کشمیر پر سودے بازی میں فوج رکاوٹ تو بنے گی ہی
فوج کے لئے یہ طعنہ نہیں، اعزاز کی بات ہے کہ وہ اپنے آئینی حلف کے تحت ملک کی خارجہ اور دفاعی پالیسی کی سختی سے حفاظت کرتی ہے۔ نام نہاد جمہوریت پسند حلقے فوج پر گرجتے برستے ہیں کہ وہ منتخب حکومت کو ان دو شعبوں میں من مانی نہیں کرنے دیتی۔
چند روز قبل جب قوم یوم یک جہتی کشمیر منا رہی تھی تو میڈیا میں خبر آئی کہ جنرل مشرف نے کشمیر پر سودے بازی کی کوشش کی جسے فوج نے ناکام بنا دیا، اب جو فوج اپنے سربراہ کو کشمیر پر من مانی نہیں کرنے دیتی، وہ کسی وزیراعظم کو ایسا کیوںکرنے دے گی۔
مشرف دَور کے وزیر خارجہ خورشید قصوری یہ دعویٰ کرتے نہیں تھکتے کہ ان کی حکومت مسئلہ کشمیر کا حل دریافت کرنے میں کامیاب ہو چکی تھی، اس سلسلے میں طویل مذاکرات کے بعد بھارت اور پاکستان ایک معاہدے پر متفق ہو چکے تھے، بس اسکی شین قاف درست کرنا باقی تھی کہ عدلیہ تحریک چل نکلی اور سب کچھ ٹھپ ہو کر رہ گیا۔ خورشید قصوری یہ باتیں اپنی کتاب میں بھی لکھ چکے ہیں جس کی مہورت کے لئے وہ بھارت بھی گئے اور وہاں ان کے میزبان کا منہ کالا کر دیا گیا۔ اوّل تو خورشید قصوری یا مشرف کے کسی دوسرے ساتھی نے آج تک اپنے اس کارنامے کے ثبوت میں وہ مسودہ ظاہر نہیں کیا جس کی رُو سے وہ سمجھتے ہیں کہ کشمیر کامسئلہ حل ہو ہی گیا تھا۔ دوسرے اگر اس دعوے پر بھارت میں بھی کسی کو یقین ہوتا تو قصوری صاحب کے میزبان کامنہ کالا کیوں کیا جاتا۔
کیا ہی بہترہوتاکہ جہاں قصوری صاحب نے ہزار صفحات کی کتاب چھاپی، وہاں وہ چند صفحوں کا اضافہ کر کے اس میں کشمیر پر اس مبینہ متفقہ معاہدے کا مسودہ بھی شائع کر دیتے تاکہ پتہ چل جاتا کہ ان کی حکومت نے کیا تیر مارا اور کیا اس کی مدد سے مسئلہ کشمیر حل ہو بھی سکتا تھا یا مزید پیچیدگیوں اور الجھنوں کا شکار ہو جاتا۔
لگتا تو یہ ہے کہ یہ معاہدہ کشمیر پر کسی بندر بانٹ کے مترادف تھا۔ اسی لئے پاک فوج نے اپنے آرمی چیف کو یہ معاہدہ کرنے کی اجازت نہ دی۔ اگر مشرف عدلیہ تحریک میں پھنس گئے تو یہ بھی ایک طریقہ ہی تھا کہ آرمی چیف کشمیر پر سودے بازی نہ کر سکیں۔
پاکستان میں بہت سارے حلقوں کو شوق ہے کہ وہ بھارت نوازی میں کشمیر اسے سونے کی پلیٹ میں رکھ کر پیش کرنے کو تیار رہتے ہیں حالانکہ کشمیر کے مسئلے کے حل کے لئے پاکستان بھارت اور اقوم متحدہ اس فارمولے پر متفق ہو چکے ہیں کہ استصواب کے ذریعے طے کیا جا ئے گا۔ یعنی کشمیری عوام ایک آزادانہ، غیر جانبدارانہ استصواب میں فیصلہ دیں گے کہ کشمیری بھارت یا پاکستان میں سے کس کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں، کشمیریوں سے مراد وہ تمام باشندے ہیں جو سینتالیس میں جموں کشمیر اور لداخ میں رہائش پذیر تھے اور اسی دور کی سرحد کو کشمیر کی سرحد مانا جا سکتا ہے۔ کشمیر کے مسئلے کو صرف وادی جموں و کشمیر تک کی مسلم آبادی تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔ تقسیم ہند اورا ٓزادی کے فارمولے میں طے پایا تھا کہ ریاستوں کو اختیار ہو گا کہ وہ اپنی آبادی کی اکثریت کے پیش نظر کسی ملک میں شامل ہو جائیں، اس ضمن میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ کوئی ریاست اسی ملک میں شامل ہو گی جس کے ساتھ ا سکی جغرافیائی سرحدیں ملتی ہوں۔ کشمیر چونکہ مسلم اکثریتی علاقہ تھا اور پاکستان سے ملحق بھی، اس لئے اسے پاکستان ہی کا حصہ بننا چاہئے تھا مگر بھارت نے پنجاب کی تقسیم میں اس طرح ڈنڈی ماری کہ فیروز پور، امرتسر، جالندھرا ور گورداس پور کے علاقے اپنے اندر شامل کر لئے جس سے بھارت کا کشمیر سے زمینی رابطہ استوار ہو گیا اور اسی راستے سے بھارت نے اپنی فوج کشمیر میں داخل کر دی اور ا س پر غاصبانہ قبضہ جما لیا۔ بھارت کا یہ دعویٰ غلط اور سراسر جھوٹ ہے کہ کشمیر کے مہاراجہ نے بھارت کے ساتھ الحاق کی تحریری درخواست کی تھی، یہ تحریر نئی دہلی میں گھڑی گئی اور اس پر مہاراجہ کے دستخط تک نہ تھے۔ اس طرح بھارت کی عیاری اور فریب کا پردہ چاک ہو گیا۔
کشمیر کو پاکستان کا حصہ قرارداد پاکستان کی منظوری سے بھی قبل تصور کیا گیا تھا جب انیس سو تینتیس میں چودھری رحمت علی نے لفظ پاکستان ایجاد کیا۔ پاکستان میں کاف کا حرف کشمیر کی نمائندگی کرتا ہے۔ اسی لئے قائداعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ قرار دیا تھا۔
اب جو لوگ کشمیر کی جنت نظیر وادی بھارت کو دان کرنا چاہتے ہیں اور اس کے ساتھ دوستی کی پینگ جھلانے کے حق میں ہیں، وہ تاریخی حقائق کو مسخ کر رہے ہیں اور شکست خوردہ ذہنیت کا مظاہرہ کر رہے ہیں، اگرچہ کشمیر کی آزادی کی جنگ لڑنے سے اس وقت کے انگریز آرمی چیف نے انکار کر دیا تھا مگر حقائق اور ریکارڈ سے ثابت ہوتا ہے کہ قبائلی لشکر کی رہنمائی کا فریضہ پاک فوج کی یونٹوں ہی نے ادا کیا اور جنرل اکبر خان رنگروٹ کی خدمات اس سلسلے میں قابلِ فخر ہیں، پاک فوج نے پینسٹھ میں آپریشن جبرالٹر کے ذریعے کشمیر کو آزاد کروانے کی کوشش کی، ہماری فوجیں تیزرفتاری سے جوڑیاں اور اکھنور کی طرف پیش قدمی کر رہی تھیں کہ بھارت نے بین الا قوامی سرحدپر چوروں کی طرح جارحیت کا آغاز کر دیا۔ کشمیر کو آزاد کروانے کی ایک اور کوشش جنرل مشرف نے کارگل کے راستے کی مگر اس وقت کی نواز شریف حکومت نے اس مہم جوئی کو واجپائی کے ساتھ دوستی کو سبوتاژ کرنے کے مترادف سمجھا، نواز شریف کئی بار کہہ چکے ہیں کہ مشرف نے ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپا۔ نواز شریف یہ بھول جاتے ہیں کہ پاک فوج پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی محافظ ہے اور آئین کے تحت اس نے ایساکرنے کا حلف اٹھا رکھا ہے، پاک فوج اس حلف سے روگردانی نہیں کر سکتی اور نہ کسی دوسرے کو ایساکرنے دے گی۔ اس پر کوئی پاک فوج کو برا بھلا کہتا رہے، اس کی باتوں پر کوئی دھیان نہیں دے گا۔
پاکستان میں بھارت کے شردھالو بڑی تعداد میں موجود ہیں، وہ کشمیر کا نام لینے پر میرے مرشد محترم مجیدنظامی کو بھی اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے تھے اور اب حافظ سعید کشمیریوں کی کاز کا علم بردار ہے تو اس کا ناطقہ بھی بند کرنے کی کوششیں جاری ہیں، کس قدر ستم ظریفی ہے کہ آرمی چیف سینٹ کے سامنے اعلان کر چکے ہیں کہ حافظ سعید کے خلاف ملک میں کسی جرم کا ریکارڈ نہیں اور یہی گواہی جناب وزیر اعظم عباسی بھی ایک ٹی وی انٹرویو میں دے چکے ہیں مگر اس کے باوجود ملکی انتظامیہ جماعت الدعوة، فلاح انسانیت کوتنگ کرنے میںمصروف ہے۔ لاہور کے کمشنر روزانہ مرید کے جا کر اس امر کا جائزہ لیتے ہیں کہ حافظ سعید کے ا س تعلیمی مرکز کی وسیع زمینوں پر کیسے قبضہ جمایا جائے۔ عوام کو خبردار کیا جاتا ہے کہ فلاحی تنظیم فلاح انسانیت کو چندہ دینے والے کو ایک کروڑ روپے کا جرمانہ کیا جائے گا۔ حکومت کو حق حاصل ہے کہ وہ کسی کو چندہ اکٹھا کرنے دے یا نہ دے مگر حافظ سعید کی فلاحی تنظیم کو نشانہ صرف اس لئے بنایا جائے کہ وہ کشمیر کے نام لیو اہیں اور اس وادی جنت نظیر کو بھارتی فوج کے چنگل سے رہائی کی دعائیں کرتے ہیں، شردھالووں کایہ وطیرہ کشمیر پرپاکستان کے تاریخی موقف کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔ ان کا بس چلے تو علی گیلانی، یاسین ملک، شبیر شاہ، میر واعظ، آسیہ اندرابی، مسرت عالم، بلال غنی لون، فریدہ بہن جی، کو پکڑ کر اڈیالہ جیل میں ڈال دیں اور قائداعظم کی روح کو اس سے تکلیف پہنچا ئیں جنہوں نے سب سے پہلے کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ قرار دیا تھا۔
کوئی کچھ بھی کر لے کشمیر پر سودے بازی کی اجازت پاک فوج نہیں دے گی۔ اس نے اپنے آرمی چیف جنرل مشرف کی کوشش کو ٹھکرا دیا تو باقی ہما شما کس باغ کی مولی ہیں۔
٭٭٭٭٭