اتوار ‘ 24؍ جمادی الاوّل‘1439 ھ ‘ 11؍ فروری 2018ء
مقبوضہ کشمیر اسمبلی میں بی جے پی کے پاکستان مخالف نعرے پر رکن اسمبلی اکبر لون کا پاکستان زندہ باد کا نعرہ
پہلے تو ہم صداقت کے برملا اظہار پر اس پر اس ممبر اسمبلی کو مبارکباد پیش کرتے ہیں کہ چلیں اس نے دل کی بات زبان پر لانے کی جرأت تو کی۔اب تو بھارت کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ صرف سڑکوں پر عوام ہی نہیں‘ سنگ باز ہی نہیں خود بھارت کے زیر انتظام مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی کے مسلم ارکان بھی دل سے پاکستان کے ساتھ ہیں۔ یہ تو وہی سیدنا امام حسینؓ کے سامنے شاعر فرزوق کی روداد لگتی ہے۔ جنہوں نے امام سے کہا تھا کہ ’’کوفہ والوں کے دل آپ کے ساتھ مگر تلوار حاکم وقت کے ساتھ ہے۔‘‘ مقبوضہ کشمیر قومی اسمبلی میں اب بی جے پی ، کانگریس اور کٹھ پتلی نیشنل کانفرنس اور حکمران پی ڈی پی کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کا نعرہ صرف مقبوضہ وادی کے گلی کوچوں میں نہیں ریاست کی اسمبلی میں بھی بھارت کے ہوش اُڑانے کے لئے لگ سکتا ہے۔ یہ نوشتہ دیوار بھارت کے انتہا پسند حکمران دہلی دربار میں بیٹھ کر جتنا جلد ممکن ہو پڑھ لیں اتنا ہی بہتر ہو گا ورنہ اس طرح کے نعرے کی آگ اگر ناگالینڈ، آسام‘ میزورام اور مشرقی پنجاب اسمبلی میں بھی بھڑکنا شروع ہو گئی تو پھر کیا ہو گا۔ یہ نعرے کشمیر بنے گا پاکستان کی ہی ترجمانی ہیں۔ مقبوضہ کشمیراسمبلی میں اکبر لون جیسے اور بھی کئی ممبران ہیں جو دل سے پاکستان زندہ باد کہنا چاہتے ہیں۔ اس نعرے کے جواب میں بھی نجانے کتنے ممبران نے زیرلب پاکستان زندہ باد کہا ہو گا۔ اُمید ہے اب مودی اور راجناتھ کو بھی پتہ چل گیا ہو گا کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہرگز ہرگز نہیں ہے۔ بی جے پی کے ہندو ممبران اسمبلی نے پاکستان مخالف نعرہ لگا کر انجام دیکھ لیا ہو گا۔
٭…٭…٭…٭
شاپنگ مال کے ٹرائی روم میں خفیہ کیمرہ کیس میں دو افراد گرفتار
یہ ہمارے معاشرے کے بدترین اخلاقی زوال کی نشانی نہیں تو اور کیا ہے۔ ایسے بدبخت شیطان صفت لوگ ہر جگہ گند مچانے کے لئے موجود ہوتے ہیں۔ ایک اچھے بھلے اعلیٰ شاپنگ مال کے ٹرائی روم میں اگر یہ شیطان لوگ اپنی ہی مائوں بہنوں کو اپنی نظربد کا شکار بنانے سے نہیں چوکتے تو دوسری عام بڑی دکان میں کیا حال ہوتا ہو گا۔ ہمارا معاشرہ یہ کس طرف جا رہا ہے۔ یہاں اب عفت ماب بہنوں مائوں اور بیٹیوں کو لباس خریدتے ہوئے بھی تحفظ حاصل نہیں رہا۔
اب شکر ہے عدالت نے ایکشن لیا ہے گرفتاریاں بھی ہو رہی ہیں۔ مگر یہ صرف کسی ایک شاپنگ مال کا مسئلہ نہیں۔ اس مسئلے پر بارہا مختلف علاقوں سے شہروں سے شکایات عرصے سے آ رہی تھیں مگر انتظامیہ اور پولیس اسے مسئلہ سمجھتی ہی نہیں۔ شاید ان کے لئے غیرت اور عزت کا مفہوم کچھ اور ہے۔ اب چونکہ بڑے پیمانے پر ایک بڑے برانڈ کے سٹور کا نام آ رہا ہے تو اس میں گاہک بھی بڑے لوگ ہی ہوں گے انہوں نے اس مسئلہ پر آسمان سر پر اٹھا لیا۔
اب اس شور و شر میں انتظامیہ اور پولیس کو چاہئے کہ وہ ان شکایات پر بھی جو پہلے موصول ہوتی رہی ہیں‘ فوری ایکشن لے اور ایسی تمام دکانوں کیخلاف سخت کارروائی کرے جہاں یہ غلط حرکت کی جاتی ہے، تاکہ خواتین کا خوف دور ہو اور وہ اطمینان سے خریداری کر سکیں۔ ورنہ ہروقت ہر ایک کو یہی خوف ہو گا کہ کہیں ٹرائی روم میں کوئی خفیہ کیمرہ تو نصب نہیں۔
٭…٭…٭…٭
مشال کیس سے بری ہونے والوں کا پرتپاک استقبال
مشال کے قتل میں سزا سے بچ کر بری ہونے والوں کا مختلف مذہبی جماعتوں نے جس طرح پرجوش اور والہانہ استقبال کیا اس کے بعد تو اب مشال کیس پر منصفوں کے حق میں نعرے لگانے والے یوں دم بخود ہو کر بیٹھے ہیں کہ کاٹو تو ان کے بدن میں لہو نہیں۔ علاقے کے لوگ سہمے ہوئے ہیں۔ پولیس خاموش ہے۔ انتظامیہ کی سانس رکی ہوئی ہے۔ اب کون مشال کیس میں عدالت کے فیصلے پر ڈھول بجائے، یہاں تو ہزاروں لوگ مشال کے قاتل کو حق بجانب‘ اسے مارنے والوں کو مجاہد غازی اور شہید قرار دینے پر تلے ہیں۔ یہ ہجوم باہر سے نہیں آیا۔ پاکستان کی مستند مذہبی سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کا تھا۔ ان کے مقامی لیڈر اسکی قیادت کر رہے تھے۔ ویڈیوز دیکھیں تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں۔ اب مشال کے دوست احباب گھر والے کیا کریں گے کہاں جائیں گے۔ ان کو دلاسہ کون دے ۔ اس کا فیصلہ شاید مردہ باد اور زندہ باد کے نعرے تھمنے کے بعد ہی ہو سکے گا۔ فی الحال تو آنے والے دنوں کا سوچ کر ہی خوف آنے لگتا ہے کہ کیا ہو گا۔
٭…٭…٭…٭
آلو سستا ہونے پر سماج وادی پارٹی کا رہنما آلوؤں کا ہار پہن کر اسمبلی میں آیا
کسان تو ہمارے ملک میں بھی عرصہ دراز سے فصلوں کی قیمتوں کا رونا رو رہے ہیں۔ مگر چونکہ ہمارے ہاں سماج وادی یا عام آدمی ٹائپ کی جماعتیں ختم ہو چکی ہیں۔ سب لینڈ لارڈ فیوڈل کلاس کی جماعتیں رہ گئی ہیں، اس لئے ان کی کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ فیوڈل لینڈ لارڈ جماعتیں جن میں سرمایہ دار سانپ بن کر موروثی نشستیں اور عہدے سنبھالے بیٹھے ہیں سب سے زیادہ کسانوں، کاشتکاروں کی معصومیت کا رونا روتے ہیں اور ان کے برے حالات کا ذکر کر کے مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہیں ۔ مگر مسئلے کا حل کوئی نہیں نکالتا ۔ خود کاشتکاروں اور کسانوں کی حالت کچھ ایسی ہے کہ…؎
ایسا موسم ہے کہ بنجر ہو گئی دل کی زمین
قحط ایسا ہے کوئی آنسوسرِمژگاں نہیں
یہ تو بڑی بات ہے کہ بھارتی سماج وادی کے رہنما آلو کوڑیوں کے بھائو بکنے پر کسانوں کی معاشی بدحالی کا دُکھڑا سُنانے گلے میں آلوؤں کا ہار ڈالے اسمبلی تک جا پہنچے ہیں۔ یہ صاحب خود بھی اسی کلاس سے تعلق رکھتے ہونگے جن کا دکھ انہیں کھا ر ہا ہے۔ اس وقت آلو کے کاشتکار بھارت میں اپنی فصل کم قیمت ملنے پر اسی طرح جلا رہے ہیں سڑکوں پر پھینک رہے ہیں جس طرح پاکستان میں گنے اور کپاس کے کاشتکار اپنی فصل جلا رہے ہیں پھینک رہے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پاکستان میں انکی ترجمانی کرنے والا ان کی کلاس کا نمائندہ کوئی نہیں۔ اسمبلیوں میں سب سرمایہ دار اور جاگیردار ہیں۔
……………