افغانستان: 2017ء میں شدت پسندوں کے حملے بڑھے: ریکارڈ 3438 شہری ہلاک، 7015 زخمی ہو گئے: اقوام متحدہ
کابل (نیوز ایجنسیاں+ اے ایف پی) اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ افغانستان کے عوام ملک میں جاری تنازعہ کا بدستور خمیازہ بھگت رہے ہیںاقوامِ متحدہ کے معاون مشن (یو این اے ایم اے)اور عالمی تنظیم کے دفتر برائے انسانی حقوق کی طرف سے مشترکہ طور پر تیار کی گئی رپورٹ جمعرات کو جاری کی گئی ہے 2017 میں پیش آنے والے پرتشدد واقعات میں 3438 شہری ہلاک اور 7015 زخمی ہوئے۔اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے نمائندہ خصوصی تادامیچی یاماموتو کے مطابق خاص طور پر خودکش اور بم حملوں میں شہریوں کو پہنچنے والے نقصانات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس میں خواتین اور بچوں کا متاثر ہونے انتہائی تکلیف کا باعث ہے۔رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس مختلف پرتشدد کارروائیوں میں 359 خواتین ہلاک اور 865 زخمی ہوئیں جو خواتین کے جانی نقصان میں ماضی کی نسبت پانچ فی صد زیادہ ہے۔ ہلاک و زخمی ہونے والے بچوں کی شرح میں بھی دس فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔2017 میں 861 بچے ہلاک اور 2318 زخمی ہوئے تھے۔ حکومت مخالف عناصر دانستہ طور پر شہریوں کو نشانہ بناتے آ رہے ہیں اور گزشتہ برس ہلاک و زخمی ہونے والے شہریوں کی تعداد کا 65 فی صد ان ہی عناصر کی تخریبی کارروائیوں کا نشانہ بنا۔ 45 فی صد شہری طالبان، دس فی صد داعش اور 13 فی صد دیگر حکومت مخالف متحارب عناصر کی کارروائیوں میں ہلاک و زخمی ہوئے۔اسی طرح 16 فی صد شہری نقصان افغان سکیورٹی فورسز، دو فی صد بین الاقوامی افواج اور ایک فیصد حکومت کے حامی مسلح گروپوں کی کارروائیوں میں ہوا۔گزشتہ سال سب سے ہلاکت خیز واقعہ 31 مئی کو کابل میں پیش آیا جس میں عسکریت پسندوں نے تقریبا دو ہزار کلوگرام بارودی مواد سے بھرے ٹرک کو دھماکے سے اڑایا تھا۔ اقوامِ متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر زید رعد الحسین کا کہنا ہے کہ آج افغان عوام ملک میں کہیں بھی محفوظ نہیں، "نہ مساجد میں اور نہ ہی کسی بس میں۔""افغان شہری اپنے روز مرہ معمولات پر جاتے ہوئے مارے جا رہے ہیں۔ بس پر سفر کرتے ہوئے، مسجد میں نماز پڑھتے ہوئے، کسی حملے کا نشانہ بننے والی عمارت کے پاس سے گزرتے ہوئے۔ عالمی ادارے کے معاون مشن کے مطابق 2017 میں بین الاقوامی افواج اور افغان فورسز کی طرف سے کی گئی فضائی کارروائیوں میں بھی قابلِ ذکر اضافہ ہوا جن میں 295 شہری ہلاک اور 336 زخمی ہوئے۔ ماضی کی نسبت سرکاری فورسز کی کارروائیوں میں ہونے والے شہری جانی نقصان میں 23 فی صد کمی دیکھنے میں آئی برس اگست میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اعلان کے بعد افغانستان میں خونریز حملوں میں واضح اضافہ دیکھا گیا کہ امریکہ نے بھی فوجیوں اور جنگی طیاروں کی تعداد میں اضافہ کر دیا تھا، جس کے بعد طالبان اور دیگر عسکریت پسند گروپوں نے بھی اپنی کارروائیاں تیز کر دیں۔