• news
  • image

بٹ کوائین ، خدشات کی زد میں

انسانی تمدن کے پراسرار پہلوؤں میں سے ایک پہلو پیسے، (نقود، مال، کرنسی یا money) کا وجود میں آنا ہے۔ ماہرین معاشیات اب تک کوئی ایسا نظریہ پیش نہیں کرسکے جو اسکے محرکات اور ضروریات کا تشفی بخش جواب دے سکے۔ کسی بھی شے (چیز) کا پیسے کی حیثیت سے استعمال اس وقت ممکن ہے جب وہ لین دین کے کام آسکے اور دولت کا ذخیرہ کرسکے۔ تاریخ میں مختلف اشیاء نے پیسے کے فرائض انجام دئیے ہیں۔ سب سے زیادہ دیرپا اور پائیدار استعمال سونے اور چاندی کے سکوں کا رہا ہے۔ پیسہ ہمیشہ سرکاری اجارہ داری میں ٹکسال (Mint) سے جاری ہوتا تھا، جس طرح ہتھیار سازی اور اس کے استعمال پر بھی سرکاری قبضہ ہوتا تھا۔
جدید معیشت میں بینک نوٹس، چیک اور کریڈٹ کارڈ یہ کام کرتے ہیں لیکن جسے قانونی کرنسی ( Fat Money) کہا جاتا ہے وہ صرف ریاست کی سرپرستی میں جاری ہوتی ہے۔ ٹیکنالوجی کے فروغ اور ایک مصنوعی دنیا (virtual world) کی ایجاد کیساتھ ایک نئی کرنسی جسے ڈیجِٹل (Crypto) کرنسی اور بٹکوائن بھی کہا جاتا ہے وجود میں آ گئی ہے۔ دنیا کی تجارت کا ایک اچھا حصہ اب انٹرنیٹ کے ذریعے سے ہونے لگا ہے۔ اس تجارت میں بھی عام طور پر ادائیگیوں کا طریقہ وہ ہی ہے جو روزہ مرہ کی حقیقی دنیا میں ہوتا ہے یعنی ڈیبٹ کارڈ یا کریڈٹ کارڈ وغیرہ کچھ مخصوص طریقے بھی ایجاد ہوئے ہیں مثلاً پے پیل (Pay-pal) جس کے استعمال سے آپ اپنی شناخت بتائے بغیر خریداری کرسکتے ہیں لیکن جس کرنسی نے اس مصنوعی دنیا میں جنم لیا ہے اور ایک تہلکہ مچا دیا ہے وہ بٹکوائن ہے اور یہ دعویدار ہے ان صفات کی جو حقیقی دنیا میں سرکاری کرنسی سے منسلک ہیں۔ بٹکوائن کو آپ عام کرنسی سے خرید سکتے ہیں اور یہ انٹرنیٹ پر خریداری میں بھی کسی حد تک استعمال ہوسکتی ہے لیکن یہ ایک خیالی کرنسی ہے جس کا کوئی جسمانی وجود نہیں ہے یہ ایک بٹوہ ہے جو آپ بٹکوائن کی بہت ساری ویب سائٹس پر جا کر ایک اکاؤنٹ کی صورت میں حاصل کرسکتے ہیں۔ اس کیلئے صرف مستند ای میل ایڈرس درکار ہوتا ہے۔ بٹکوائن خریدنے کیلئے آپ کسی فروخت کرنیوالے کو تلاش کرتے ہیں، جو اسی سائٹ پر موجود ایکسچینج پلیٹ فارم سے مل جاتا ہے۔ جب آپ نے بٹکوائن خرید لی اور قیمت ادا کردی تو آپ کے بٹوے میں اس تعداد کی بٹکوائن جمع ہو جاتی ہیں۔ جس طرح آپ نے بٹکوائن کو خریدا ہے ویسے ہی فروخت بھی کرسکتے ہیں۔ لہذا اس کا تبادلہ دوسری کرنسیوں کیساتھ ویسے ہی ہوتا ہے جیسا روپے اور ڈالر میں ہوتا ہے لیکن بٹکوائن کے وجود کی نشانی صرف ایک خفیہ پاس ورڈ ہوتا ہے۔ بٹکوائن کی ملکیت کا تعین آپکی ذاتی شناخت پر نہیں بلکہ صرف اس پاس ورڈ کے علم سے ہوتا ہے اگر یہ کھو گیا تو آپ کی بٹکوائن بھی کھو گیئں۔ بٹکوائن ایک مخصوص تعداد میں جاری ہوئی ہیں اور ان میں اضافے کے عمل کو mining کہا جاتا ہے جس میں کوئی بھی انفرادی اور گروہی شکل میں شرکت کرسکتا ہے۔ کیونکہ یہ عمل بہت پیچیدگی کا حامل ہوتا ہے لہذا ہر کوئی اس کا حصہ نہیں بنتا۔ عام صارف تو صرف اس کی خرید و فروخت اور اس کی قیمت کے اتار چڑھاؤ پر نظر رکھتا ہے۔
یہاں یہ ضروری ہے کہ ہم اس کرنسی سے متعلق چند اہم ترین حقائق واضح کردیں اول، یہ کوئی قانونی کرنسی نہیں ہے۔ دوم، اسکے ذریعے آپ انٹرنیٹ سے باہر کوئی لین دین نہیں کرسکتے، حتیٰ کہ جب اس موضوع پر کوئی کانفرنس بھی ہو رہی ہوتی ہے تو وہاں بھی یہ کرنسی کی حیثیت سے استعمال نہیں ہوتی۔ سوم، اس کی پشت پر کسی قسم کی کوئی ضمانت کسی اتھارٹی کی طرف سے جاری نہیں کی گئی ہے۔ چہارم، کیونکہ اس کی کوئی سرکاری سرپرستی نہیں ہے لہذا اسکی قیمت کے اتار چڑھاؤ سے کسی کو کوئی سروکار نہیں ہے، جبکہ سرکار اپنی کرنسی کی قدر کو مستحکم رکھنے کیلئے مختلف اقدامات اٹھاتی رہتی ہے۔اب ہم اس بات کو سمجھاتے ہیں کہ بٹکوائن کی قیمت میں اتار چڑہاؤ کی وجوہات کیا ہیں۔ درحقیقت بٹکوائن، کرنسی صرف اس وجہ سے کہلاتی ہے کہ یہ لوگوں میں مقبول ہے اور مارکیٹ میں اس کا عام تبادلہ ہوتا ہے۔ جو کسی بھی کرنسی کیلئے ایک بنیادی مطلوب ہے۔ کیونکہ اس کا تبادلہ ہو رہا ہے لہذا اسکی قیمت میں اتار چڑھاؤ بھی ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں اسکی تعداد محدود ہے اور اس وجہ سے کچھ لوگوں کو ضروری نہیں ہے کہ جس قدر مقدار میں بھی وہ چاہیں اس کو خرید لیں۔ کیونکہ فروخت کرنے والا اور خریدنے والا تعداد اور قیمت کے ملاپ سے ہی تجارت کو مکمل کر سکتا ہے، اس لئے قیمت میں ردوبدل ایک فطری نتیجہ ہے۔
اگر ہم اس بات کو سمجھ گئے تو یہ سمجھنا آسان ہوجائیگا کہ مارکیٹ پر جو عوامل اثر انداز ہوتے ہیں وہ ھی یہاں بھی کارفرما ہونگے لیکن یہ ایک خصوصی مارکیٹ ہے، کوئی سبزی منڈی نہیں ہے، جہاں قیمتوں کا تعین بڑی حد تک اشیا کی رسد (supply) پر ہوتا ہے یہ مارکیٹ تو صرف مصنوعی دنیا میں کام کر رہی ہے۔ لہذا یہاں سارا انحصار لوگوں کی نفسیات پر ہے اور یوں یہ کرنسی پراسریت کی دبیز چادر اوڑھ لیتی ہے اور سادہ لوح لوگ جو اس کاروبار کے پیچ وخم سے لاعلم ہیں ایک بڑے مالی حادثے سے دوچار ہوسکتے ہیں۔ یہ اس نفسیاتی عمل ہی کا حصہ ہے کہ بٹکوائن کی قیمت گذشتہ دسمبر میں 20 ہزار ڈالر تک چڑھ گئی تھی اور اس وقت تقریباً 8 ہزار تک گر گئی ہے۔ اس تمام تر اتار چڑھاؤ میں معاشی عوامل کا کوئی دخل نہیں ہے۔ اگر یہ حال کسی سرکاری کرنسی کا ہوتا تو اس کا مطلب ہوتا کہ ملک میں افراط زر 21 ہزار فیصد تک پہنچ گیا ہے، جو ایک بڑی تباہی کا باعث ہوتا۔
ماہرین کا خیال ہے کہ بٹکوائن ایک غبارہ اور فراڈ ہے، باوجودیکہ اس کی بنیاد کچھ ایسے معاشی اصولوں پر رکھی گئی ہے جو آزاد معیشت کی ایک انتہا پسند سوچ پر مبنی ہیں جن کے مطابق حکومت کی معاشی معاملات میں مداخلت معاشی استعداد کو بگاڑتی ہے (خصوصاًً پیسے کی قدر میں غیر ضروری کمی جو وہ افراط زر کے زریعے پیدا کرتی رہتی ہے) لہذا اس مداخلت کا خاتمہ ضروری ہے۔ غبارہ اور فراڈ درحقیقت اعتماد اور دھوکے کا مرکب ہے۔ ابتداء میں کسی خیالی سکیم کے متعلق اعتماد پیدا کیا جاتا ہے (پرکشش اشتہارات اور ترغیبات کے ذریعے) جس سے متاثر ہوکر لوگ اس کا حصہ بن جاتے ہیں لیکن جب یہ اعتماد آخری حد کو پہنچ جاتا ہے تو پھر فرار کی راہ اختیار کی جاتی ہے یہ وہ وقت ہوتا ہے جب آخر میں رہ جانے والے لوگوں کو علم ہوتا ہے کہ جن بظاہر قیمتی اثاثے کے وہ مالک ہیں وہ تو کسی قابل ذکر قدر کے حامل نہیں ہیں۔
ڈبل شاہ، مضاربہ، دادا بھائی اور بیشمار مثالیں ہمارے سامنے ہیں یہ تمام اسکیمیں لوگوں کو دھوکہ دینے کیلئے وضع کی گئی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ لوگ اس کاروبار سے بہت منافع کما لیتے ہیں، لیکن فراڈ کے معاملات میں یہی ہوتا ہے کہ کچھ جیبیں خالی ہو جاتی ہیں اور کچھ جیبیں بھر جاتی ہیں، لیکن صرف انتقال دولت (Transfer of Wealth) کیوجہ سے نہ کے کسی معاشی پیداواری عمل کے نتیجے میں اور اب تو یہاں باقاعدہ فراڈ بھی پکڑے گئے ہیں جس میں جعلی مائنگ کے ذریعے بٹکوائن وضع کرلی گیئں جس سے قیمتیں بری طرح متاثر ہوئیں۔ ابھی کل کی بات ہے، بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق روس نے اپنے کچھ نیوکلیر سائنسدانوں کو گرفتار کیا ہے جو غیر قانونی طور پر سوپر کمپیوٹرز کو استعمال کرکے بٹکوائن کی مائننگ کر رہے تھے اگر اس پیمانے پر یہ کام ہونے لگے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ سارا کاروبار کتنے خطرات کا حامل ہے۔ اگرچہ بٹکوائن کو کسی ایک ادارے نے نہیں بنایا ہے اور نہ اس پر کسی ایک گروہ کا قبضہ ہے، لیکن اس کا انجام روز اس جانب بڑھ رہا ہے جو اعتماد و فراڈ کی اسکیموں کا ہوتا ہے۔
ماہرین اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ بہت جلد بٹکوائن کی قیمت صفر تک پہنچ جائے۔ پاکستان میں بھی یہ وبا پھوٹ پڑی ہے اور بہت سے احباب نے استفسار بھی کیا کہ اس سلسلے میں کیا مشورہ ہے ہمارا مشورہ عام قارئین کی خدمت میں حاضر ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن