانا، گھنگھور گھٹائیں اوران کا موسلادھار برسنا ، پھر مردہ زمین کا دیکھتے دیکھتے سرسبز شاداب ہوجانا، کرہ ہوا میں بادلوں کا منڈلاتے پھرنا، کبھی برسنا اورکبھی آن واحد میں ناپیدہوجانا ایسی چیزیں نہیں جسے عالم تو جانتے ہوں اوربے علم نہ جانتے ہوں جسے دانشمند سمجھ سکتے ہوں اورکم عقل کی سمجھ سے بالاتر ہوں بلکہ کائنات کا ہر خاص وعام کے لیے یکساں طور پر روشنی کا مینار ہے ، ان روز مرہ دکھائی دینے والی چیزوں میں اگر آپ غور کریں گے توآپ یہ کہنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ تنوع میں یکسانیت اختلاف میں توافق ، کثرت میں وحدت اوریہ بے مثال نظم وضبط بغیر کسی علم وحکیم اورقدرت خالق کے بغیر ظہور پذیر نہیں ہوسکتا۔