جنگ ستمبر کی کہانی الطاف حسن قریشی کی زبانی
الطاف حسن قریشی صاحب کی ہمت ہے کہ اس وقت جب فوج کو گالی دینا فیشن بن گیا ہے، انہوں نے فوج کے گن گانے کے لئے افوج پاکستان کے بارے میں اپنی وہ تحریریں یک جا کر کے کتابی شکل میں شائع کر دی ہیں جو جنگ ستمبر پینسٹھ کے ضمن میں لکھی گئیں۔ ان کی کتاب کا نام ہے۔ جنگ ستمبر کی یادیں۔
جنگ ستمبر کے حوالے سے صحافت کے شعبے میں جن لوگوںکے نام ذہن میں آتے ہیں، ان میں اردو ڈائجسٹ کے ایڈیٹر الطاف حسن قریشی، حکائت کے ایڈیٹر عنایت اللہ، مشرق کے فیچر نگار ریاض بٹالوی، ریڈیو پاکستان کے تجمل حسین اور نصیر انورکا نام ذہن میں نمایاں طور پر ابھرتا ہے۔ عنایت للہ صاحب نے تو ساتھ ہی ساتھ کئی کتابیں لکھ دیں، تجمل حسین نے روزانہ شام کو اس روز کی جنگ کا احوال آج کی بات کے عنوان سے بیان کیا، نصیر انور شاید لاہور نامہ کے نام سے ایک پروگرام پیش کیا کرتے تھے اور اسی عنوان سے ان کا کالم بھی شائع ہوتا تھا اور ریاض بٹالوی نے مختلف جنگی محاذوں کا دورہ کر کے حقیقت پسندانہ فیچر لکھے، ان کے علاوہ خود آئی ایس پی آر نے بھی حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجی افسروں کے قلم سے جنگ کی روداد لکھوائی۔ میں اگر یہاں جنگ ستمبر کے سلسلے میں نامی گرامی شعرا ئے کرام کا تذکرہ نہ کروں تو یہ سخت ناانصافی ہو گی، انہوںنے ولولہ انگیز جنگی ترانے لکھے جنہیں ہمارے مایہ ناز گلوکاروںنے اپنی زبان کے سحر سے زندہ جاوید بنا دیا۔
الطاف حسن قریشی کا انداز اور کردار البتہ سب سے مختلف، الگ اور منفرد ہے، انہوںنے جنگی محاذوں کا دورہ بھی کیا، اعلیٰ فوجی قیادت سے بھی ملاقاتیں کیں اور سماجی اور سیاسی شخصیات سے بھی تبادلہ خیال کیا۔ بلاشبہ ان کا مشاہدہ سب سے مختلف ہے۔ انہوں نے تحقیق کا بھی حق ادا کیا۔ اور ان کی بعض کہانیاں تو ایسی ہیں جیسے وہ محاذ جنگ سے آنکھوں دیکھا رواں تبصرہ کر رہے ہوں۔
الطاف صاحب کو میں صحافت میں اپنا اولیں استاد مانتا ہوں۔ میں نے رسالے اردو ڈائجسٹ کا نویں جماعت میں باقاعدہ خریدار بنا۔ ایم اے انگریزی ادبیات کر کے میں ان کی صحافتی ٹیم میں شامل ہو گیا، جنگ ستمبر کے بارے میں میں نے ان کی سارے مضامین ساتھ ہی ساتھ مطالعہ کر لئے تھے اس لئے اب ان کے ان تمام جنگی مضامین پر مشتمل کتاب شائع ہوئی ہے تو مجھے اسے دوبارہ حرف بحرف پڑھنے کی ضرورت نہیں پڑی مگر کتاب کے شروع میں انہوں نے ایک طویل دیباچہ تحریر کیا ہے جس میں جنگ کے محرکات اور پس منظر کا جائزہ لیا گیا ہے۔ میں اس پیش لفظ پر صرف اتنا تبصرہ کروں گا کہ اگر الطاف صاحب یہ جائزہ پینسٹھ ہی میں لکھتے تو اس سے بالکل مختلف ہوتا، آج اس جنگ کو پچاس برس بیت چکے ہیں، پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے اورا س دوران ایسے ایسے حوادث رونما ہوئے ہیں جنہوں نے لکھنے والوں کے ذہنوں کو بھی مختل کر کے رکھ دیا ہے۔ میں یہی کہوں گا کہ الطاف صاحب کی کتاب میں شامل جائزے کو آج کے حالات کے تناظر ہی میں دیکھا جائے۔
الطاف صاحب کی کتاب جنگ ستمبر میں جو مضامین شامل کئے گئے ہیں، ان میں اکھنور کے دروازے پر، چھمب جوڑیاں کی صبح آزادی، پہلا دھماکہ، واہگہ سے لاہور۔ لاہور کا محاذ، قیامت کے چودہ دن، معرکہ باٹا پور، معرکہ کھیم کرن، کھیم کرن سے آگے، سرگودھا شاہینوں کا بسیرا، خاص طور پر پڑھنے کے لائق ہیں۔ اگرچہ کتاب کا ہر مضمون خصوصی اہمیت کا حامل ہے مگر پچاس برس گزر گئے، میرے ذہن پر معرکہ باٹا پور کا تاثر ہمیشہ حاوی رہا ہے، ایک تو یہ معرکہ انتہائی اہمیت کا حامل تھا، دوسرے الطاف صاحب نے اسے جس تحقیق اور عرق ریزی کے ساتھ مرتب کیا اور پھر ایک دل نشین اور سلیس انداز تحریر میں پیش کیا، یہ اپنی مثال آپ ہے۔ آپ ذہن میں باٹا پور کا پل لائیں جہاں سے بھارتی ٹینک بڑی آسانی سے لاہور کی طرف پیش قدمی کر سکتے تھے۔ بھارت نے جارحیت کر کے اس پل کا مشرقی کنارہ قبضے میں کر لیا تھا اور مغربی کنارے پر ہر وقت اس کی توپوں کی شدید گولہ باری جاری رہتی تاکہ ہماری فوج اس پل میں بارود نصب کر کے اسے اڑا نہ سکے۔ مگر ہماری دفاعی اسٹریٹیجی میں اس پل کو ہر قیمت پر تباہ کرنا ضروری تھا ورنہ دشمن کسی بھی وقت یہ پل عبور کر کے لاہور پر قابض ہو سکتا تھا، چند میٹر کا یہ پل پاکستان اور بھارت کی افواج کے لئے انتہائی اہمیت اختیار کر گیا تھا۔ بھارت پل کو بچانا چاہتا تھا اور ہم ہر قیمت پر پل کو اڑانا چاہتے تھے۔ ہمارے منصوبوں کو ناکام بنانے کے لئے بھارت نے کسی بھی وقت پل کے ارد گرد کے علاقے میں گولہ باری بند نہیں کی، اس عالم میں پاک فوج کے ذہن میں ایک ترکیب آئی کہ پل کے شمالی جانب میلوں دور سے ایک کشتی رات کے اندھیرے میں پانی میں اتاری جائے، یہ ایک خودکش مشن تھا، ناکامی کی صورت میں اس مشن میں شامل کسی شخص کا زندہ بچنا محال تھا مگر زیادہ نقصان یہ تھا کہ اس ناکامی کے بعد ہم پل کو اڑانے کی کوئی دوسری کوشش کر بھی نہیں سکتے تھے۔ الطاف حس قریشی نے اس مشن کی جو کہانی لکھی ہے، وہ انتہائی ڈرامائی ہے، انتہائی سنسی خیز ہے اور اس پر جیمز بانڈ کی کسی فلم کا گماں ہوتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں اتحادی افواج نے بلجیئم میں ایک دریا کو عبور کر کے فرانس پر قابض نازی افواج پر حملے کا منصوبہ بنایا، مگر جب اتحادی افواج اس دریا کے ایک کنارے پر پہنچیں تو انہیں اچانک پتہ چلا کہ نازی فوج دریا کے دوسرے کنارے پر قابض ہے اور پھر آرنہم قصبے کے قریب واقع دریا کا یہ پل ایک نہ ختم ہونے والی جنگ کا مرکز بن گیا، آرنہم کے اس پل کی جنگ پر کتابیں لکھی گئیں جن میں سے ایک کتاب ”اے برج ٹو فار“ کی تلخیص میں نے بہت دور ایک پل کے عنوان سے کی تھی۔ اسی کتاب پر مبنی بعد میں ایک فلم بھی بنی جسے بڑی شہرت ملی۔ کاش! کوئی ہمارا فلم ساز باٹا پور کے پل کے معرکے پر فلم بنا سکتا۔
الطاف حسن قریشی نے اپنی کتاب تو چھاپ دی مگر آج پاک فوج کو جس قدر متنازعہ بنا دیا گیا ہے، اس ماحول میں اس کتاب کو پذیرائی ملنا مشکل ہے، میرا اپنا تجربہ شاہد ہے کہ میں نے تین سال قبل دفاعی موضوع پر دو کتابیں مرتب کر کے شائع کیں، ایک تھی ضرب عضب اور دوسری تھی اے و طن کے سجیلے جوانو! میری یہ کتابیں میری شائع شدہ تحریروں کا مجموعہ تھیں، ان کی اشاعت کی وجہ صرف یہ تھی کہ ملک میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ کو متنازع بنا دیا گیا تھا۔ ملک بھر کے بک سیلروں نے یہ کتابیں اپنی دکانوں پر رکھنے سے اس بنا پر گریز کیا کہ ایک طرف انہیں دہشت گردوں کی دھمکیوں کا ڈر تھا اور دوسری طرف حکومت وقت نے بھی ان کتابوں کی اشاعت کو شک کی نظروں سے دیکھا۔ خود فوج بھی ان کتابوں کی اخلاقی اونر شپ لینے کو تیار نہ ہوئی۔ اب پتہ نہیں کہ میرے استاد محترم الطاف حسن قریشی کی اس کتاب کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔
جنگ ستمر کا ذکر ریڈیو کا خبر نامہ پڑھنے والے شکیل احمدکے ذکر کے بغیر نامکمل رہے گا جسے بھارت نے اپنا دشمن نمبر ایک قرار دے رکھا تھا، اس کی گونجدار آواز آج بھی دلوں کو گرما دیتی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ہوائی جہازوں نے ہلواڑہ، اودھم پور، جام نگر اور پٹھان کوٹ کے بھارتی ہوائی اڈوں پر نیچی نیچی پرواز کر کے ٹھیک ٹھیک نشانے لگائے ہیں۔
٭٭٭٭٭