بھارت: جھولے میں تھی جب والدین نے ’’اپنی اپنی محبت‘‘ کیلئے مجھے چھوڑ دیا: ننھی طالبہ
نئی دہلی/ لندن (آئی این پی) جنوبی بھارت میں نویں جماعت کی طالبہ کو والدین نے اپنی اپنی محبت کی خاطر بے یارومددگار چھوڑ دیا۔ برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق جنوبی بھارت کی طالبہ نے اپنی روداد بیان کرتے ہوئے بتایا کہ جس طرح کوئی کھانا پسند نہ آنے اور کپڑا فٹ نہ ہونے پر آپ اسے چھوڑ دیتے ہیں اسی طرح مجھے بھی چھوڑ دیا گیا۔ میرے والدین نے مجھے بچپن میں ہی تنہا چھوڑ دیا۔کیا ان کا انتقال ہو گیا ہے؟ نہیں، میں یتیم نہیں ہوں۔ میرے والدین زندہ ہیں اور اسی گائوں میں رہتے ہیں جہاں میں رہتی ہوں، میرے والد نے میری پیدائش کے فوراً بعد میری والدہ کو چھوڑ دیا اور کسی دوسری عورت سے شادی کر لی۔ اس کے بعد میری ماں نے بھی مجھے چھوڑ دیا۔ وہ بھی کسی دوسرے آدمی کی محبت میں چلی گئیں۔ میرے ماموں کو مجھ پر ترس آیا اور انھوں نے مجھے پالا۔ جب میں چیزوں کو سمجھنے کے ذرا لائق ہوئی تو انھوں نے ہی مجھے میرے والدین سے ملایا۔ میں نے انھیں اداس نظروں سے دیکھا۔ میں نے سوچا کہ وہ مجھے کھینچ کراپنے گلے سے لگا لیں گے لیکن انھوں نے مجھے کسی انجان کی طرح دیکھا۔ پھر میرے ماموں نے مجھے ایک این جی او کی جانب سے چلنے والے ہاسٹل میں ڈال دیا۔ وہیں میری سوتیلی بہن میں داخل تھی۔ میرے والد اکثر اس سے ملنے آتے اور چھٹیوں میں گھر لے جاتے۔ میں خاموشی سے دیکھتی اور انتظار کرتی کہ کیا وہ کبھی مجھے بھی گھر آنے کے لئے کہیں گے۔ پھر دوسرے بچوں کی طرح مجھے چھٹیوں کا انتظار نہیں ہوتا۔ میرے لئے چھٹیوں کا مطلب پیسوں کے عوض کھیتوں میں کام کرنا ہے۔ ورنہ مجھے کھانا نہیں مل سکے گا۔کبھی کبھی میں مویشی بھی چراتی ہوں۔ میں اپنی اجرت ماموں کے گھر دیتی ہوں۔ اس کے بدلے وہ مجھے کھانے اور رہنے کی جگہ دیتے ہیں۔ ان سب کے باوجود میں اب بھی اپنے والدین سے محبت کرتی ہوں۔ میں ان کی محبت کے لیے تڑپتی ہوں۔ میں ان کے ساتھ تہوار منانے کا خواب دیکھتی ہوں۔ لیکن دونوں کے اپنے ساتھی اور بچے ہیں۔مجھے ایسی کوشش کرنے سے بھی خوف آتا ہے۔ میں صرف اپنے دوستوں سے تہواروں کی کہانیاں سنتی ہوں۔ ان کی چھٹیاں بالکل میرے خوابوں جیسی ہوتی ہیں۔ میرے دوست ہی میرے حقیقی بھائی بہن ہیں۔ ہاسٹل کی وارڈن میری اصل ماں کی طرح ہیں۔ ان کے ساتھ ہی میں نے 'ماں کی محبت' کو سمجھا ہے۔ مجھے سب سے اچھے کپڑے دیتی ہیں۔ میں فی الحال نویں کلاس میں ہوں اور یہ ہاسٹل بچوں کو صرف دسویں کلاس تک رکھتا ہے۔ مجھے نہیں پتہ کہ اس کے بعد کہاں جانا ہے۔ میں اپنی تعلیم نہیں چھوڑوں گی۔ میری تعلیم میری زندگی کو سنوارنے کا واحد ذریعہ ہے۔ میں ڈاکٹر بننا چاہتی ہوں۔ شادی سے نفرت ہے۔