شفاف الیکشن کرائیں گے‘ سپریم کورٹ کی بھرپور یقین دہانی
لاہور (خصوصی رپورٹر)سپریم کورٹ کے سہ رکنی بنچ نے لاہور میں وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہبازشریف کی رہائش گاہ ماڈل ٹائون ایچ 96‘ دفتر ایچ 180 ماڈل ٹائون‘ سابق وزیراعظم محمد نوازشریف کی رہائش گاہ جاتی امراء سمیت گورنر ہائوس‘ آئی جی آفس‘ پاسپورٹ آفس‘ ایبٹ روڈ اور گارڈن ٹائون ‘جماعۃ الدعوۃ کے سربراہ حافظ محمد سعید کی رہائش گاہ جوہر ٹائون‘ جامع مسجد القادسیہ چوبرجی‘ ایوان عدل‘ جامعہ الحسنین‘ منہاج القرآن‘ سابق گورنر سلمان تاثیر کی رہائش گاہ کی سڑکوں سے رکاوٹیں اتوار کی رات بارہ بجے تک ہٹا کر صبح ساڑھے نو بجے سپریم کورٹ رجسٹری کے رجسٹرار کو رپورٹ جمع کروانے کے احکامات آئی جی پولیس پنجاب کو دیئے ہیں، عمل نہ کرنے کی صورت میں انہیں اگلے روز اسلام آباد پہنچنے کی ہدایت کی ۔ مزید برآں چیف جسٹس پاکستان نے وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہبازشریف کو صاف پانی کیس میں بنائے گئے کمشن کی رپورٹ کی روشنی میں اقدامات اٹھا کر اس کی رپورٹ تین ہفتے میں رجسٹری فاضل عدالت کے پاس جمع کروانے کی ہدایت کی۔ چیف جسٹس نے سڑکوں سے رکاوٹیں ہٹانے کا حکم جاری کرتے ہوئے ہوم سیکرٹری اور آئی جی پولیس کو ڈانٹ پلائی اور انہیں کہا کہ شاہ سے زیادہ وفادار بننے کی کوشش مت کریں‘ خطرہ کس کو نہیں ۔ انہوں نے دریافت کیا کہ آپ کا کیا خیال ہے کہ مجھے دھمکیاں نہیں مل رہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئی جی صاحب آپ نے کبھی ہمیں تو نہیں پوچھا کہ آپ کو کوئی ’’تھریٹ‘‘ ہے۔ ہمارے پاس کوئی ڈی ایس پی آتا ہے اور مجھے اور میرے ججوں کے بارے میں ’’تھریٹ‘‘ کا پوچھتا ہے لیکن ہم اسے کہتے ہیں اللہ خیر کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ خادم اعلیٰ عوام کی خدمت کررہے ہیں‘ نیک نیتی کے ساتھ کام کررہے ہیں تو اوپر بیٹھا اللہ ان کی حفاظت کرے گا۔ آپ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار کیوں بن رہے ہیں۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ شہبازشریف نے آئی جی پولیس سے کہا کہ رکاوٹیں ہٹا دیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ رات بارہ بجے تک نہ ہٹائیں تو پھر آپ اسلام آباد آ جائیں اور ہم دیکھیں گے آپ کس طرح آئی جی پولیس رہتے ہیں۔ وزیراعلیٰ رکھنا بھی چاہیں گے تو آپ نہیں رہ سکیں گے۔نیوز ایجنسی کے مطابق ایک موقع پر چیف جسٹس نے وزیراعلیٰ سے کہا کہ آپ حکم عدولی نہیں کر سکتے، آپ ایک لیڈر ہیں، میں جانتا ہوں آپ اگلے مورچوں پر لڑنے والے ہیں ایک آپ ہی تو ہیں جو عدالت کا احترام کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے بطور وزیراعلی شہباز شریف کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے کہا کہ آپ کو عدالت میں خوش آمدید کہتے ہیں اور آپ کی آمد پر مشکور ہیں۔ میاں صاحب عوامی شخصیت بنیں اور عوام میں آئیں۔ ہم جانتے ہیں آپ ہماری بہت عزت کرتے ہیں۔شہباز شریف نے کہا کہ ہم نے عدلیہ کی آزادی کے لئے جدوجہد کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میاں صاحب آپ یہ بات اپنی پارٹی کو بھی سمجھائیں۔ یقین دلاتا ہوں ہم منصفانہ اور شفاف الیکشن کروائیں گے۔ میرا خیال ہے کہ اگلے وزیر اعظم آپ ہوں گے۔ شہباز شریف نے جواب دیا کہ آپ میری نوکری کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا ہم نہیں آپ کے ہی کچھ لوگ آپ کی نوکری کے پیچھے پڑے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تین دفعہ میں یہ بات کہہ رہا ہوں کہ عدلیہ نے صاف، شفاف الیکشن کروانے ہیں۔ تعلیم اور صحت کے مسائل میں سپریم کورٹ آپ کی معاونت کرے گی۔ شہباز شریف نے کہا کہ ہم نے درجنوں ترقیاتی منصوبوں سمیت کول پاور پلانٹ لگائے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا کول پاور پلانٹ کے باعث ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ نہیں ہوگا۔ شہباز شریف نے جواب دیا کہ ماحولیاتی آلودگی کو روکنے کے لیے خاطر خواہ انتظامات کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آئی ایس آئی کے ہیڈ کوارٹرز اور ڈی جی رینجرز کے گھر کے باہر کھڑی رکاوٹوں کو بعد میں دیکھیں گے۔ وزیراعلیٰ کو ڈرا دھمکا کر گھر میں نہ بٹھائیں اپنی فورسز کو الرٹ کریں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ وزیر اعلی عوامی آدمی ہیں اور انہیں کہنا چاہئے شہباز شریف کسی سے نہیں ڈرتا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ کے حکم پر جاتی امرا‘ گورنر‘ وزیراعلیٰ ہائوس اور دیگر اہم عمارتوں کے باہر سے رکاوٹیں ہٹا دی گئیں۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لئے اقدامات جاری ہیں۔ ہمیں تین ہفتے کی مہلت دی جائے۔ ہم پورا ایک منصوبہ تشکیل دے کر عدالت میں پیش کرنا چاہتے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ میاں صاحب آپ نے اتنے بڑے بڑے منصوبے بنا لیتے ہیں تو صحت اور تعلیم جو معاملہ ہے۔ امید ہے یہ کام بھی آپ کر سکتے ہیں۔ یہ آپ نے کر کے دکھانا ہے۔ عدالت آپ کی معاونت کرے گی چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ واقعی شہباز شریف پنجاب میں ترقیاتی کام کر رہے ہیں اور وہ امید کرتے ہیں کہ آئندہ بھی شہبازشریف اسی طرح کام جاری رکھیں گے۔
لاہور (فرخ سعید خواجہ) سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس ثاقب نثار، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منظور ملک پر مشتمل 3 رکنی بنچ 10 بجکر 55 منٹ پر کمرہ عدالت میں پہنچا۔ چیف جسٹس نے اپنے سامنے میز پر رکھا گلاس اٹھایا اور ایک ہی سانس میں پانی پی لیا۔ اس کے بعد انہوں نے کمرہ عدالت پر طائرانہ نظر ڈالی۔ انکے سامنے وزیراعلی پنجاب محمد شہباز شریف، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب شکیل الرحمن خان، صوبائی وزیر رانا مشہورد احمد خان، نصیر بھٹہ ایڈووکیٹ، میاں عرفان ایڈووکیٹ سمیت پنجاب کابینہ کے متعدد ارکان او وکلاء کی بڑی تعداد موجود تھی۔ چیف جسٹس نے کہا آئی جی کو بلا لیں۔ روسٹرم پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب شکیل الرحمن خان آئے اور ان کے ساتھ آئی جی پولیس آ کر کھڑے ہوئے۔ چیف جسٹس نے دریافت کیا ماڈل ٹائون میں رکاوٹیں کس کے حکم پر لگائی گئیں۔ ہوم سیکرٹری پنجاب میجر (ر) اعظم سلطان سن کر اپنی نشست سے اٹھے اور آئی جی کے پاس آ کھڑے ہو گئے۔ چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ ماڈل ٹائون میں کہاں کہاں سڑک پر رکاوٹیں ہیں، آئی جی پولیس نے ایچ 180 اور ایچ 96 کہا۔ چیف جسٹس نے اپنے سامنے رکاوٹوں والی سڑکوں کی فہرست دیکھی اور کہا انہیں ہٹائیں۔ گورنر ہائوس، آئی جی آفس قلعہ گوجر سنگھ، پاسپورٹ آفس کے باہر رکاوٹیں ہٹائیں، ایرانی قونصلیٹ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا اسے بعد میں دیکھیں گے۔ انہوں نے پوچھا کہ جاتی امرا بھی رکاوٹیں ہیں جواب آیا اس کی ایک سڑک بند ہے حکم دیا کہ اسے بھی کھولیں۔ جامع القادسیہ چوبرجی کی باری آئی تو چیف جسٹس نے پوچھا یہ کیا ہے۔ بتایا گیا حافظ سعید صاحب کی مسجد ہے، اسے بھی ہٹانے کی ہدایت کی اور کہا حافظ سعید کے گھر کے باہر سے بھی ہٹائیں۔ جامعہ الحسنین، وہاں سے بھی ہٹائیں، سٹی 42، میڈیا ہائوس کے باہر سے بھی ہٹائیں، چیف جسٹس نے کہا داتا دربار کے حوالے سے دیکھیں گے پہلے بھی یہاں حملہ ہو چکا ہے۔ منہاج القرآن، سلمان تاثیر کی رہائش گاہ کے باہر سے بھی ہٹائیں، آئی جی کی طرف سے کہا گیا انہیں تھریٹ ہے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا خیال ہے مجھے تھریٹ نہیں۔ بزدل قومیں راستے بند کرتی ہیں۔ ایسا ہی ہے تو سی ایم کے گھر پر توپچی بٹھا دیں کہ ان کو بہت خطرہ ہے۔ پھر بولے پولیٹیکل باسز کے لئے حد کراس نہ کریں۔ میاں صاحب پبلک کے آدمی ہیں، انہوں نے وزیراعلی کو مخاطب کیا اور کہا پولیس اہلکاروں نے آپ کو کیوں ڈرایا ہوا ہے، عوامی بنیں اور عوام میں آئیں، انہوں نے وزیراعلی سے استفسار کیا کہ کیا میں ٹھیک کہہ رہا ہوں؟ وزیراعلی پنجاب نے کہا جی ٹھیک کہہ رہے ہیں پھر انہوں نے کہا میں نے کچھ عرض کیا تو حکم عدولی ہو گی اور عدلیہ کے حوالہ سے چند اچھے کلمات کہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایک آپ ہی تو ہیں جو ہماری عزت کر رہے ہیں آج کل اس پر کمرہ عدالت میں بیٹھے تمام لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس موقع پر رانا مشہود نے اپنی نشست سے اٹھ کر روسٹرم یا وزیراعلی کی طرف قدم اٹھایا ہی تھا کہ چیف جسٹس نے صوبائی وزیر کو ڈانٹ پلا دی اور کہا کہ سی ایم کی موجودگی میں پھرتیاں دکھانا مجھے اچھا نہیں لگے گا، اور بھی جو وزراء آئے ہیں سن لیں۔ انہوں نے شہباز شریف کی عدالت میں موجودگی پر اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ انہوں نے وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ کی پیروی کی۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم کوئی سیاست نہیں کر رہے، ہم نے مل کر عوام کے بنیادی حقوق کو یقینی بنانا ہے۔ آپ پنجاب میں بہت اچھا کام کر رہے ہیں مگر ابھی آپ نے مزید بہت کچھ کرنا ہے۔ اس دوران وزیراعلی بھی روسٹرم پر موجود رہے۔ چیف جسٹس نے عائشہ حامد کو روسٹرم پر بلایا اور انہیں واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کے حوالے سے رپورٹ پڑھنے کے لئے کہا۔ وزیراعلی نے انہیں جگہ دی جبکہ آئی جی پولیس اپنی نشست پر جا کر بیٹھ گئے۔ وزیراعلی بھی رپورٹ سنتے اور گاہے بگاہے اس پر نظر دوڑاتے رہے۔ چیف جسٹس نے وزیراعلی سے کہا بے شک اپنی نشست پر بیٹھ جائیں لیکن انہوں نے کہا ’’ٹھیک ہے‘‘۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ’’ویسٹ واٹر‘‘ پاکستانی عوام کی صحت اور فصلوں کو نقصان پہنچا رہا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ عوام کی صحت اور تعلیم کی بہتری کے لئے کام ہو۔ گندگی دریائوں، نہروں میں جارہی ہے، لوگوں اور مویشیوں دونوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ جو ہوگیا سو ہوگیا، آگے دیکھیں، آپ کی ٹیم اچھا کام کررہی ہے، اس پر وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا ’’شکریہ‘‘۔ اس کے بعد انہوں نے عدلیہ کے احترام اور توصیف میں چند جملے کہے جس پر چیف جسٹس نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دیئے ’’آپ کی پارٹی بھی اس راہ پر چلے تو‘‘ چیف جسٹس نے مزید کہا واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کمشن کی رپورٹ حقائق پر مبنی ہے۔ آئوٹ سورسنگ پر میں خوش نہیں ہوں، ہر چیز شفاف طریقے سے ہونی چاہئے، ہم مطمئن نہیں ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ ہم ایمانداری اور شفاف طریقے سے کام کررہے ہیں البتہ غلطی آپ اور میں کرسکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی 10 سال سے حکومت ہے اس صورت حال کو ٹھیک کیا جانا چاہئے تھا، آپ بہتری کے لئے اقدامات کرکے 15 دن میں رپورٹ دیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ ہم 3 ہفتوں میں جو کچھ اس سلسلے میں ہوسکتا ہے کریں گے۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آزادانہ و شفاف الیکشن دیں گے۔ جس پارٹی کی بھی اکثریت آئے میرا خیال ہے کہ وہ آپ کو وزیراعظم لے آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ میں تین دفعہ کہہ رہاہوں کہ عدلیہ نے شفاف، آزادانہ انتخابات کرانے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے مسکراتے ہوئے کہا ’’آپ بھی میری نوکری کے پیچھے پڑگئے ہیں‘‘۔ چیف جسٹس ’’آپ کے اپنے نہ پڑے ہوں، ہم کیوں پڑیں گے‘‘۔ چیف جسٹس نے ایک مرتبہ پھر ریمارکس دیئے کہ صنعتی اور ہسپتالوں کا فضلہ بہت خطرناک ہے، اسے سی سی آئی میں دیگر صوبوں کے ساتھ مل کر ڈسکس کرنا چاہئے۔ اس پر وزیراعلیٰ پنجاب نے اپنی حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے تفصیل بیان کی۔ چیف جسٹس اور فاضل بنچ نے تحمل سے ان کی بات سنی۔ اس کے بعد چیف جسٹس نے وزیراعلیٰ کو مخاطب ہوئے کہا ’’ہسپتالوں میں ایمرجنسی کے حالات اچھے نہیں، آپ اور میں اکٹھے چلیں اور دیکھیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا تھوڑا وقت دیں۔ چیف جسٹس نہیں، آپ کو اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھائوں گا اور کسی بھی ہسپتال کی ایمرجنسی میں لے جائوں گا، کسی کو پتہ نہیں ہوگا کہ ہم نے کہاں جانا ہے‘‘۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ کسی کی زندگی بچانا بہت بڑا کام ہے۔ انہوں نے پانی کی ایک بوتل منگوائی جس پر ایک لیبل لگا ہوا تھا۔ انہوں نے کہا یہ پانی کی بوتل اعتزاز احسن نے بھجوائی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے برملا کہا کہ اعتزاز سیاست کررہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ چلئے مان لیتے ہیں لیکن اس بوتل کا پانی آپ اور میں پئیں تو کیا ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں نے کورٹوں میں موجود پانی ٹیسٹ کروایا، حالت اچھی نہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے انہیں دعوت دی کہ وہ ان کے ساتھ کڈنی اینڈ لیور پلانٹ انسٹیٹیوٹ کے دورے پر بھی چلیں۔ اس پر چیف جسٹس نے انگریزی میں کہا کہ "DO YOU KNOW THE COST OF WHOM" چیف جسٹس کے جواب میں وزیراعلیٰ شہباز شریف نے انگریزی کی ایک نظم سنائی جس کی چیف جسٹس نے داد دی اور کہا کہ آپ اور میں جس عمر میں ہیں ہمیں چاہئے کہ زندگیاں بچانے کے لئے فرائض ادا کریں۔ انہوں نے کہا کہ پینے کے صاف پانی کے حوالے سے اقدامات کریں اور ہمیں بریفنگ دیں۔