مریم نواز کا ملکی سیاست میں ’’کردار‘‘
پاکستان مسلم لیگ(ن) کے صدر محمد نواز شریف نے ’’غیر محسوس ‘‘ انداز میں اپنی صاحبزادی مریم نواز کو سیاسی میدان میں اپنی متوقع ’’سیاسی جانشین ‘‘ کے طورپر اتار دیا ہے انہوں نے عوام کی طرف سے اس فیصلے کا رد عمل معلوم کرنے کے لئے پہلے مریم نواز شریف کو اپنی تقریر سے قبل تقریر کرانا شروع کی پھر انہوں نے مظفر آباد میں اپنی تقریر کے بعد مریم نواز کی تقریر کراکر یہ دیکھنا چاہا کہ’’ کیا میری تقریر کے بعد بھی مریم نواز کی تقریر میں بھی مجمع جما ہوا ہے یا نہیں‘‘ لیکن مظفر آباد میں میاں نواز شریف کی تقریر کے بعد ایک آدمی جلسہ سے اٹھ کر نہیں گیا اس کے بعد میاں صاحب نے مریم نواز کو تنہا جلسوں سے خطاب کی اجازت دے دی ۔ انہوں نے اپنا پہلا عوامی جلسہ بفہ میں کیا جہاں ان کے سسرال والوں نے ان کا بڑا شاندار استقبال کیا۔ گو بفہ کے جلسہ کی حاضری اور اس کا پرجوش ہونا ان کی سیاسی مقبولیت کے ایک بیرومیٹر کی حیثیت رکھتا ہے لیکن جلسہ کی کامیابی میں امیر مقام کا بھی عمل دخل ہے جنہیں جب سے خیبر پختونخواہ مسلم لیگ (ن) کا صدر بنایا گیا ہے نے صوبے میں مسلم لیگ (ن) کے ’’ تن مردہ‘‘ میں جان ڈال دی ہے اور مسلم لیگ (ن) کو کے پی کے کی دوسری بڑی جماعت بنا دیا ہے ۔مریم نواز نے بفہ میں میاں نواز شریف کا مقدمہ خوب لڑا۔ وہ پہلے بھی جارحانہ انداز میں’’ٹویٹ ‘‘کرنے کی شہرت رکھتی ہیں لیکن ان کی بفہ میں ساری تقریر چیف جسٹس آف پاکستان کے ان ریمارکس کے نہ صرف جواب پر مشتمل تھی بلکہ انہوں نے عمران خان کو بھی خوب رگیدا ۔ انہوں نے کہا کہ منتخب نمائندوں کو گالیاں دے کر کون سے آئین کی تشریح کی جارہی ہے ،کبھی گارڈ فادر ،کبھی سسیلین مافیااور کبھی چور اور ڈاکو کہا جا رہا ہے یہ سب کچھ منتخب وزیر اعظم کو گالی عوام کو گالی دینے کے مترادف ہے انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس عمران خان کی زبان استعمال کریں گے تو اس کا جواب ملے گا مریم نواز کی تقریر سے قبل ہی چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی وضاحت آگئی کہ عدالتی آبزرویشن کو سیاق و سباق سے ہٹ کر چلا کر میڈیا نے معاملہ کو کیا سے کیا بنا دیا۔گو مریم نواز کی تقریر میں روانی نہیں وہ رک رک کر اپنے الفاظ کی ادائیگی کرتی ہیں لیکن ان کے الفاظ کا انتخاب زور دار ہوتا ہے وہ جلدفی البدیہہ تقاریر بھی کرنے لگیں گی بہر حال اس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ انہیں عوام کی طرف سے بے پناہ پذیرائی مل رہی ہے جہاں تک عوام کا تعلق ہے ان کو میاں نواز شریف کے سیاسی جانشین کے طور پر قبول کیا جا رہا ہے لیکن ان کا تعلق ایک ایسی جماعت سے ہے جس میں سینئر لیڈروں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے جو نواز شریف کی جگہ لینے کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن اپنے سے جونیئر لیڈر کے تحت کام کرنے سے انکاری ہے ان لیڈروں میں چوہدری نثار علی خان پہلے لیڈرہیں جنہوں نے میاں نواز شریف کو یہ باور کرایا ہے کہ انہیں ان کے یا میاں شہباز شریف کے تحت کام کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ وہ میاں نواز شریف کو اپنا لیڈر تسلیم کرتے ہیں ان کا جھگڑا صرف یہ ہے وہ کسی جونیئر شخص کو اپنا لیڈر تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں انہوں نے برملا کہا ہے کہ وہ ’’سیاسی یتیم بھی نہیںکہ اپنے سے جو نیئر کو سر یا میڈم کہنے کیلئے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوں چوہدری نثار علی خان اور شاہد خاقان عباسی پرانے دوست ہیں لیکن چوہدری نثار علی خان نے اپنے سے چند ماہ جونیئر ہونے کی وجہ سے شاہد خاقان عباسی کی کابینہ میں شمولیت اختیار نہیں کی ۔ اگرچہ مسلم لیگ (ن) میں چوہدری نثار علی خان جیسے خیالات رکھنے والے بہت سے لیڈر موجود ہیں لیکن وہ میاں نواز شریف کے سامنے اپنے دل کی بات کہنے کی جرات سے عاری ہیں ۔ چوہدری نثار علی خان جن کو اللہ تعالی نے مستقبل کے سیاسی نقشہ کے خد وخال تیار کرنے کی صلاحیت دی ہے میاں نواز شریف کے سامنے سچی بات کہنے کا حوصلہ رکھتے ہیں خواہ ان کو اس جرات کی بھاری قیمت ہی کیوں نہ ادا کرنا پڑے۔ میاں نواز شریف اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے نہ صرف سیاسی لحاظ سے زندہ ہیں بلکہ کروڑوں عوام کے دلوں میں بستے ہیں انہیں لوگوں کے دلوں سے نکالنا کسی بھی شخص کے بس کی بات نہیں اقتدار سے نکالے جانے کے بعد ہر آنے والا دن ان کی مقبولیت میں اضافہ کر رہا ہے شاید یہی بات میاں نواز شریف کو چوہدری نثار علی خان سے دور کرنے کا باعث بن رہی ہے اب نواز شریف کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ ان کو پارٹی کے اندر کسی لیڈر کے سہارے کی ضرورت نہیں بلکہ سب ان کے ٹکٹ کے محتاج ہیں میں نے یہ بات مختلف ذرائع سے سنی ہے کہ پارٹی کے بعض بونوں نے جو مریم نواز کے بہت قریب ہونے کے دعوے دار ہیں کہہ رہے ہیں کہ پورے راولپنڈی ڈویژن میں جس شخص کی مرضی سے پارٹی ٹکٹ دئیے جاتے رہے ہیں اب اسے اپنا ٹکٹ ملنا مشکل ہے یہ بات مختلف ذرائع سے چوہدری نثار علی خان سمیت ان کے حلقہ ہائے انتخاب میں لوگوں تک پہنچائی گئی ہے شاید یہی وجہ ہے عمران خان نے بھی اپنی سیاسی زندگی میں پہلا چھکا مارا ہے انہوں نے جہاں چوہدری نثار علی خان کو اپنی پارٹی میں شمولیت کی دعوت دے دی وہاں انہوں نے کہا کہ اگر وہ پی ٹی آئی میں شامل نہیں ہوتے تو آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب لڑیں پی ٹی آئی ان کے خلاف اپنا امیدوار ہی نہیں کھڑا کرے گی یہ بات قابل ذکر ہے این اے 52 کے حلقہ سے 2013ء کے انتخاب میں چوہدری نثار علی خان نے ایک لاکھ 50ہزار سے زائد ووٹ حاصل کئے
تھے ان کی لیڈ 60ہزار سے زائد تھی۔ میں نے گذشتہ روز ہی سینئر صحافی و نوائے وقت کے نمائندے اکرام الحق قریشی اور مسلم لیگی رہنما محمد ظریف راجا کے ہمراہ چوہدری نثار علی خان اور وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے حلقہ ہائے انتخاب میں کلر سیداں، چوہا خالصہ اور سر صوبہ شاہ کا دورہ کیا ہے میں مختلف لوگوں سے ملاقاتوں کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ چوہدری نثار علی خان اور شاہد خاقان عباسی اپنے حلقہ ہائے انتخاب میں ناقابل شکست ہیں۔ گذشتہ روز ایک سرکاری ادارے کے ایک افسر نے چوہدری نثار علی خان کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا کہ ’’ میرا تعلق ہزارہ سے
ہے کاش ! میرا ووٹ چوہدری نثار علی خان کے حلقہ میں ہوتا ان جیسا اپ رائٹ سیاست دان نہیں دیکھا‘‘ اس سے زیادہ چوہدری نثار علی خان کو خراج تحسین پیش نہیں ہو سکتا۔ پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو چوہدری نثار علی خان کو ’’ سائیڈ لائن ‘‘ کرنے والے سازشی عناصر کو’’ شٹ اپ ‘‘ کال دینی چاہیے چوہدری نثار علی خان سیاست تو چھوڑ سکتے ہیں لیکن مسلم لیگ (ن) اورنواز شریف کو نہیں چھوڑ سکتے لہذا چوہدری نثار علی خان کو مخدوم جاوید ہاشمی کی طرح دھکے دے کر پارٹی سے نکا لنے کی پالیسی ترک کر دی جائے ۔ میاں نواز شریف کو تیسری بار ’’طاقت وروں ‘‘ نے اقتدار سے نکال باہر کیا ہے وہ ہر بارپوری قوت سے اقتدار میں واپس آئے ہیں لیکن نواز شریف اور شہباز شریف جانتے ہیں ان کی راہ میں کانٹے چننے والا چوہدری نثار علی خان ہی ہے اب جب کہ نواز شریف اپنی سیاسی زندگی کی مشکل ترین اننگز کھیل رہے ہیں ان کو چوہدری نثار علی خان جیسے ’’جہاندیدہ‘‘ ساتھیوں کی مشاورت کی ضرورت ہے جو مسلم لیگ (ن) کی ہچکولے کھاتی کشتی کو محفوظ طریقے سے ساحل تک پہنچا نے میں مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں ورنہ یہ بات سب کو نوٹ کرنی چاہیے کہ’’ طاقت ور وں ‘‘سے ٹکرانے سے کشتی تباہی سے دوچار ہو سکتی ہے ، ایک خیرخواہ کے طور پر میرا یہی مشورہ ہے کہ اینٹ اینٹ جمع کر کے گھر تعمیر کرنے والوں کو اپنے ساتھ رکھیں ورنہ یاد رکھیں نچلی اینٹوں کے نکالے جانے سے پوری عمارت ہی منہدم ہو سکتی ہے ۔ مجھے ذاتی طور پر اس بات کا علم ہے میاں شہباز شریف ، سردار ایاز صادق اور خواجہ سعد رفیق کشتی میں ہونے والے’’سوراخ‘‘ بند کرنے کی ناکام کوشش کر چکے ہیں۔ این اے 154 کے عوام کا شکریہ ادا کرنے کے لئے میاں نواز شریف لودھراں گئے تو ان کے ہمراہ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اور مریم نواز اور حمزہ شہباز بھی تھے میاں نواز شریف نے اپنی تقریر میں کہا کہ مریم نواز اور حمزہ شہباز دوبارہ حلقے کے عوام کا شکریہ ادا کرنے کے لئے آئیں گے۔ ان کی اس تقریر میں سازشی عناصر کے لیے پیغام ہے کہ شریف خاندان میں قیادت کا کوئی جھگڑا نہیں ۔ اگر خدا نخواستہ میاں نواز شریف کو جیل بھیج دیا گیا اور ان کو صدارت سے ہٹانے کی کوشش کامیاب ہو گئی تو میاں شہباز شریف ہی پارٹی کو بہتر طور پر چلا لیں گے وہ ایسٹیبلشمنٹ کے لئے قابل قبول بھی ہیں۔ مریم نواز کا پارٹی میں اپنا ایک رول ہے وہ راتوں
رات بے نظیر بھٹوکا مقام تو حاصل نہیں کر سکتیں لیکن اس کے لئے ابھی انہیں بہت سے دریا عبور کرنے ہیں ۔ وقت کے ساتھ انہیں ہر وہ چیز مل جائے گی جو ان کا استحقاق ہے لیکن کوئی چیز وقت سے پہلے نہیں ملتی ’’ رومن ایمپائرز‘‘ کے دائیں بائیں بیٹھے لوگ انہیں انسان ہونے کا احساس دلانے والے لیڈر وں کی میاں نواز شریف کو اشد ضرورت ہے چوہدری نثار علی خان کو میاں نواز شریف سے دور کرنے والے خوشامدیوں نے جگہ لے لی ہے کچھ لوگوں کاچوہدری نثار علی خان کی طرف ’’ توپوں ‘‘ کا رخ بلاوجہ نہیں ۔قبل اس کے میاں نواز شریف کو انصاف کی ’’قربان گاہ‘‘ پر چڑھا دیا جائے پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس بلا کر ان تمام امور پر ابہام دورکر دیا جائے جو پارٹی میں کسی وقت بھی تقسیم کا باعث بن سکتے ہیں پلوں کے نیچے سے بہت زیادہ پانی بہہ جانے کے بعد ہوش آنا بعد از مرگ واویلا ہی کہلائے گا۔
٭٭٭٭٭